کراچی میں لوگوں کے پسینے سے بھیگے ہوئے چہرے، لاہور میں بجلی سے محروم بستیاں، تھر میں خشک سالی اورگوادر کے پسے ہوئے ماہی گیر یہ سب چیخ چیخ کر ہمیں بتا رہے ہیں کہ یہ موسم صرف گرمی کا نہیں ظلم کا ہے، ناانصافی کا ہے، یہ صرف سورج کی آگ کا موسم نہیں، یہ طبقاتی ناانصافی کی دہکتی ہوئی آگ کا موسم ہے۔
زمین کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے، سمندر بلند ہو رہے ہیں، آسمان سے کبھی سیلاب اترتے ہیں، کبھی قہر بن کر دھوپ برستی ہے لیکن کیا یہ آفات سب کے لیے برابر ہیں؟ کیا امیر اور غریب اس دھوپ میں ایک جتنے پگھلتے ہیں؟ کیا سیلاب کے پانی سب کے گھر ایک طرح بہا لے جاتے ہیں؟ نہیں، بالکل نہیں۔
یہ کالم لکھتے ہوئے میرے سامنے وہ چھوٹا سا بچہ ہے جو لیاری کے ایک گندے نالے کے قریب کی بستی میں گرمی سے بے حال ہو کر ماں کی گود میں رو رہا ہے۔ ماں اپنے پھٹے دوپٹے سے ہوا کررہی ہے، بجلی کا کوئی امکان نہیں ہے اور دوسری طرف پوش ایریا کے ایک بنگلے میں اے سی کی ٹھنڈک سکون بخش رہی ہے۔ زمین ایک، موسم ایک، آسمان ایک لیکن زندگی کے پیمانے الگ الگ ہیں۔
پاکستان میں اس وقت موسم گرما صرف ایک فطری مظہر نہیں رہا، یہ ایک سماجی، اقتصادی اور طبقاتی بحران بن چکا ہے۔ جسے ہم’’ کلائمیٹ چینج‘‘ کہتے ہیں، اس کا اصل مطلب ہے قدرتی نظام کا انسان کے ہاتھوں بگاڑ لیکن اس بگاڑ کا بوجھ صرف وہی اٹھاتا ہے جس کے پاس بچنے کے ذرایع نہیں۔
تھر کے صحراؤں میں آج بھی وہی قحط ہے جو تیس برس پہلے تھا لیکن وہاں نہ تو کوئی ’’کولنگ سینٹر‘‘ کھلا ہے نہ ہی کوئی جدید سہولتیں موجود ہیں اور اگرکہیں کوئی NGO آ بھی گئی تو وہ بھی تصویریں کھینچ کر واپس چلی گئی۔ تھرکے بچے آج بھی کنویں کا گرم پانی پی کر اپنی پیاس بجھاتے ہیں جب کہ شہر میں بچے منرل واٹرکی بوتل سے پانی پیتے ہوئے منہ بناتے ہیں کہ پانی ٹھنڈا نہیں۔
حکومتیں بدلتی رہیں، نعرے بدلتے رہے لیکن جن کے چولہے دھوپ میں ٹھنڈے ہو جاتے ہیں اُن کے دن کبھی نہیں بدلے۔اب آئیے سیلاب کی طرف، جولائی کا مہینہ ہے، مون سون کی بارشیں شروع ہو چکی ہیں۔ خیبر پختونخوا سے لے کر سندھ کے نشیبی علاقوں تک پانی نے پھر سے بستیاں بہا دی ہیں، مگر ان پانیوں میں بھی امتیاز ہے، جوکوٹھیاں پہاڑوں پر بنی ہیں، وہ محفوظ رہتی ہیں، جو جھونپڑیاں ندی کے کنارے ہیں، وہ بہہ جاتی ہیں۔ جو لوگ کشتی خرید سکتے ہیں، وہ بچا لیے جاتے ہیں جن کے پاس صرف دعائیں ہیں، وہ ڈوب جاتے ہیں۔
دو ہزار بائیس کے تباہ کن سیلاب کو ہم نے ایک سبق بنانا تھا لیکن ہم نے اسے صرف ایک خبر بنا دیا۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے مگرکیا آج اُن کے لیے مستقل گھر بنائے گئے؟ کیا ان کے بچوں کو اسکول علاج یا روزگار ملا؟ نہیں بس چند راشن کے تھیلے، کچھ سوشل میڈیا پر تصویریں اور پھر خاموشی۔ وہی پرانا سبق کہ غریب کا دکھ خبر بنتا ہے مگر اس کا حل کبھی نہیں آتا۔
یہ سب کچھ صرف فطرت کا قہر نہیں، یہ سرمایہ دارانہ نظام کی سفاکی بھی ہے۔ ایک ایسا نظام جس نے ماحول کو بھی ایک منافع کی چیز بنا دیا ہے۔ جنگلات کاٹ کر ہاؤسنگ سوسائٹی بنائی جاتی ہے، ندیوں کا راستہ روک کر شاپنگ مال کھولے جاتے ہیں، پہاڑوں کو کاٹ کر ہائی وے بنتی ہے اور جب زمین چیخنے لگتی ہے تو الزام کسی اور پر لگا دیا جاتا ہے۔موسمیاتی تبدیلی کا تعلق صرف کاربن سے نہیں بلکہ انسانی رویوں سے ہے۔ جب ہم زمین کو صرف دولت بنانے کا ذریعہ سمجھیں گے تو وہ کبھی نہ کبھی اپنا حساب لے گی اور یہ حساب ہمیشہ کمزوروں سے شروع ہوتا ہے۔
ہمیں سوچنا ہوگا کیوں گرمی سے سب سے زیادہ مزدور مرتے ہیں؟ کیوں سیلاب میں سب سے پہلے کسان بہتے ہیں؟ کیوں بجلی کی بندش کا اثر سب سے زیادہ ان گھروں پر ہوتا ہے جہاں جنریٹر نہیں؟ کیوں واٹر ٹینکر صرف ان علاقوں میں جاتا ہے جہاں ادائیگی ہوسکتی ہے؟اس کا ایک ہی جواب ہے کیونکہ ہم نے ایک ایسا سماج بنا لیا ہے جہاں انسان کی قدر اس کے سرمائے سے ہے، اس کی جاگیر سے ہے، اس کے بجلی کے بل ادا کرنے کی استطاعت سے ہے۔ جہاں زندگی ایک تجارتی شے بن چکی ہے، امیروں کے لیے قابلِ حفاظت، غریبوں کے لیے قابلِ فراموش۔
ان حالات میں امید کی کرن کہاں سے آئے؟ وہ تب آئے گی جب ہم یہ مان لیں کہ ماحولیاتی انصاف سماجی انصاف کے بغیر ممکن نہیں۔ جب ہم مان لیں کہ ایک ہرے بھرے درخت کو بچانا صرف ماحولیاتی اقدام نہیں بلکہ ایک سیاسی اور طبقاتی عمل ہے۔ جب ہم یہ سمجھیں کہ تھرپارکر کے لیے پانی کا مطالبہ بھی اتنا ہی انقلابی ہے جتنا اسلام آباد میں آئینی حقوق کی بات۔
یہی وقت ہے کہ محنت کش، کسان، طلبہ، اساتذہ اور وہ سب جنھوں نے ہمیشہ حالات کے تھپیڑے کھائے وہ اپنی آواز بلند کریں، صرف نعرے کے طور پر نہیں، ایک اجتماعی سیاسی طاقت کے طور پر۔ ایک ایسی تحریک جو یہ مانے کہ کارخانے کے دھوئیں سے لے کر ایئرکنڈیشنڈ دفاتر تک ہر جگہ کا ماحولیاتی بوجھ غریب کے کندھے پر پڑ رہا ہے۔
گرمیوں کے دن گزر جائیں گے، بارشیں بھی تھم جائیں گی لیکن جو سوال ہمیں آج تپتی ہوئی سڑکوں سے بھاگتے ہوئے سیلابی پانی سے اور تاریکی میں ڈوبے گھروں سے پوچھنا چاہیے، وہ ہمارے ضمیر کا امتحان ہے۔کیا ہم یہ خاموشی برداشت کریں گے؟ کیا ہم مان لیں گے کہ کچھ لوگوں کو جینے کا حق صرف اس لیے نہیں کہ ان کے پاس اے سی یا جنریٹر نہیں؟ یا ہم اٹھ کھڑے ہوں گے ایک ایسے نظام کے خلاف جو زمین کو بھی بیچ دیتا ہے اور انسان کی سانس کو بھی؟ مجھے امید ہے کہ ایک دن گرمی کا یہ موسم نہیں بدلے گا، بلکہ نظام بدلے گا۔