لاہور:
پنجاب میں یکم اگست سے بٹیرکے شکار کا سیزن جاری ہے جو 15 اپریل تک جاری رہے گا تاہم اس دوران غیرقانونی شکار اور پوچنگ کرنے والوں کے خلاف کارروائیاں کی جارہی ہیں اور رواں سیزن کے دوران اب تک 132 مقدمات درج کیے جاچکے ہیں۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق پنجاب وائلڈلائف ایکٹ 1974 ترمیم شدہ 2025 کے تحت کسی بھی قسم کے غیر قانونی شکار، پوچنگ کو قابل دست درازی پولیس اور ناقابل ضمانت اقدام قرار دے دیا گیا ہے۔
پنجاب میں اب غیرقانونی شکار پر 50 ہزار سے 50 لاکھ روپے تک جرمانہ اور سات سال تک قید کی سزا ہوسکتی ہے۔
پنجاب وائلڈ لائف ایکٹ کے تحت شکار صرف مقررہ موسم، یومیہ حد اور لائسنس کے ساتھ ہی ممکن ہے جبکہ قومی پارکس، وائلڈ لائف سنکچوریوں اور گیم ریزروز میں شکار مکمل طور پر ممنوع ہے۔
موجودہ سیزن میں بٹیر کا شکار 15 اگست سے 15 اپریل تک جاری رہے گا اور روزانہ زیادہ سے زیادہ 50 پرندے شکار کیے جاسکتے ہیں، بارانی بٹیر کے لیے یکم اگست تا 30 ستمبر یومیہ حد 6 رکھی گئی ہے۔
اسی طرح مہاجر آبی پرندوں خصوصاً مرغابیوں اور ہنسوں کے شکار کی اجازت یکم اکتوبر سے 31 مارچ تک صرف ہفتہ اور اتوار کو ہے اور روزانہ حد 10 پرندے ہیں۔
کرینز کا سیزن 15 اگست سے 15 اپریل اور یومیہ حد تین ہے، چکور اور سی سی یکم نومبر سے یکم مارچ تک پانچ پانچ، کالے اور بھورے تیتر صرف اتوار کو 15 نومبر تا 15 فروری 6 پرندے روزانہ شکار ہوسکتے ہیں، بڑے جانور جیسے نیل گائے اور اڑیال صرف خصوصی پرمٹ کے تحت شکار کیے جاسکتے ہیں۔
ماضی میں غیرقانونی شکار اور پوچرز کے خلاف استغاثہ عدالت میں جمع کروایا جاتا تھا اور عدالت ملزم کو سزا دیتی تھی جبکہ غیرقانونی شکار اور پوچنگ قابل ضمانت جرم تھے تاہم پنجاب حکومت نے جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے پنجاب وائلڈ لائف ایکٹ 1974 میں 2025 کے دوران اہم ترامیم کی ہیں جن کے تحت غیرقانونی شکار اور پوچنگ کو سنگین جرم قرار دے دیا گیا ہے۔
ایڈیشنل چیف وائلڈلائف رینجر سیدکامران بخاری نے بتایا کہ ترمیم شدہ قانون کے مطابق سیکشن 9، 11، 12، 13، 20 اور 28 کی خلاف ورزی پر کم از کم دو سال اور زیادہ سے زیادہ 5 سال قید اور 50 ہزار سے 10 لاکھ روپے تک جرمانہ ہو گا، ہتھیار، گاڑیاں اور دیگر آلات ضبط کر لیے جائیں گے اور بعض سنگین جرائم پر 5 سے 7 سال قید اور 50 لاکھ روپے تک جرمانہ تجویز کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ مقدمات قابل گرفت اور غیر ضمانتی ہوں گے جن کی سماعت خصوصی عدالتوں میں ہوگی۔
انہوں نے بتایا کہ وائلڈ لائف رینجرز کو ایف آئی آر درج کرنے کا اختیار دیا گیا ہے اور ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوٹر عدالت میں پیروی کرے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ترمیم کے بعد ایف آئی آر درج کرنے کا اختیار وائلڈلائف رینجرز کو دیا گیا ہے لیکن ابھی چونکہ رولز کی منظوری کا عمل جاری ہے اس وجہ سے مقدمات پولیس کی مدد سے درج کروائے جارہے ہیں۔
جنگلی حیات کے تحفظ کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے ناصرف غیرقانونی شکار اور پوچنگ کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہوگی بلکہ قانونی شکار کے رجحان میں اضافہ ہوگا۔
قانونی شکاریوں کا کہنا ہے کہ شکار پرمٹ کے حصول کے لیےآن لائن پورٹل مزید تیز اور فعال بنایا جائے کیونکہ اکثر پورٹل کالنک ڈاؤن ملتا ہے۔