پہلے تو ایک حقیقہ سنیے۔پشاور میں قیوم خان کے خلاف ایک جلسہ ہو رہا تھا۔تقریروں کے ساتھ نعرے بھی لگ رہے تھے۔کوئی بھی شخص کسی بھی وقت چلاتا۔ نعرہ تکبیرحاضرین کی طرف سے جواب آتا۔اللہ اکبر
انقلاب۔زندہ باد
پاکستان۔زندہ باد
جمہوریت۔زندہ باد
کسی کو اس وقت یاد آیا تو اس نے کہا۔ دیواستبداد۔جواب آیا زندہ باد۔اس وقت شاید قبولیت کا وقت تھا چنانچہ تب سے اب تک دیواستبداد زندہ باد ہی چلا آرہا ہے۔ علامہ نے تو یہ کہا تھا
دیواستبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
اور یہ دیواستبداد اور نیلم پری کا قضیہ بہت پرانا ہے کیونکہ یہ جو ’’دیواستبداد‘‘ ہے یہ بڑا مکار بڑا عیار ہے ہمیشہ آزادی کی نیلم پری کا لباس چراکر پائے کوب ہوتا ہے یعنی ناچتا ہے۔چنانچہ سعدی شیرازی نے بھی اسے جان پہچان لیا تھا کہ
بہر رنگے کہ خواہی جامہ می پوش
من انداز’’قدس‘‘ رامی شناسم
ترجمہ۔تم چاہو ہر رنگ کا لباس پہن لو میں تمہارے قدوقامت سے تمہیں پہچان لیتا ہوں۔اس پر حافظ آف شیراز نے کہا
پری نہفتہ رخ و دیودرکرشمہ حسن
پسنوزعقل زحیرت کہ ایں چہ بولعجبی
ترجمہ۔پری منہ چھپائے بیٹھی ہے اور دیو اس کے لباس میں اپنے ’’حسن‘‘ کے کرشمے دکھاتا ہے۔ سارا سال ’’دیو‘‘ ہی پائے کوب رہتا ہے ۔قومی دن قومی جوش وخروش اور ساتھ خورد ونوش سے منائے جاتے ہیں بلکہ ’’خورد برد‘‘ سے کہیے،مذہبی تہوار بھی جو ش و خروش سے منائے جاتے ہیں کشمیر اور فلسطین کے دن یکجہتی سے منائے جاتے ہیں۔
سارے بدن کا خون پسینے میں ڈھل گیا
اتنے جلے کہ جسم ہمارا پگھل گیا
کہ یہ جسم جلنے اور پسینے میں ڈھلنے کے لیے ہی تو پیدا ہوتے ہیں ان کا اور مصرف کیا ہے ایک دیوانے نے کہا کہ
سوچتا ہوں کہ اب انجام سفر کیا ہوگا
پاوں بھی کانچ کے ہیں راہ بھی پتھریلی ہے
یہ تو دیوانوں کا مسئلہ ہے فرزانے تو’’سر اور پر‘‘ بھی رکھتے ہیں ہوا میں اڑ کر کسی اور باغ میں کسی اور درخت پر بسیرا کرلیں گے ایک اور دیوانے نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ
مجھ کو ’’بے رنگ‘‘نہ کردیں کہیں یہ رنگ اتنے
سبز موسم ہے ہوا سرخ فضا نیلی ہے
بہرحال حقیقت یہ ہے کہ’’دیواستبداد‘‘ اس جمہوری قبا میں اسی طرح ناچتا رہے گا اور جمہوری تماش بین اس پر نوٹ نچھاور کرتے رہیں گے اور آزادی کی نیلم پری اسی طرح نہفتہ رخ رہے گی۔اور آخر میں ایک چھوٹی سی کہانی۔کہتے ہیں ایک کسان کھیت میں بیلوں کے پیچھے ٹخ ٹخ کرتا ہوا ہل چلا رہا تھا کہ راستے پر ایک گانا بجاتا جلوس گزرنے لگا۔
جلوس کے ایک شخص نے کسان سے کہا۔کسان نے بیل ٹھہرا کر پوچھا کیسا جشن؟تو اس شخص نے کہا آزادی کا جشن۔ انگریز ہمارا وطن چھوڑ کر جارہے ہیں۔کسان خوش ہو کر بولا یہ تو بڑی خوشی کی بات ہے میں بھی چلتا ہوں لیکن دو چار قدم چلنے کے بعد اس نے پوچھا یہ بتاؤ انگریز پٹواری اور تھانیدار کو بھی ساتھ لے جارہے ہیں نا۔اس شخص نے کہا نہیں تو؟ صرف انگریز جا رہا ہے پٹواری اور تھانیدار تو رہیں گے۔کسان نے کہا جب پٹواری اور تھانیدار کو نہیں لے جارہے ہیں تو کیسی آزادی؟اور پلٹ کر ہل چلانے لگا۔