سوچ انسان کی زندگی ہے، جسے وہ گزارتا ہے کیونکہ زندگی کا ہر منظر سوچ سے جنم لیتا ہے، یہاں تک کہ اللہ رب العزت نے فرمایا ہے کہ ’’انسان میرے بارے میں جیسا گمان یا سوچ رکھتا ہے میں اس کے لیے ویسا ہی ہوں‘‘۔
سوچ انسانی ذہن پر اثر ڈالتی ہے اور اسی سوچ کے زیر اثر انسانی ذہن آپ کے کردار کی تشکیل کرتا ہے، اور یہ کردار ہی متعین کرتا ہے کہ آپ کہاں کھڑے ہیں۔ اسی لیے تو کہا جاتا ہے Life is just a state of mind اور حقیقتاً جیسی آپ کی سوچ ہوگی ویسی ہی آپ زندگی گزارو گے۔
فرمان ہے ’’انما الاعمال بالنیات‘‘ یعنی اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ مثبت یا صحیح نیت یا سوچ ہوگی تو اعمال بھی مثبت ہوں گے اور نتائج بھی۔ سوچ کے دو میدان ہیں۔ ایک عقلی سوچ (Rational Thinking) اور دوسرا میدان تجرباتی سوچ (Experimental Thinking) پر مشتمل ہے۔
ریسرچ یہ ثابت کرتی ہے کہ خواتین کی اکثریت تجرباتی سوچ کے دائرہ اثر میں ہوتی ہے جبکہ مردانہ طبقہ زیادہ تر عقلی سوچ پر اکتفا کرتا ہے۔ اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ خواتین میں مردوں کی نسبت عقل کم پائی جاتی ہے یا یہ کہ مردوں میں خواتین کی نسبت عقل زیادہ پائی جاتی ہے۔ یہ صرف سوچ کے وہ دو میلان ہیں جن کے زیر اثر دو الگ الگ نتائج برآمد ہوتے ہیں، جن کی بنا پر زندگی گزارنے کا دائرہ کار مکمل طور پر تبدیل ہوجاتا ہے۔ اسی لیے جو خواتین تجرباتی سوچ کے بجائے عقلی سوچ اپنائے ہوئے ہوتی ہیں ان میں خود اعتمادی بھی زیادہ ہوتی ہے اور ان کے زندگی گزارنے کے بہترین طریقے اور کامیاب نتائج تجرباتی سوچ کی حامل خواتین سے یکسر مختلف ہوتے ہیں۔ کیونکہ عقلی سوچ انسان کو استقامت دیتی ہے اور ایک استقامت سو کرامت پر بھاری ہوتی ہے۔
عقلی سوچ عموماً اسباب اور نتائج ( cause and effect) پر مشتمل ہوتی ہے، جبکہ تجرباتی سوچ چار درجوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ تجربہ، تاثر، سوچ،اور عمل۔ اور بعض اوقات کچھ لوگ ان کو متضاد طور پر استعمال کرتے ہیں جیسا کہ پہلے سب سے تجربہ، پھر سوچ، پھر عکاس اور پھر عمل۔ بہرحال اس سوچ کا یہی دائرہ کار ہوتا ہے۔ یعنی کسی رنگ، پتھر، دن، وقت، چرند پرند یا یہاں تک کہ کسی انسان کو بھی اپنے لیے بابرکت یا منحو س قرار دینا، یہ دیکھ کر یا سن کر کہ فلاں نے فلاں دن یہ کام شروع کیا تو وہ کامیاب ہوگیا، یہ عمل کیا تو کامیاب قرار پایا، اس شخص سے ملا تو کامیابی حاصل ہوئی، اس شخص نے دیکھا تو ناکام ہوا۔
یہ تجرباتی سوچ نہ صرف روحانی نظام کو تہہ بالا کرتی ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ جسمانی نظام کی بربادی کا بھی باعث بنتی ہے۔ خواتین، مردوں کی نسبت اس سوچ کی حامل کیوں ہوتی ہیں؟ اس کے متعلق ماہرین کی مختلف آراء ہیں، ایک تو ہارمونل ڈسٹربنس مردوں کے مقابل خواتین میں زیادہ ہوتی ہے، جس کی وجہ سے ان کی سوچ کسی ایک منطقی نتیجہ پر پہنچنے سے پہلے ہی مختلف کیمیائی عمل کی وجہ سے اسباب کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے کئی طرح کے نتائج اخذ کر لیتی ہے۔ دوسری بڑی وجہ ناخواندگی یعنی جہالت یا علم سے دوری ہے۔ خاص کر ہمارے ہاں خواتین کے مقابل مردوں کی زیادہ تعداد تعلیم یافتہ ہوتی ہے لہٰذا ان کی سوچ کا دائرہ کار بھی مختلف ہوتا ہے۔ علم صرف کتابوں سے نہیں ملتا بلکہ معاشرہ بھی ایک طرح سے انسان کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ مردوں کی زیادہ تعداد خواتین کی نسبت زیادہ سوشل ہوتی ہے اس لحاظ سے بھی معاشرہ میں جو ایک بنیادی کردار سبب اور نتیجہ کا ہوتا ہے اس سے بھی سوشل افراد کی سوچ کا دھارا تبدیل ہوجاتا ہے اور یقیناً معاشرہ عقلی سوچ فراہم کرنے کا ایک مضبوط ادارہ ہوتا ہے، جس سے تربیت مرد افراد زیادہ پاتے ہیں، کیونکہ ہمارے ہاں خواتین کا زیادہ تر وقت گھر داری کے معاملات میں گزرتا ہے۔ لہٰذا ان کی سوچ کا میلان عقلی کی نسبت تجرباتی سوچ کی طرف زیاہ ہوجاتا ہے ۔
بحیثیت مسلمان ہمیں سب سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ اسلام اس بارے میں ہم سے کیا تقاضا کرتا ہے؟ اس بارے میں اسلام کا موقف بالکل واضح ہے۔ اسلام ہمیں علم حاصل کرنے اور عقل کو استعمال کرنے کا حکم دیتا ہے۔
سوچ کا عمل تو قدرت کی طرف سے ہر وقت جاری رہتا ہے لیکن ایسی سوچ جو علم کے ساتھ مربوط ہو وہی عقلی سوچ ہوتی ہے جو صحیح راہ کی طرف نمائندگی کرتے ہوئے دین اسلام کی منشا سمجھاتی ہے، جبکہ ایسی سوچ جو علم کے بغیر ہو وہ ایک غیر عقلی اپروچ ہوتی ہے جو دین اسلام کی صحیح روح کے بالکل برعکس توہمات کی دنیا کی طرف نکل جاتی ہے، جس کا اسلام کی منشا کے ساتھ کوئی تعلق ہے ہی نہیں۔
اسی لیے ہمارے ہاں خواتین کی زیادہ تعداد مردوں کی نسبت توہمات پر زیادہ یقین رکھتی ہے جو کہ دین اسلام کے بالکل منافی ہے۔ توہمات کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوسکتا، یا تو ایک انسان توہم پرست ہوگا یا مسلمان، کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔
جب ہم یہ سمجھ لیں گے کہ اللہ کی پیدا کردہ مخلوق (جن و انس، چرند، پرند) اپنے تصرفات میں اپنے خالق کے برابر آگئے ہیں، نعوذباللہ، یعنی وہ سب وہ کام کرسکتے ہیں جو کہ ایک خالق کے ہی لائق ہے، تو گویا ہم نے اپنے خالق پر اپنی اس خود اعتمادی کو کھو دیا جس کا ہم سے بحیثیت مسلمان تقاضا کیا گیا تھا۔ ہم نے اپنے خالق یعنی اللہ تبارک تعالیٰ کی قدرت میں اس کے ساتھ شریکوں کو ٹھہرا دیا۔ اور شرک وہ ظلم عظیم ہے جس کی کسی طور پر بھی معافی نہیں۔ اور معذرت کے ساتھ اس ظلم عظیم کا ارتکاب خواتین، مردوں کی نسبت زیادہ کررہی ہیں صرف ایک سوچ کی تبدیلی سے۔
ضرورت ہے کہ تجرباتی سوچ کے بجائے عقلی سوچ کی طرف بڑھا جائے۔ دین الٰہی کی روشنی میں، دین کے علم کو عقل کے بغیر پڑھنا، اور عقل کو علم کے بغیر بڑھانا دونوں کے نتائج ہی خطرناک ہوسکتے ہیں۔ اسی لیے تو قرآن پاک میں علم حاصل کرنے کے ساتھ بار بار فہم اور تدبر کی تعلیم دی گئی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔