ڈیجیٹل جزیروں  کے سراب پر تنہا ہجوم

اسکرین نے ہمیں وہ سب کچھ دکھایا جو ہم دیکھنا چاہتے تھے، مگر وہ چھپا لیا جو ہمیں دیکھنا چاہیے تھا


اکرم ثاقب December 06, 2025
تیزی سے بدلتی ہوئی مصنوعی دُنیا، میں خود کو بدل کر حقیقی کام یابی حاصل کریں ۔ فوٹو : فائل

یہ ایک عجیب تضاد ہے، لیکن حقیقت یہی ہے کہ انسانوں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ساتھ انسانیت کی مقدار گھٹتی جارہی ہے۔ 

کہاوت ہے کہ ’’بندہ بندے کا دارو‘‘ مگر آج کا بندہ زیادہ تر اپنے بھائی کے اسٹیٹس، اسٹوری اور پروفائل پکچر کا محتاج ہو کر رہ گیا ہے۔ ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں ہر طرف ہجوم ہے، مگر ہر چہرہ تنہا ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جہاں ’’رابطے بہت، رشتے کم‘‘ کا محاورہ صرف شاعری نہیں، بلکہ روزمرہ کی حقیقت بن چکا ہے۔

ہر شخص کے ہاتھ میں ایک اسکرین ہے، اور ہر دل میں ایک خالی پن۔ ہم نے ایک دوسرے سے جڑنے کےلیے جتنے زیادہ پلیٹ فارمز بنائے ہیں، اتنا ہی ہم ایک دوسرے سے دور ہوتے چلے گئے ہیں۔ سچ ہے کہ ٹیکنالوجی نے ہمارے فاصلے مٹائے، مگر دلوں کے فاصلے بڑھا دیے۔

کبھی سوچا ہے کہ ہم نے کتنے ’’رابطہ خانے‘‘ بنا لیے ہیں؟ فیس بک، انسٹاگرام، ٹویٹر، واٹس ایپ، سگنل، ٹیلیگرام، ہر ایپ میں چیٹ کا آپشن ہے، ہر ہاتھ میں دنیا، مگر جب دل اداس ہوتا ہے تو کوئی ’’اِن باکس‘‘ میں نہیں آتا۔ صرف نوٹیفکیشن کی بے ہنگم آوازیں گونجتی ہیں۔

کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ’’آپ کی خاموشی دیکھنے کے لیے آنکھوں کی ضرورت ہوتی ہے، مگر آپ کا اسٹیٹس پڑھنے کےلیے صرف انٹرنیٹ چاہیے‘‘۔ یہ وہ دور ہے جہاں لوگ اپنی سالگرہ پر کیک سے زیادہ ’’لائیکس‘‘ گنتے ہیں، اور جہاں ’’آن لائن‘‘ ہونا زندگی کی علامت بن چکا ہے، چاہے دل حقیقت میں کتنا ہی ’’آف لائن‘‘ کیوں نہ ہو۔

ٹیکنالوجی نے ہمیں وہ سب کچھ دیا جس کا خواب تھا، گھر بیٹھے کھانا، انگلی کے اشارے پر ٹیکسی، مگر اس سب کے بدلے ہم نے کیا کھویا؟ ’’دل کی بات‘‘ اب صرف ’’ٹائپنگ...‘‘ میں رہ گئی ہے، اور ’’آنکھوں کی زبان‘‘ فلٹرز میں چھپ گئی ہے۔

مصنوعی ذہانت نے ہمیں سہولتیں تو دیں، مگر قدرتی بے حسی بھی ساتھ لائی۔ اب کسی کی آنکھوں میں آنسو دیکھنے کے بجائے، ہم اس کی ’’سوری‘‘ والی اسٹوری دیکھتے ہیں، اور دل کو تسلی دیتے ہیں کہ ’’کم از کم پوسٹ تو کی ہے، جذبات زندہ ہیں!‘‘

ہم سب اپنے اپنے ڈیجیٹل جزیروں پر رہتے ہیں۔ ہر کوئی مصروف ہے، کسی کو ’’ریلز‘‘ بنانے کی جلدی ہے، کسی کو ’’وی لاگ‘‘ اپ لوڈ کرنا ہے، اور کسی کو ’’ٹویٹ‘‘ میں دنیا کی اصلاح کرنی ہے۔ مگر جب رات کو نیند نہیں آتی، تو کوئی ’’فالوور‘‘ دلاسہ دینے نہیں آتا۔ یہ وہ ہجوم ہے جو تنہائی میں بھی شور کرتا ہے، مگر دل کی خاموشی نہیں سنتا۔ ہر شخص اپنے فون کی اسکرین میں قید ہے، جیسے قیدی کو کھڑکی سے باہر جھانکنے کی اجازت ہو، مگر باہر نکلنے کی نہیں۔

یاد ہے وہ وقت جب کسی عزیز کا خط آتا تھا؟ لفافہ کھولنے سے پہلے دل دھڑکتا تھا، اور ہر لفظ میں جذبات کی خوشبو ہوتی تھی۔ آج، نوٹیفکیشن آتا ہے: "Your package has been delivered" اور ہم خوش ہوجاتے ہیں کہ شاپنگ کامیاب رہی، چاہے دل خالی ہی کیوں نہ ہو۔ اب ’’انتظار‘‘ کو وقت کا ضیاع سمجھا جاتا ہے، اور ’’صبر‘‘ کو کمزوری۔ ہم نے تو شیطان کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے، اور اب ہر کام ’’پری آرڈر‘‘ سے پہلے ہی مکمل چاہتے ہیں۔

اسکرین نے ہمیں وہ سب کچھ دکھایا جو ہم دیکھنا چاہتے تھے، مگر وہ چھپا لیا جو ہمیں دیکھنا چاہیے تھا۔ اب ہر چہرہ فلٹر شدہ ہے، ہر بات ایڈیٹ شدہ، اور ہر جذبات ایموجی شدہ۔ ’’چراغ تلے اندھیرا‘‘۔ ہم نے اسکرین کی روشنی میں اپنے اندر کی تاریکی کو نظر انداز کردیا۔ ہم نے اپنی اصل کو اتنا چھپا لیا ہے کہ اگر کبھی خود سے ملاقات ہو جائے تو شاید پہچان بھی نہ سکیں۔ پہلے بزرگوں کی باتیں سننا فخر کی بات ہوتی تھی۔ اب ’’اس نے پرانی بات کی‘‘ کہہ کر اگلے کو ’’اَن فالو‘‘ کردیا جاتا ہے۔ ہم نے تجربے کو ’’اوور ایج‘‘ اور دانائی کو ’’آؤٹ ڈیٹڈ‘‘ قرار دے دیا ہے، جیسے انسان صرف اپ ڈیٹ کے بعد ہی قابلِ استعمال ہو۔ ہم نے فطرت کو چھوڑ کر ’’فیس‘‘ کو اپنا مرکز بنالیا ہے۔ پہلے درختوں کی چھاؤں میں بیٹھ کر باتیں ہوتی تھیں، اب ’’کافی شاپ‘‘ میں بیٹھ کر فون چیک کیے جاتے ہیں۔ ہم نے پرندوں کی چہچہاہٹ کو نوٹیفکیشن کی بیپ سے بدل دیا ہے، اور سورج کی روشنی کو اسکرین کی برائٹ نیس سے۔

کیا ہم واقعی جُڑے ہوئے ہیں؟ یا پھر ہم محض ایک ڈیجیٹل سراب میں اپنے اپنے جزیروں پر تنہا کھڑے ہیں؟ ہمیں دوبارہ سے کتابوں کے صفحات پلٹنے ہوں گے، فطرت کے رنگوں کو آنکھوں سے دیکھنا ہوگا، اور سب سے بڑھ کر، اپنے آس پاس موجود انسانوں کی خاموش کہانیوں کو سننا ہوگا۔ کیونکہ آخر میں ’’انسانوں کی ضرورت انسانوں کو ہمیشہ رہے گی‘‘ چاہے ٹیکنالوجی کتنی بھی ترقی کرجائے۔ اور اگر آپ یہ سب پڑھ کر بھی صرف اتنا سوچ رہے ہیں کہ ’’اِسے شیئر کروں یا نہیں؟‘‘ تو جناب، پہلے کسی کو گلے لگا لیجیے۔ شاید وہ آپ کے ’’ریپلائی‘‘ سے زیادہ آپ کی حقیقی موجودگی کا منتظر ہو۔

 

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تحریر کردہ
اکرم ثاقب
مصنف کی آراء اور قارئین کے تبصرے ضروری نہیں کہ ایکسپریس ٹریبیون کے خیالات اور پالیسیوں کی نمائندگی کریں۔

مقبول خبریں