سانحہ اے پی ایس، قوم سے دائمی اتحاد اور یگانگت کا تقاضہ کرتا ہے

ہماری تقسیم دشمن قوتوں کو مضبوط کرنے کاباعث ہوگی، آپریشن بنیان المرصوص نے دشمن کی نیندیں حرام کردی ہیں


نوید جان December 16, 2025

رواں سال مئی کی دس تاریخ کو جب پاکستان نے اپنے ازلی دشمن بھارت کو دندان شکن اورمنہ توڑ جواب دے کر پوری دنیاکو روطہ حیرت میں ڈال دیا تو پوری دنیا پاکستان کی عسکری قوت وبرتری کی معترف ہونے لگی۔

جب کہ پاکستان نے سفارتی سطح پر بھی دنیاکویہ باورکرایا کہ پاکستان واقعی ایک پرامن جوہری قوت ہے لیکن وہ کبھی بھی جنگ میں پہل کی پالیسی پر گامزن نہیں رہا۔ اس سے قبل جب پاکستان کسی تنازع کو سفارتی سطح پر حل کرانے کی کوشش کرتا رہا تو اسے پاکستان کی کم زوری سمجھاجاتا اوربیرونی شہہ پر کئی عناصر پاکستان کے خلاف اپنے مذموم عزائم کو تکمیل تک پہنچانے کے خواب دیکھتے رہے، لیکن اس ایک وافعہ نے پاکستان خلاف سازشوں اورریشہ دوانیوں میں مصروف پالیسی سازوں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبورکردیا۔

بہرحال یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ بچھوکی عادت ہی ڈنگ مارنے کی ہوتی ہے ،سواب بھی وہ اپنی گھناونی چالوں، سازشوں اورحرکتوں سے باز نہیں آتے، پہلے کی طرح اب بھی وہ ایک بزدل اورزخم خوردہ دشمن کی طرح چھپ کر وار کرنے کا عادی ہے اورایک عرصے سے وطن عزیز میں دہشت گرد تنظیموں کی شکل میں بے گناہ معصوم انسانی جانوں سے کھیلنے کاکھیل جاری رکھے ہوے ہے۔ اگرچہ یہ سلسلہ دودہائیوں سے جاری ہے ،جس میں ہندوستان کی حمایت یافتہ ’فتنۃ الخوارج‘ کے دہشت گرد پیش پیش ہیں ،اسی طرح کئی دیگر ممالک نے بھی اس خطہ کو آگ و خون کے اس کھیل میں جھونکنے کی بھرپور کوشش کی ہے کیوں کہ ان کے اس خطے میں اپنے مفادات ہیں جن کو حاصل کرنے کے لیے وہ کبھی القاعدہ ،کبھی داعش اوراب کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی سرپرستی اورمالی امداد جاری رکھے ہوئے ہیں۔

ان تنظیموں کی کاروائیوں کو نائن الیون کے بعد کافی شہہ ملی جس کا نشانہ زیادہ تر پاکستان ہی بنارہا ،جہاں ہرروز بم دھماکے ، ٹارگٹ کلنگ،خود کش حملے ہوتے رہے جس میں تقریباً اسی ہزارسے زائد پاکستانیوں کی جانیں چلی گئیں، دہشت گرد آئے روزناقابل یقین گھناؤنی حرکت کے مرکت ہوتے رہے جس سے لوگوں کے دل دہل جاتے ،انہی واقعات میں ایک دل خراش اوراندوہناک سانحہ آرمی پبلک سکول اینڈ کالج میں بھی رونما ہوا جہاں علم کی مشعلوں کو چن چن کر بجھانے کی ناپاک جسارت کی گئی ، جو تاریخ میں سب سے دل دوزسانحات میں ایک شمارہوتا ہے۔

 سانحہ اے پی ایس کواب گیارہ سال بیت چکے ہیں۔ 16 دسمبر2014 کے واقعے نے پوری پاکستانی قوم کو یکجا کر دیا اور ہم نے من حیث القوم یہ تہیہ کر لیا کہ پاکستان میں دہشت گردی ،انتہا پسندی اور جنونیت کی کوئی گنجائش نہیں، اگر چہ زخم بہت گہرے تھے لیکن پاکستانی قوم اور اداروں کا عزم اس سے کہیں بلند تھا۔16 دسمبر 2014ء کادن، ہمارے اذہان سے کبھی نہ محو ہونے والا ایک سیاہ ترین دن ہے۔

1099بچے اپنے روحانی رہنماؤں کے ساتھ اے پی ایس پشاورکی عظیم درس گاہ میں موجود تھے۔ صبح کے ساڑھے دس بج رہے تھے جب چھ سفاک دہشت گردوں نے حملہ کیا، دنیا کی تاریخ میں کسی بھی درس گاہ پر ہونے والا یہ اپنی نوعیت کا پہلا حملہ تھا ،انتہائی تربیت یافتہ دہشت گردوں نے سکول کی عمارت میں داخل ہوتے ہی بچوں اور اساتذہ کرام کو اپنے نشانے پر لے لیا۔ 8 سے18سال کے 132معصوم طلباء سمیت 149 افراد شہید ہوئے۔ دنیا میں کہیں کسی بھی ملک میں دہشت گردوں نے اسکول میں معصوموں کو اس سفاکی سے نشانہ نہیں بنایا ہو گا۔

یوں یہ واقعہ دہشت گردی کی تاریخ میں بھی بد ترین مثال بن گیا۔ اس سانحہ کے بعد پوری قوم نے پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کے ساتھ مل کر ایک ایسے آپریشن کا آغاز کیا کہ جس کا ہدف ایک ایسا پاکستان تھا جہاں ریاست ہی کو طاقت کے استعمال کا حق حاصل ہو، 86 ہزار سے زائد قربانیوں کے نتیجے میں آج ہم وہاں کھڑے ہیں جہاں پاکستان کے انچ انچ پر ریاست کی عمل داری ہے۔ یہ زیادہ دور کی بات نہیں کہ جب 2007ء اور 2008ء میں قبائلی علاقوں میں ریاست کی عمل داری نہ ہونے کے برابر تھی۔ آج قبائلی علاقے ریاست پاکستان کا حصہ ہیں اور ریاست کی عمل داری تمام علاقوں میں قائم ہے۔

اس کے لیے قوم اور افواجِ پاکستان نے ایک کامیاب جنگ لڑی ، اے پی ایس واقعہ کے بعد پیش آنے والے واقعات نے ثابت کیا ہے کہ زندہ قومیں چیلنجز سے سرخرو ہو کر ابھرتی ہیں، دہشت گردی کے خلاف اس کامیاب جنگ میں 46 ہزار مربع کلومیٹر کا ایریا کلیئر کیا گیا،18ہزار سے زائد دہشت گرد مارے گئے، 250 ٹن سے زائد بارود قبضے میں لیا گیا، 75 ہزار کی تعداد میں ہتھیار ریکورکئے گئے، جو بڑے جانی نقصان کا باعث ہو سکتے تھے۔ 50 بڑے آپریشن جب کہ ڈھائی لاکھ سے زائد انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کئے گئے اور1200 سے زائد چھوٹے اور بڑے آپریشن کئے گئے لیکن بارڈرکی دوسری جانب حالات مختلف تھے، پاکستان نے جہاں 2611 کلو میٹر بارڈر فینسنگ کا بیڑہ آٹھایا، بارڈر فورٹس اور ٹرمینل قائم کیے، دوسری جانب بارڈر پر 7سے8کلو میٹر تک صرف ایک پوسٹ موجود تھی لیکن پاکستان کے بروقت اقدامات کے باعث افغانستان کے اندر کے حالات و واقعات کے اثرات سے پاکستان کافی حد تک محفوظ رہا۔

بلوچستان میں ہندوستان کے مذموم عزائم کو ناکام بنایاگیا اورکراچی جو کبھی جرائم کے حوالے سے دنیاکاچھٹا شہر تھا وہ اب106نمبر پر چلاگیا ہے۔ پنجاب سے چھوٹوگینگ سمیت دیگر دہشت گردوں کا خاتمہ کیاگیا،نیشنل ایکشن پلان کے تحت60 سے زائد تنظیموں کوکالعدم قرار دیا گیا، 7بڑی دہشت گرد تنظیموں کا قلع قمع کیاگیا لیکن یہ کا میابیاں کب دنیا کو بھاتی ہیں، پاکستان کوکبھی فیٹف تو کبھی آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنسانے کی کوشش کی گئی تو کبھی مشرقی و مغربی سرحدوں پر مسائل کھڑے کئے گئے، کبھی بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کو ہوا دی گئی تو کہیں سندھو دیش کے نعرے لگوانے کی کوشش کی گئی، کہیں ذاتی مفادات کی خاطر اداروں کو نشانے پر رکھا گیا تو کہیں اے پی ایس واقعے پر سیاست کھیلنے کی کوشش کی گئی۔

اے پی ایس میں ظلم وبربریت کی جو کہانیاں رقم کی گئیںان کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اب دوبارہ جو حالات بن رہے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے لگ رہاہے کہ دہشت گرد دوبارہ منظم ہونے کی کوشش میں ہیں حالانکہ یہ خوشی کی بات تھی کہ کسی حد تک امن قائم ہوا تھا۔ یہ سانحہ اے پی ایس میں شہید ہونے والے بچوں کے خون کا ہی صدقہ ہے کہ پوری قوم دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کے حوالے سے متحد ہوئی۔ کاش کہ ہمیں اس اتحاد کے لیے یہ قیمت نہ چکانی پڑتی ،اگر آپریشن ضرب عضب اس سانحہ سے قبل شروع ہو جاتا تو ہوسکتا ہے کہ اے پی ایس سانحہ پیش ہی نہ آتا۔ سانحہ اے پی ایس کے حوالے سے پوری قوم بھی متحد ہوئی اور افغانستان میں بھی دہشت گردوں کے خلاف کاروائیاں شروع کی گئیں۔ آج بھی گڈ اور بیڈ کی اصطلاحات موجودہیں ،اگر انہیں چھوڑ دیاجائے تو غلط فہمیاں دور ہوں گی اور مذاکرات بہتر طریقہ سے آگے بڑھ پائیں گے کیونکہ اگر غلط پالیسیاں جاری رہتی ہیں تو اللہ بہتر جانتا ہے کہ مزید کتنے سانحات ہمیں دیکھنے پڑیں گے جنہیں برداشت کرنے کی ہم میں تاب نہیں۔

9/11 کے بعد القاعدہ ختم ہوئی تو داعش بن گئی،دنیا کے چالیس ممالک اس داعش کو فنڈنگ کررہے ہیں اور اس کی وجہ سے یہاں خطے میں افغانستان بھی عدم استحکام کا شکار ہوگا ،افغانستان کے حالات میں بہتری نہ آنے کے اثرات بھی ہم پر مرتب ہوتے رہیں گے جو اب سے نہیں بلکہ بہت پہلے سے ہیں ،اس وقت پاکستان کو سب سے بڑا چیلنج ٹی ٹی پی کا درپیش ہے جس کے تانے بانے بیرونی سرحد سے ملتے ہیں، اس حوالے سے پاکستان نے افغانستان کے ساتھ دوحہ اور پھر استنبول میں بات چیت بھی کی ہے لیکن افغانستان طالبان اب کسی اورکی بولی بولنے لگے ہیں۔ جس کے باعث اس خطے میں پھر سے افغان ریجیم کی تبدیلی کی سرگوشیاں ہونے لگی ہیں۔

یہ ساری صورت حال اگر پاکستان کے لیے تشویشن ناک ہے تو افغانستان کے لیے بھی کسی بڑے امتحان سے کم نہیں۔ لہذا وہاں کی قیادت کو بڑی ہوش مندی اورسمجھ بوجھ کامظاہرہ کرتے اس خطے کو پھر سے آگ وخون کے اس کھیل سے بچانا ہوگا۔ دوسری جانب اچھی بات یہ ہے کہ ٹی ٹی پی کے خلاف آپریشن کوایک پارٹی کے سوا تمام سیاسی پارٹیوں نے اون کیا ہے،اس حوالے سے یہ بات بھی اہم ہے کہ جب تک افغانستان میں امن نہیں آئے گا ایسے واقعات کو روکا نہیں جا سکتا جب کہ وفاقی حکومت کو یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ صرف خیبر پختونخوا میں تنظیموں کے خلاف کارروائی کیوں جاری ہے، دیگر صوبوں میں ان کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جانی چاہیے۔

 سانحہ اے پی ایس پراس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان نے پانچ اکتوبردو ہزاراٹھارہ کو پشاورہائی کورٹ کو انکوائری کمیشن بنانے کاحکم دیا تھا، اس اقدام سے یقیناًان والدین خصوصاً شہداء کی ماؤں کے دلوں کوکچھ اطمینان تو مل سکے گا جن کے کلیجے آج بھی اپنے پیاروں کو یادکرتے ہوئے پھٹ جاتے ہیں اسی طرح اس اقدام سے قوم کو بھی حقائق سے جان کاری مل سکے گی۔

خیبرپختون خوا کی چند قوم پرست جماعتوں کاموقف ہے کہ بدقسمتی سے ہم ایسے ملک میں رہ رہے ہیں جہاں ہم ان پھول جیسے بچوں کی بھی حفاظت نہیں کر سکے، نیشنل ایکشن پلان جس میں 20 نکات مشترکہ طورپر ڈالے گئے تھے، افسوس ناک امر یہ ہے کہ اداروں پر حملہ کرنے والوں کو تو گرفتار کر کے پھانسی مل گئی لیکن عام افراد کے خون میں ہاتھ رنگنے والوں کو جو اس واقعہ میں اصل محرک تھے اب بھی کوئی سزا نہیں دی جا سکی ہے۔

انہی نکات میں مدارس کی رجسٹریشن، چیک اینڈ بیلنس اور مانیٹرنگ سسٹم کی بات کی گئی کہ جو بھی مدارس کسی دہشت گردی کے حوالے سے کسی کے ساتھ منسلک ہوں گے تو ان کے خلاف بھی سخت اقدامات ہوں گے لیکن اس کے برعکس مدارس کو فنڈزسے نوازاگیا۔ پختون خطے اور قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف بھر پور کارروائیاں ہو رہی ہیں۔ اسی طرح ملک کے دیگر حصوں میں بھی پوری شدت سے کاروائیاں عمل میں لانا ضروری ہیں ۔ ان کے قلع قمع کے لیے سخت اقدامات کرنے ہوں گے جب کہ نیشنل ٹاسک فورس کو بھی تشکیل دینا ضروری ہے، جب تک ان اقدامات پر حکومتیں سنجیدہ رویہ اختیار نہیں کریں گی خیبر پختون خوا کی ہر گلی میں ماتم ہوتا رہے گا۔ اے این پی کا موقف ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے تمام نکات کو من و عنً ماننا چاہیے تھا لیکن اب گیارہ سال کے بعد بھی انصاف نہ ہو سکا اور صرف انصاف کا سوچا جارہا ہے، اب انصاف کسی طور پر ممکن نہیں، تمام سیاسی جماعتوں کو بلا تعصب ایک ہی پلیٹ فارم پر بیٹھنا ہو گا اور اس مسئلے کا کوئی حل ڈھونڈنا ہو گا۔

اب یہاں سوال اٹھتا ہے کہ کیا اے پی ایس شہدا کی داد رسی کی گئی ؟ تحقیق سے پتا چلا کہ جی ہاں داد رسی کی گئی، اگرچہ کوئی بھی مالی فائدہ کسی جان کا مداوا نہیں کر سکتا لیکن پھر بھی حتی الوسع کوشش کی گئی کہ لواحقین کی ہر ممکن مدد کی جائے۔ ان کو نہ صرف پلاٹس دیئے گئے بلکہ نقد رقوم بھی دی گئیں۔ متاثرین اور ورثا کے لیے تاحیات علاج معالجے کی سہولت، بچوں کی مفت تعلیم و تربیت کے علاوہ اللہ کے گھر کا طواف کا بندوبست بھی کیا گیا۔ مجموعی طور پر وفاقی وصوبائی حکومتوں اور پاک فوج کی جانب سے اب تک 1545ملین روپے سے زائد رقم شہدا کے لواحقین اور متاثرین کی داد رسی کے لیے خرچ کی جا چکی ہے، آج بھی ریاست اْن کی ہر ممکن داد رسی کے لیے تیار ہے،دیکھنا یہ بھی ہو گا کہ کیا اے پی ایس کے حوالے سے کوئی انکوائری ہوئی اور کیا ذمہ داروں کے خلاف کوئی ایکشن لیا گیا؟ تو اس حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک جوڈیشل کمیشن بنایا، اس نے30جون 2020ء میں اپنی رپورٹ جاری کی۔

جوڈیشل کمیشن نے تمام متعلقہ لوگوں سے انکوائری کے بعد قرار دیا کہ سیکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں کے خلاف کامیاب جنگ لڑی، جس کے لئے افواج کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے، جوڈیشل کمیشن نے یہ بھی کہا کہ جب حملہ آوروں کے معاون گھر میں ہی موجود ہوں تو دنیا کی کوئی طاقت حملے نہیں روک سکتی اور یہی بات بارہا باور کرائی جاتی رہی ہے کہ جب تک سلیپر سیلز کی صورت دہشت گردوں کی اندرونی معاونت کا سدباب نہیں کیا جاتا، دہشت گردی کا خطرہ موجود رہے گا۔ جوڈیشل کمیشن نے واضح طور پر سیکیورٹی فورسز کو اے پی ایس سانحہ کے متاثرین کی بھرپور داد رسی کرنے پر خراجِ تحسین پیش کیا،سیکیورٹی فورسز پاکستان کو ایک پر امن پاکستان بنانے کے لیے دن رات کوشاں ہیں، ہمیں ان کے ہاتھ مضبوط کرنا ہوں گے اور ہر اس کوشش کو ناکام بنا نا ہو گا جس سے معاشرے میں انتشار اور بد امنی پھیلنے کا اندیشہ ہو۔

مقبول خبریں