پاکستان کا سب سے قیمتی مگر کم سمجھا جانے والا سرمایہ ’پانی‘

پانی انمول ہے، اس کی قیمت کو کسی کرنسی یا دولت کے عوض ناپا نہیں جا سکتا



پانی قدرت کی ایک ایسی نعمت ہے جسے ہم روزانہ استعمال کرتے ہیں، مگر بہت کم لوگ اس کی اصل قدر پر غور کرتے ہیں۔ ہم میں اب بھی زیادہ تر لوگ پانی کو ایک لامحدود اور مفت نعمت تصور کرتے ہیں، جو ہمیشہ ہمارے نلکوں، نہروں اور دریاؤں میں دستیاب رہتا ہے۔ مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ویسے تو کرۂ زمین پہ موجود پانی انسانی ضروریات کے مقابلے میں کئی ہزار گنا زیادہ ہے لیکن اس میں قابل استعمال پانی محدود مقدار میں موجود ہے۔

پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں کیا جاتا ہے جو پانی کی شدید قلت کا شکار ہونے کی جانب تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں بڑھتی ہوئی آبادی، آلودگی اور موسمیاتی تغیرات اس محدود ذخیرے پر شدید دباؤ ڈال رہے ہیں۔

ہم میں سے اکثر لوگ پانی کے حصول کے لیے ادا کی جانے والی رقم، خواہ وہ ایک بوتل کے لیے ادا کیے گئے چند روپے ہوں یا پمپس اور ٹیوب ویل چلانے کے لیے بجلی کی قیمت کو پانی کی اصل قیمت تصور کرتے ہیں۔ درحقیقت، یہ قیمت ہم پانی کے زمین سے نکالنے اور ہم تک پہنچانے کے اخراجات کے طور پر ادا کرتے ہیں۔

صحرا میں پیاس سے نڈھال کسی شخص کے لیے چند گھونٹ پانی کی قیمت اس کا کل سرمایہ ہو سکتی ہے، جبکہ دریا کے کنارے رہنے والے شخص کو یہ نعمت مفت یا انتہائی سستی محسوس ہوتی ہے۔ تو پھر پانی کی اصل قیمت کیا ہے؟

حقیقت میں، پانی انمول ہے، اس کی قیمت کو کسی کرنسی یا دولت کے عوض ناپا نہیں جا سکتا۔ اس نعمت کا متبادل کوئی اور شے نہیں ہو سکتی۔ پانی کی اصل قیمت وہ ہے جو ہم گندے پانی سے پھیلنے والی بیماریوں، فصلوں کی پیداوار میں کمی، خشک ہوتے ہوئے دریاؤں اور اس سے منسلک نقصانات کی صورت میں ادا کرتے ہیں۔ یہ قیمت صحت، پیداوار اور ماحولیاتی نظام کے زوال کی صورت میں ادا کی جاتی ہے۔

ہمارے ملک میں پانی کے ذخائر میں کمی کے آثار واضح طور پر نظر آنا شروع ہوگئے ہیں۔ زیر زمین پانی کی سطح تیزی سے نیچے جا رہی ہے۔ دریاؤں میں پانی کا بہاؤ غیر مستحکم ہو رہا ہے، جو کہ پانی کی دستیابی کو غیر یقینی بناتا ہے۔ جتنا پانی باقی ہے وہ زیادہ تر صنعتی فضلے، آرسینک اور گندے پانی سے آلودہ ہے۔ یہ خطرات ہمارے بلوں پر تو نظر نہیں آتے، مگر ہم ان کی قیمت صحت کی خرابی، کم ہوتی زرعی پیداوار اور بگڑتے ماحول کی صورت میں روز ادا کرتے ہیں۔

پاکستان کی صرف 39 فیصد آبادی کو صاف پینے کے پانی تک رسائی حاصل ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہر دس میں سے چھ سے زیادہ لوگ غیر محفوظ یا غیر یقینی ذرائع پر انحصار کرتے ہیں۔ شہروں میں پرانی اور ٹوٹی پائپ لائنوں سے روزانہ لاکھوں لیٹر پانی ضائع ہوتا ہے، جبکہ دیہات میں خواتین اور بچے میلوں پیدل جا کر وہ پانی لاتے ہیں جو اکثر پینے کے قابل بھی نہیں ہوتا۔

پانی کی عدم مساوات بھی گہری ہے۔ شہری کچی آبادیوں میں رہنے والے غریب گھرانے اکثر فی لیٹر زیادہ رقم ادا کرتے ہیں بہ نسبت ان کے جو نلکوں سے فراہم شدہ پانی استعمال کرتے ہیں۔ پانی ہماری غذائی سلامتی کی بنیاد بھی ہے۔ آج ضائع یا آلودہ کیا گیا ہر قطرہ کل کی پیداوار کو کم کرتا ہے۔ اگر موجودہ حالات برقرار رہے تو پاکستان کو اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کو خوراک مہیا کرنے میں سنگین مشکلات پیش آسکتی ہیں۔

ماحولیاتی تبدیلی نے اس بحران کو مزید بڑھا دیا ہے۔ خشک سالی، سیلاب اور شدید گرمی کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں، جس سے صاف پانی کی فراہمی مزید غیر مستحکم ہو رہی ہے۔ آفات کے وقت پانی صرف پینے یا زراعت کے لیے نہیں، بلکہ زندگی بچانے کا سب سے پہلا وسیلہ بن جاتا ہے۔ اس بحران کا حل پالیسی اور ذاتی دونوں سطحوں پر تبدیلی سے ممکن ہے۔ قومی سطح پر پاکستان کو جدید آبپاشی ٹیکنالوجی جیسے ڈرِپ اور اسپرنکلر نظام اپنانے، صنعتی فضلے پر قابو پانے، اور پرانی آبی تنصیبات کی مرمت پر سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔

آلودگی پر قابو اور گندے پانی کے دوبارہ استعمال کو ہر ترقیاتی منصوبے کا حصہ بنانا ضروری ہے۔ مگر صرف حکومتی اقدامات کافی نہیں۔ ہر گھرانہ پانی کے تحفظ میں کردار ادا کر سکتا ہے۔ نلکوں کی مرمت، پانی کے دوبارہ استعمال، بارش کے پانی کے ذخیرے، اور روزمرہ کھپت میں احتیاط کے ذریعے۔ چھوٹے چھوٹے اقدامات جب لاکھوں لوگ کریں تو بڑا فرق پیدا ہوتا ہے۔ پانی نہ سستا ہے نہ مفت۔ یہ زندگی کی بنیاد ہے۔ ہماری خوراک، ہماری صحت اور ہمارا مستقبل۔ ہم آج اس نعمت کے ساتھ جو سلوک کریں گے، وہی کل کے پاکستان کی شکل طے کرے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مصنف کی آراء اور قارئین کے تبصرے ضروری نہیں کہ ایکسپریس ٹریبیون کے خیالات اور پالیسیوں کی نمائندگی کریں۔

مقبول خبریں