اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ٹریفک کے قوانین کی پابندی

ریاستی قوانین کا احترام اور ان پر عمل کرنا ہماری قانونی اور اخلاقی ذمہ داری ہے


ہمیں چاہیے کہ دینی احکامات اور تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے ہر اس ریاستی قانون کا احترام کریں۔ فوٹو: فائل

اپنے شہریوں کو سہولت اور جان و مال کا تحفظ فراہم کرنے کے لیے ریاستیں قوانین وضع کرتی ہیں اور ان کی پابندی لازمی قرار دیتی ہیں۔

ان پالیسیوں اور قوانین کا احترام اور ان پر عمل کرنا ہماری قانونی اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔ ہمارا دین بھی ایسے قوانین کا حامی ہے، جو انسانوں کی بھلائی اور قوم کے مفاد میں ہوں، لیکن عام مشاہدہ ہے کہ ہم اپنی قانونی اور اخلاقی ذمے داری پوری نہیں کرتے۔ اگر سڑک پر ڈرائیونگ کا ذکر کریں تو ہم اپنی غفلت اور قانون شکنی کی عادت کی وجہ سے اپنا اور دوسروں کا بھی جانی اور مالی نقصان کر بیٹھتے ہیں۔

پاکستان میں ٹریفک قوانین کے مطابق ڈرائیونگ کے دوران جس طرح موسیقی سننے پر پا بندی عائد ہے، اسی طرح موبائل فون کے استعمال پر بھی پابندی ہے۔ یہ پابندی ہمارے دین اور شریعت کے عین مطابق اور اخلاقی تقاضوں میں سے ایک ہے، لیکن افسوس کہ اچھے خاصے سمجھ دار اور باشعور افراد بھی اس قانون کا احترام نہیں کرتے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بعض افراد اسے اخلاقی اور قانونی جرم بھی تصور نہیں کرتے اور ایسے قانون کو جبر کا نام دیتے ہیں۔

حد تو یہ ہے کہ موٹر سائیکل جیسی غیرمحفوظ سواری کے سوار اسے سڑک کے بیچ میں دوڑاتے ہوئے موبائل فون کالز یا ایس ایم ایس کرنے کو اپنا کمال سمجھتے ہیں۔ حالاں کہ بے شمار مشاہدات اور تجربات اس کے برعکس صورتِ حال کو عیاں کرتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مکمل توجہ اور احتیاط کے باوجود بھی معمولی سی چُوک کے سبب حادثات ہو جاتے بلکہ بسا اوقات یہ حادثے جان لیوا ثابت ہوتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ڈرائیونگ کے دوران موبائل فون استعمال نہ کریں اور اپنی توجہ سڑک اور ٹریفک پر مرکوز رکھیں۔ اسی طرح میوزک سے بھی اجتناب برتنا چاہیے۔



ہمارے علم میں ہونا چاہیے کہ جہاں گاڑی چلاتے ہوئے موسیقی سننا قانوناً جرم ہے، وہیں شریعت میں اسے ناجائز اور گناہ قرار دیا گیا ہے۔ کوئی باشعور فرد اس سے متفق نہیں ہوگا کہ انسان ایک وقت میں کئی امور پر اپنی توجہ مرکوز رکھ سکتا ہے، اور ایسا کرنے سے کوئی ایسی غلطی اور کوتاہی سرزد ہو سکتی ہے، جس کے نقصان کا ازالہ نہ ہوسکے۔ ڈرائیونگ کے دوران موسیقی اور گیت کے بولوں پر توجہ دینے سے سڑک پر گاڑی کے دائیں بائیں اور ٹریفک اشاروں کی طرف سے آپ کا دھیان ہٹا دیتے ہیں اور ضرورت کے مطابق گاڑی کی رفتار بڑھانے یا گھٹانے کا عمل بھی متاثر ہوگا۔

اس کے علاوہ بعض صورتوں میں فوری بریک لگانے کی ضرورت پڑتی ہے، لیکن موسیقی کے باعث ذہن اس کے لیے تیار نہیں ہو گا۔ اس صورت میں حادثہ رونما ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ تیز آواز میں موسیقی کا ایک اور نقصان یہ ہے کہ ڈرائیور عام ٹرانسپورٹ کے علاوہ فائر بریگیڈ یا ایمبولینس کا ہارن بھی نہیں سن سکیں گے اور انہیں فوری راستہ نہ ملنے سے جانی اور مالی نقصان کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ایمبولینس، فائر بریگیڈ اور پولیس موبائل کے مخصوص ہارن کا مقصد ہی یہ ہو تا ہے کہ انہیں فوری راستہ دیا جائے۔ ان سب باتوں پر غور کرنے سے ہم اس قانون کی اہمیت اور اس کی خلاف ورزی کرنے پر نقصانات کا بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں۔



اگر دینی اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ ہمیں بیہودگی، اخلاق سوز کلمات اور اﷲ سے غافل کردینے والے امور سے دور رہنے کی ہدایت کرتا ہے۔ گانے باجے کا شغل اﷲ تعالیٰ کی ناراضی کا باعث بھی ہے۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: گانا اور لغو (بے فائدہ کام) دل میں اس طرح نفاق اُگاتے ہیں، جس طرح پانی سبزہ اُگاتا ہے۔ اسی طرح حضرت ضحاکؓ سے روایت ہے: گانا دل کو خراب اور اﷲتعالی کو ناراض کرنے والا ہے۔

حضرت انسؓ سے ایک روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا: جو گانے والی کے پاس بیٹھے، کان لگا کر، دھیان سے سنے تو اﷲ قیامت کے روز اس کے کانوں میں سیسہ انڈیلے گا۔ گانے باجے اور موسیقی میں نشے کی سی تاثیر ہے، جو ہمیں کئی امور سے غافل اور بے پروا کردیتی ہے۔ علامہ جلال الدین سیوطی نقل فرماتے ہیں: گانے باجے سے اپنے آپ کو بچائو، کیوں کہ یہ شہوت کو ابھارتے اور غیرت کو برباد کرتے ہیں اور یہ شراب کے قائم مقام ہیں۔

حضرت سیدنا نافعؓ فرماتے ہیں: ایک بار میں عبد اﷲ ابن عمرؓ کے ساتھ راستے میں تھاکہ آپ نے باجے کی آواز سنی تو اپنی دونوں انگلیاں کانوں میں ڈال لیں اور دور جانے کے بعد مجھ سے فرمایا: کیا تم کچھ سن رہے ہو؟ میں نے عرض کی، نہیں۔ تب آپؓ نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں سے ہٹائیں اور فرمایا: میں رسول اﷲ ﷺ کے ساتھ تھا اور آپﷺ نے بانسری کی آواز سنی تو اسی طرح کیا، جو میں نے کیا۔ ہمیں چاہیے کہ دینی احکامات اور تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے ہر اس ریاستی قانون کا احترام کریں، جس کا انفرادی اور اجتماعی فائدہ اﷲ کی مخلوق کو پہنچے اور ہم معاشرتی اور اخلاقی ذمے داری بھی پوری کرسکیں۔

مقبول خبریں