مسئلہ کشمیر تاریخ کا نوحہ

غالب قومیں اپنے مجرموں کو چھڑا کر لے جاتی ہیں اور مغلوب قومیں اپنے مجاہدوں اور محسنوں کو بھی پھانسی لگوادیتی ہیں


محمد عارف شاہ February 04, 2016

CAMBRIDGE: غالب قومیں اپنے مجرموں کو چھڑا کر لے جاتی ہیں اور مغلوب قومیں اپنے مجاہدوں اور محسنوں کو بھی پھانسی لگوادیتی ہیں۔ 68برس سے ہم کشمیرکو جہاد سے لے سکے نہ جدوجہد سے حاصل کرسکے اور نہ ہی سفارت کاری سے کوئی پیش رفت کرسکے، اب تو ہماری نوجوان نسل یہ بھی بھول گئی ہے کہ مسئلہ کشمیر ہے کیا؟

اسے نہ توکشمیر کی صبح بے نورکے بارے میں کچھ پتہ ہے اور نہ ہی اسے وادی جنت نظیرکی شام غریباں کے بارے میں کچھ خبر ہے۔حسین وادیاں، برف سے ڈھکے پرہیبت جاودانی بلند پہاڑ، معطر موسم، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں،گھنے جنگلات، بہتے دریا، شور مچاتے جھرنے، جھاگ اڑاتی ندیاں، تاریخی و ثقافتی ورثہ، مقدس مزار، منفرد روایات، مختلف انواع کی حیاتیات و نباتات الغرض قدرتی خوب صورتیوں اور مناظر سے مالا مال وادیٔ کشمیرکے لیے بالکل ٹھیک کہا جاتا ہے کہ ''اگر زمین میں کہیں جنت ہے تو وہ کشمیر ہے۔''

مگر افسوس کہ کشمیر کے چنار اڑسٹھ برس سے آگ کی لپیٹ میں ہیں، لیکن ہر طرح کی آزادیوں کی حمایت کرنیوالے نام نہاد جمہوری ممالک اور ادارے اس آگ کو بجھانے کی کوئی سنجیدہ کوششیں نہیں کررہے ہیں۔ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر سب سے پرانا تنازع ہے، جس کے بارے میں اس ادارے میں خود بھارت کے آنجہانی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے استصواب رائے کی بات کی تھی اور جس کے بارے میں یہ ادارہ متعدد بار قراردادیں منظورکرچکا ہے۔

تاہم لاکھوں جانوں کی قربانیاں دینے اور ہرطرح کے مصائب وآلام برداشت کرنے کے باوجود کشمیریوں کو اپنی رائے کا اظہار کرنے کا حق نہیں ملا ہے۔ حالانکہ تاریخ گواہ ہے کہ کشمیر کا خطہ اپنی تاریخ کے بیش تر ادوار میں آزاد رہا ہے۔ریاست جموں وکشمیر تیسری صدی قبل مسیح میں موریہ سلطنت، سولہ تا اٹھارہ صدی عیسوی میں مغلیہ سلطنت اور انیسویں صدی کے وسط سے بیسویں صدی کے وسط تک برطانوی کالونی کا حصہ رہی، 1846ء تک یہ سکھوں کی سلطنت میں شامل تھا، لیکن اس برس انگریزوں نے سکھوں کو شکست دے کر اسے جموں کے ایک سکھ گلاب سنگھ کے ہاتھوں 75لاکھ روپے میں فروخت کردیا تھا، یہ معاہدہ امرتسر گلاب سنگھ معاہدے کے نام سے مشہور ہوا، بعد ازاں ریاست کے مہاراجہ نے انگریزوں سے ایک اور معاہدہ کیا جس کی رو سے انگریزوں نے خطہ کشمیر کو خود مختار نوابی ریاست تسلیم کرکے مہاراجا کو اس کے حکمراں کا درجہ دے دیا تھا۔

گلاب سنگھ کے 1857 میں دنیا سے رخصت ہونے کے بعد رنبیر سنگھ ریاست کا حکمران بنا اور پھر پرتاب سنگھ اور ہری سنگھ نے ریاست کا اقتدار سنبھالا۔ یہ سلسلہ 1949 تک چلا۔ گلاب سنگھ اور اس کے بعد آنیوالے مہاراجوں نے ریاست پر بہت ظالمانہ انداز میں حکومت کی، اس وقت بھی مسلمانوں کی آبادی کل آبادی کا تقریباً 80 فیصد تھی لہذا اس طبقہ آبادی نے ہری سنگھ کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا، لیکن 1931ء میں ہری سنگھ نے اس بڑی عوامی تحریک کو بہت بے دردی سے کچل دیا، 1932ء میں شیخ عبداللہ نے کشمیر کی تاریخ کی پہلی سیاسی جماعت، آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے نام سے بنائی۔

جس کا نام 1939 میں تبدیل کرکے نیشنل کانفرنس رکھ دیا گیا تھا۔ریاست کے بدلتے ہوئے سیاسی حالات کو دیکھ کر مہاراجہ نے 1934 میں محدود جمہوریت کی اجازت ریاست کی قانون ساز اسمبلی کی صورت میں دی، اس کے باوجود مہاراجہ کے خلاف لوگوں میں نفرت موجود رہی، ہندوستان کی تقسیم کے وقت اس ریاست کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ چاہے تو الحاق کے لیے پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرسکتی ہے یا اپنی خود مختار حیثیت برقرار رکھ سکتی ہے تاہم اسے یہ مشورہ دیا گیا تھا کہ وہ لسانی اورجغرافیائی امور کو مد نظر رکھتے ہوئے کسی قریبی ملک سے الحاق کرلے۔

لیکن مہاراجہ اس بارے میں کوئی فیصلہ کرتے ہوئے ہچکچارہا تھا، پھر ریاست کے مسلمانوں نے وہاں خفیہ انداز میں بھارتی فوجی آتے دیکھے تو ان کے جذبات بھڑک اٹھے اور معاملات مہاراجہ کے ہاتھ سے نکل گئے۔ کشمیرکے باسی پاکستان کے ساتھ الحاق کا مطالبہ کررہے تھے، ایسے میں مہاراجہ کو قبائلی جنگ سے خطرہ تھا، ان حالات میں بھارت کو مہاراجہ پر دباؤ بڑھانے کا موقع ملا اور اس نے بھارت کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔اگرچہ بھارت یہ دعویٰ کرتا ہے کہ ریاست کا اس کے ساتھ الحاق 26 اکتوبر 1947ء کو مہاراجہ کے ساتھ کیے گئے معاہدے کے تحت ہوا لیکن دنیا جانتی ہے کہ وہ نام نہاد معاہدہ کیسے ہوا تھا۔

اس معاہدے کے تحت ریاست کو بھارت میں زبردستی شامل توکرلیا گیا تھا لیکن اس وقت خود بھارت کی طرف سے یہ کہا گیا تھا کہ بعد میں وہ آزادانہ و منصفانہ استصواب رائے کرائے گا۔ 27 اکتوبر 1947ء کو بھارت کے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی طرف سے مہاراجہ کو خط لکھا گیا جس میں الحاق کی منظوری دیتے ہوئے ماؤنٹ بیٹن نے واضح کیا تھا کہ کشمیر کے عوام سے ان کی رائے پوچھے جانے کے بعد ہی ریاست کو بھارت کا حصہ بنایا جائے گا۔

بھارت نے عیاری سے اس وقت اصولی طور پر استصواب رائے کی بات قبول کرلی تھی لیکن بعد میں اس نے ہر موقعے پر کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق دینے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کیں۔بھارت کی جانب سے ریاست کشمیر کو زبردستی اپنا حصہ بنانے کے خلاف کشمیری عوام اور قبائلی رضاکاروں نے علم بغاوت بلند کیا تو بھارتی فوج کھل کر ان کے سامنے آ گئی۔ ان حالات میں پاکستان اور بھارت کے درمیان پہلی جنگ شروع ہوگئی۔

جنگ کے دوران یہ بھارت تھا جو پہلی مرتبہ مسئلہ کشمیر کو لے کر اقوام متحدہ میں گیا، اقوام متحدہ کی مداخلت پر دونوں ممالک کے درمیان سیز فائر ہوا اور سیز فائر لائن کو لائن آف کنٹرول کا نام دیا گیا، اقوام متحدہ کی جانب سے 21 اپریل 1948 کو منظور کی جانیوالی قرار داد اس مسئلے کے بارے میں اقوام متحدہ کی ایک بنیادی قرار داد کہی جاسکتی ہے۔ اس قرار داد میں کہا گیا تھا ''بھارت اور پاکستان دونوں کی یہ خواہش ہے کہ ریاست کشمیر کے بھارت یا پاکستان کے ساتھ الحاق کا مسئلہ جمہوری طریقے سے حل کیا جائے، یعنی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ استصواب رائے کے ذریعے۔''

کشمیریوں کی تحریک مزاحمت شروع ہونے سے اب تک بھارت نے بہت سی قلابازیاں کھائیں، بہت سے ڈھونگ مذاکرات ہوئے، کبھی جوہری دھماکوں کے ذریعے پاکستان اور کشمیریوں کو دھمکانے اور کبھی کشمیریوں کو مراعات دے کر ساتھ ملانے کی کوششیں کی گئیں، لیکن کشمیریوں کی تحریک آزادی جاری ہے۔

اور وہ اسے کسی بھی صورت میں ترک کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ اگرچہ کہا یہی جارہا ہے کہ بھارتی پٹھان کوٹ ایئربیس پر حملے کے بعد پاک ہند مذاکرات کا عمل سست پڑ گیا ہے اور اسی وجہ سے تنازعہ کشمیر پر بھی پیش رفت تعطل کا شکار ہے لیکن گہرائی میں جاکر دیکھا جائے تو واضح ہوگا کہ ہندوستان تنازعہ کشمیر حل کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے اور تمام تر کاوشوں کے باوجود ہندوستان کا پرنالہ وہیں ہے، جہاں کئی سال پہلے تھا۔ اگر سب اسلامی ممالک مل کر ہندوستان پر دباؤ ڈالے تو مسئلہ کشمیر حل ہوسکتا ہے۔ عرب ممالک بھارت کا ایک ہی دن تیل بند کردیں تو شاید سارے مسائل چٹکی بجاتے حل ہوجائیں۔

ایک بیان ہی داغ دیں کہ ہم بھارت کی تیل سپلائی روک رہے ہیں تو ہلچل مچ جائے، اقوام متحدہ میں کشمیر کی قرار دادیں ایک عرصے سے پڑی ہیں، تنہا پاکستان کیا کرسکتا ہے، تمام اسلامی ممالک کو عالمی طاقتوں سے یہ پوچھنا چاہیے کہ ان کے اپنی جغرافیائی حدود سے باہر کے قومی مفادات کیا اقوام کے حق خودارادیت اور اس ضمن میں اقوام متحدہ کی منظور کردہ قرار دادوں سے زیادہ مقدم ہیں؟ ایسٹ تیمور، جنوبی سوڈان اور اسکاٹ لینڈ یارڈ کو حق خود ارادیت دلانیوالے کشمیر کے مسئلہ پر خاموش کیوں ہیں؟

مسئلہ کشمیر پر پاکستانی موقف کی سچائی اور اسی سچائی کی بنیاد پر ایسٹ تیمور، جنوبی سوڈان اور اسکاٹ لینڈ کو ملنے والے حق خود ارادیت کا تقاضا ہے کہ یوم کشمیر پر پاکستان کی وزارت داخلہ مسئلہ کشمیر پر پاکستانی موقف کے حقیقت پسندانہ موقف اور بھارت کی ہٹ دھرمی اور سامراجی ذہنیت پر ایک کھلم کھلابیان جاری کرے جسے تمام اہم ممالک کے صدر کی تائید حاصل ہو جسے پاکستانی سفارتخانے میڈیا کے ذریعے بین الاقوامی برادری میں عام کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے