مفت کا کھانا اور خیراتی ادارے

رئیس فاطمہ  اتوار 7 فروری 2016
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

بہت سے لوگوں نے شہر میں جگہ جگہ اس قسم کی عبارتیں لکھی دیکھی ہوں گی۔ ’’یہاں دونوں وقت کا کھانا مفت کھلایا جاتا ہے‘‘… ’’کوئی بھی یہاں کسی بھی وقت کھانا کھا سکتا ہے‘‘… ’’صدقہ جاریہ میں حصہ ڈالیے ضرورت مندوں کے لیے کھانے کی فراہمی میں رقم جمع کروائیے۔‘‘

اس کے علاوہ عوام کی اکثریت نے فٹ پاتھوں پر، شاہراہوں کے کناروں پر، سروس روڈ پر دسترخوان لگے دیکھے ہوں گے،لیکن کھانا کھانے والوں میں اکثریت ہٹے کٹے، مفت خوروں کی ہوتی ہے۔ جہاں جہاں یہ دسترخوان لگائے جاتے ہیں، وہاں اسکوٹر اور رکشوں کی تعداد نمایاں نظر آئے گی۔ رکشوں میں رکشے والے نہ صرف پورے پورے خاندانوں کو بھر کر لے آتے ہیں، ان میں واقعی کچھ سفید پوش بھی ہوتے ہیں۔ لیکن یہ عمل درست اس لیے نہیں ہے کہ اس طرح آپ قوم کو بھکاری اور کاہل بنا رہے ہیں۔ کراچی میں جگہ جگہ مخیر حضرات کے تعاون سے باقاعدہ بکرے کے گوشت کا سالن، بریانی، پلاؤ، مغز، پائے، نہاری سب کچھ مہیا کیا جاتا ہے۔ جہاں ہیروئنچی مزے سے کھاتے ہیں اور وہیں کہیں آس پاس نشہ کر کے سو بھی جاتے ہیں۔

اس وقت میں ایک اور خرابی کی بھی نشان دہی کرنا چاہتی ہوںکہ یہ خیراتی مفت کھانا کھلانے والے ادارے ایک ’’مافیا‘‘ بن گئے ہیں۔ انھوں نے شہر کی مختلف سڑکوں، سروس روڈز اور فٹ پاتھوں پہ قبضہ کر لیا ہے۔ جہاں جہاں ان کا کاروبار ہے وہ جگہیں رہنے کے قابل نہیں رہی ہیں۔ مختلف اپارٹمنٹس کے گراؤنڈ فلور پر انھوں نے کئی کئی دکانیں خریدی ہوئی ہیں۔

جہاں آٹا، چاول اور دیگر اجناس، گھی اور مصالحے رکھے جاتے ہیں، لیکن اہل محلہ جس مسئلے سے دوچار ہیں وہ ہے جانوروں کو سروس روڈ پہ ذبح کرنا اور لہسن پیاز ٹماٹر کے چھلکوں اور سبزیوں کی گندگی سے ہر طرف کچرا پھیلا دینا۔ خاص طور پر میں نے ذاتی طور پر ان علاقوں کا جائزہ لیا، جہاں جہاں سے یہ شکایات آ رہی تھیں اور کھلی آنکھوں سے جانوروں کا خون بہتا دیکھ کر دیر تک طبیعت مکدر رہی، اوجھڑی، کھالیں، ہڈیاں، ہر طرف بکھری ہوئی، صرف یہی نہیں بلکہ جانوروں کو ذبح کرنے کے بعد ان کا خون یوں ہی چھوڑ دیا گیا۔ اب اس غلاظت میں سے گاڑیاں، رکشے اور اسکوٹر بھی لت پت جا رہے ہیں۔

اور پیدل چلنے والے جس اذیت سے گزر رہے ہیں وہ ایک الگ عذاب ہے۔ یہ خیراتی ادارے نہ خون صاف کرواتے ہیں، نہ غلاظت اٹھواتے ہیں۔ اور جب جانوروں کا خون جم جاتا ہے اور اس میں سے بدبو اور تعفن اٹھتا ہے تو علاقہ مکینوں کے لیے سانس لینا دشوار ہو جاتا ہے۔ کھانے کے بعد ہڈیوں اور بچے ہوئے روٹی کے ٹکڑے، چاول الگ سڑک اور فٹ پاتھ پہ بکھرے نظر آتے ہیں۔ جن کی صفائی چیل کوے کرتے ہیں۔ بعض اوقات کھلے عام جانوروں کے کاٹنے اور گوشت بنانے کی وجہ سے بڑی بڑی چیلیں لوگوں کے سروں پہ ٹھونگے مارنے سے بھی گریز نہیں کرتیں، ایک بائیک والے کو میں نے خود چیل کے حملے کی وجہ سے سروس روڈ پہ گرتے دیکھا۔ علاقے کے لوگ حد سے زیادہ پریشان، کوئی پرسان حال نہیں۔ شکایت کس سے کریں؟ پولیس کی کارکردگی کا سب کو پتہ ہے۔ ایس ایچ او سے لے کر معمولی ٹریفک اہلکار، رشوت کی تھیلی کے سکے ہیں۔

سب کا اپنا اپنا حصہ ہے۔ بہت سے ثقہ لوگوں نے ان ’’مفت کھانا‘‘ کھلانے والوں سے جا کر بات کی، مگر انھیں اس وقت انتہائی مایوسی ہوئی جب کسی نے بھی ان کی شکایت پہ توجہ نہیں دی بلکہ ان سب کے رویے میں ایک طرح کی فرعونیت تھی کہ وہ تو نیک کام کر رہے ہیں، اس لیے ہر قانون سے بالاتر ہیں۔ وہ چاہیں تو سڑکوں اور فٹ پاتھوں پہ جانور ذبح کریں، ہڈیاں پھینکیں، خون بہائیں، گلی سڑی سبزیاں چوراہوں پہ ڈال دیں، کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔

بالکل اسی طرح جیسے مسجدوں میں لگے ہولناک آوازوں والے فل والیوم کے لاؤڈ اسپیکر لوگوں کو بیمار ڈال دیں، اور لوگ مارے ڈر کے اس لیے کچھ نہ کہہ سکیں کہ جس طرح پشاور میں ایک دن پہلے عید کا وہ چاند مولانا کو نظر آ جاتا ہے جسے دوربین بھی نہیں دیکھ سکتی اور چار پانچ گواہ بھی شکرے کی آنکھ رکھنے والے مل جاتے ہیں اسی طرح کفر کا فتویٰ دینے اور گواہی دینے والے بھی باآسانی دستیاب ہو جاتے ہیں۔

اسی بے تکی سوچ نے جعلی مولویوں اور دین اسلام کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرنے والوں کو طاقتور کر دیا ہے اور وہ سول سوسائٹی کے مہذب لوگوں کی خاموشی سے مزید طاقت پکڑ رہے ہیں۔ ہماری اجتماعی بے حسی اور خودغرضی نے بہت سے مسائل میں اضافہ کیا ہے۔

ہر کام حکومت کے کرنے کا نہیں ہوتا۔ کچھ ذمے داری ہماری بھی ہے۔ اگر علاقے کے چند معقول لوگ اور اپارٹمنٹس کی یونین کے ذمے دار مل کر ’’مفت کھانا مافیا‘‘ کے نگرانوں کے پاس جا کر انھیں احساس دلائیں کہ ان کی کارکردگی سے اہل محلہ کس قدر پریشان ہیں، حضورؐ نے ہمسایوں کے کتنے حقوق بتائے ہیں؟ جب آپ دینی اور مذہبی کاموں میں حضورؐ کے احکامات و سنت پہ عمل نہیں کر رہے تو آپ کس منہ سے خود کو مسلمان کہہ سکتے ہیں؟ کیا میرے پیارے نبیؐ نے کسی کو تکلیف دی تھی۔ وہ تو کوڑا پھینکنے والی کی عیادت کو بھی گئے تھے۔

میں نے محسوس کیا ہے کہ جو لوگ بظاہر بہت دیندار نظر آتے ہیں۔ ان میں ایک طرح کا تکبر پیدا ہو جاتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پانچ وقت کی نماز اور روزوں کے بعد آزاد ہیں۔ جس کو جس طرح چاہیں تکلیف دیں۔ خدا نے انھیں ان کی نمازوں کے بدلے یہ حق دے دیا ہے کہ جس کو چاہیں آزار پہنچائیں۔ خواہ جگہ جگہ مفت کھانا کھلا کر غلاظت پھیلائیں یا دو دو قدم پہ مسجدیں بنا کر ہر مسجد میں چار چار لاؤڈ اسپیکر لگائیں اور اذانیں دینے میں بھی ایک دوسرے کا مقابلہ کریں کہ کس کی آواز کتنی کرخت اور گرجدار ہے۔

صوبائی حکومتوں کا یہ کام ہے کہ وہ ان لاؤڈ اسپیکروں پہ پابندی لگائے کہ ان کی آواز زیادہ بلند نہ ہو، ایک مسجد کے لیے ایک لاؤڈ اسپیکر کافی ہے۔ دوسرے ان بڑے خیراتی اداروں کے ذمے داروں کو قانون کے شکنجے میں کسیں اور ان پر پابندی لگائی جائے کہ یہ ذبیحہ اور دیگر کام دکانوں کے اندر کریں، تا کہ ٹریفک جام نہ ہو۔ ان کے وسائل اور فنڈز بے حساب ہوتے ہیں۔ یہ ایک جگہ ذبیحہ اور ایک جگہ کھانا پکانے کے لیے مخصوص کر سکتے ہیں۔

اگر یہ پابندی نہ کریں تو ان کے خلاف ایکشن لیا جائے۔ مذہبی بلیک میلنگ میں آئے بغیر ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ پہلے مرحلے میں انھیں ایک ہفتے کا نوٹس دیا جائے۔ دوسرے مرحلے میں ان کی تجاوزات کو مسمار کر کے متعلقین کو سزا دی جائے۔سعودی عرب میں جرائم کیوں نہیں ہوتے؟

اس لیے کہ وہاں سزائیں سخت ہیں اور ان پر عمل درآمد بھی ہوتا ہے، لیکن ساتھ ساتھ اہل محلہ کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ بھرپور اتحاد کے ذریعے نہ صرف لاؤڈ اسپیکرز کی آوازیں کم کروائیں بلکہ مفت کھانا کھلانے والوں کی غلاظت اور گندگی پھیلانے اور ٹریفک میں رکاوٹ ڈالنے کے خلاف بھی کھڑے ہو جائیں۔ کڑی سے کڑی مل کر زنجیر بنتی ہے اور ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر بنائی جانے والی زنجیر بہت سے مسئلے حل کروا دیتی ہے۔ آزما کر دیکھ لیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔