اسکردو ہے جس کا نام

جھیلوں اور جنگلی پھولوں سے بھرے صحرا


علی اکبر ناطق April 24, 2016
ہر گاؤں میں بجلی، نہ چوری، نہ جھگڑا ، نہ قتل ۔ فوٹو : فائل

میں اسلام آباد سے اسکردو کے لیے نکلا تھا، لیکن جہاز نے45 منٹ بعد جس جگہ اْتارا، وہ اِس گناہ گار دنیا کا خطہ نہیں تھا۔ مَیں حیران، الٰہی جہاز پر بیٹھا تو جیتا جاگتا تھا، مگر جہاں اْترا ہوں، یہ جگہ تو کچھ فانی دنیا والی نہیں، جنت کا کوئی تماشا ضرور ہے، ہر چند ہمارے اعمال اچھے نہ تھے۔ چاروں اُور چاندی کے پربت اور پارے کے درخت تھے، جن پر سفید پھولوں کی پریاں منڈل جمائے بیٹھی تھیں۔ لوگ بھی خوب صورت، پرسکون اور مطمئن ایسے کہ ہنگامہ نہ لالچ کا نظر آیا، نہ شور بد تہذیبی کا، مالک یہ کون سی بستی ہے؟

جوں جوں شہر کی سمت بڑھے، خوبانی کے پیڑوں کے سفید پھولوں نے راہ روک روک کر گلے لگایا، جیسے مدتوں کا بچھڑا ساتھی لوٹ آیا ہو۔ اس برفوں والی پربت پر پھیل وادی میں لاکھوں اور کروڑوں مصفا چاندی کے پھولوں کی ڈولیاں ہوا میں اُڑ رہی تھیں اور ہمیں اْڑا رہی تھیں، جن کی جڑوں اور تہوں میں بہتی مصفا چاندی چھلک چھلک کر بہہ رہی تھی ۔ اسکردو کی وادی دراصل دریائے سندھ کی روانی کا کرشمہ ہے، جس نے صدیوں پہلے اپنے پانی سے پتھروں کو کاٹ کاٹ کر پہاڑوں کے درمیان سے راستہ کھودا۔ جب ایک جگہ سے راستہ بن گیا تو اپنا رُخ تھوڑا سا دوسری طرف پھیر کر نیا راستہ بنالیا اور اُس کے پہلے بنے ہوئے راستے پر جگہ ہم وار ہونے کی وجہ سے آبادی نے لے لی۔

یہ سلسلہ صدیوں تک جاری رہا، دریا راستے بدل بدل کر وادیاں بناتا چلا گیا اور لوگ بستے چلے گئے۔ اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ پہاڑوں سے دو طرح کا پانی وادی اور دریا میں اْترتا ہے۔ ایک تو لاکھوں ہی چشمے ہیں کہ جگہ جگہ سے پھوٹ رہے ہیں اور دوم برف پگھل پگھل کر نیچے آتی ہے۔ جس کی وجہ سے پوری وادی شفاف اور ٹھنڈے پانی کی سیکڑوں جھیلیں اور لاکھوں ہی ندی نالے بن چکے ہیں۔ جھیلوں میں ٹراؤٹ مچھلیاں، مرغابیاں، کونجیں اور سیکڑوں ہی طرح کے پرندے ہیں جو برابر مقامی لوگوں کی معاشیات اور سیاحوں کی نظر کا سامان ہیں۔ یہاں پانی کی اتنی فراوانی ہے کہ سارے علاقے کو اسی کے ذریعے بجلی سپلائی کی جاتی ہے۔ جگہ جگہ چھوٹے ڈیم اور اْن پر ہائیڈرو پاور لگے ہوئے ہیں۔

اسکردو میں دو چھوٹے چھوٹے صحرا بھی ہیں، لیکن یہ صحرا بلوچستان یا روہی کی طرح خشک نہیں ہیں، بل کہ جھیلوں اور جنگلی پرندوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ جھیلوں کا پانی بھی نہایت میٹھا اور شفاف ہے۔ اسکردو کے ہر گاؤں اور ہر قصبے میں بجلی موجود ہے۔ لوگوں کی معاشی حالت اگرچہ زیادہ بہتر نہیں مگر ہم نے اپنے دس دن کے قیام میں وہاں کوئی گدا گر نہیں دیکھا۔ پوچھنے پر لوگوں نے بتایا کہ یہاں گداگر نہیں ہوتا اور لوگوں میں بھیک مانگنے کا رواج نہیں ہے۔ عورتوں کو زیادہ برقعوں میں باندھ کر رکھنے کا رواج بھی نہیں۔ عورتیں مردوں ہی کی طرح بازاروں میں، کھیتوں میں اور دوسرے شعبوں میں کام کرتی اور چلتی پھرتی نظر آتی ہیں۔

ہم ایک خاتون کے گھر اُس کے بیٹے کی شہادت پر فاتحہ خوانی کے لیے گئے، لڑکے کا والد گھر پر نہیں تھا، لڑکے کی والدہ نے خود ہمارے سامنے بیٹھ کر ہماری تعزیت قبول کی اور فاتحہ پڑھی۔ یہاں ایک یونیورسٹی بھی ہے جہاں لڑکے اور لڑکیاں ایک ہی وقت میں اکھٹے کلاسز لیتے ہیں۔ پورے علاقے میں مجھے بتایا گیا کہ کبھی چوری اور قتل کی واردات نہیں ہوئی۔ نہ کبھی جھگڑا ہوا۔ نماز سب ہی پڑھتے ہیں اور اکثر دین دار لوگ ہیں۔ مکمل آبادی شیعہ ہے۔

موسم سردی کا بہت سخت ہے لیکن لوگ سردیوں کے لیے اپنا انتظام کر رکھتے ہیں۔ جیسے ہی مارچ شروع ہوتا ہے اور برف پگھلنے لگتی ہے تو درخت پھولوں کی کونپلیں نکالنا شروع کر دیتے ہیں۔ آلوچے، چیری، شہتوت اور بادام کے پیڑوں کے نیچے شیشے کی طرح بہتی آبِ حیات کی ٹھنڈی اور شفاف ندیاں جگر کو تراوٹ اور آنکھوں میں نور کی سلائیاں پھیرتی جاتی تھیں، ایسے کہ ہر شے دُھلی دُھلی پاکیزہ اور نیک تھی۔ اس وادی میں چلنے پر ہمارے پاوں زمین کی بجائے ہوا پر پڑتے تھے، سُبک اور ہلکے اتنے کہ چلتے جاتے تھے اور چلتے جاتے تھے مگر تھکتے نہ تھے۔

ہائے وادی کے ساتھ ساتھ بہتا اور بل کھاتا سبز پانیوں کا ٹھنڈا دریا طلسمِ کی طرح کھینچتا اور مَیں اُس کے ٹھنڈے سینے کی اُور کھنچتا چلا جاتا۔ بھائی کیا بتاؤں اﷲ میاں نے ساری نعمتیں یہیں اْنڈیل دیں۔ اْوپر نظر کیجیے تو سفید پربت اور اُن سے پھوٹتے ہوئے ہزاروں چشمے اور چشموں سے پتلے پانی کی دھاریں گراتے جھرنے بس نیچے ہی نیچے پھسلتے آتے تھے اور شہر کی اور دیہات کی اور منڈپوں کی ندیوں کے کشکول بھرتے جاتے ہیں۔ یہ ندی نالے گھر گھر کے دروازے سے گزرتے ہیں، اُن کی دہلیزوں پر چھڑکاؤ کرتے ہیں، اُن کے پھولوں میں رنگ بھرتے ہیں، پودوں کو اور گندم اور لہسن اور پیاز کی چھوٹی چھوٹی کھیتیوں کو روشن کرتے جاتے ہیں۔

پوری وادی میں دورویہ خوبانی اور آلوچے کے سفید اور نیلے پھولوں سے بھرے بھرے درختوں کے درمیان ٹھنڈی اور تنگ مگر صاف ستھری سڑکیں مجھے گھماتے گھماتے نہ تھکتیں۔ یہاں میرا ایک شاگرد تہذیب الحسن، جو شاعر بھی ہے اور میرا دوست بھی ہے، وہ مجھے کہاں کہاں نہ لے گیا۔ گاؤں گاؤں گھمایا، چشمہ چشمہ پھرایا اور پربتوں کی چاند چوٹیوں پر اْڑایا۔ جی میں جوش بڑھتا جاتا تھا کہ اور اُڑوں اور اُڑوں۔

بدھا کے مجسمے دیکھے، پانی کے چشمے دیکھے، نیلے فلک کو ہاتھ لگایا، صد پارا جھیل کے دل میں اْترا، شنگریلا سے ہو آیا، اور شغر وادی میں تو اپنا دل ہی کھو آیا۔ وہاں کسی چار پانچ سو سال پرانا نواب صاحب کا لکڑی سے بنا ہوا خوب صورت بنگلہ ہے، جسے ہوٹل میں بدل دیا گیا ہے مگر بنگلے کی شکل نہیں بدلی گئی۔ باقیات بھی موجود ہیں۔ یعنی نواب صاحب کا ایوانِ خاص، باورچی خانہ، خواب گاہ، مطالعے کا کمرہ۔ وہیں کچھ فارسی اور مقامی زبان میں لکھی ہوئی کتابیں بھی ہیں، جو اکثر حضرت علیؓ اور بی بی فاطمہؓ کی منقبت پر مبنی ہیں۔

شغر وادی میں چلتے پانی کے ندی نالوں اور خوبانی، آلوچے اور بادام اور چیری اور شہتوت کے درختوں اور اُن پر پھولتے سفیدونیلے پھولوں کا تو کوئی حساب ہی نہیں۔ دائیں درخت تھے اور چھاؤں تھی، بائیں درخت تھے اور چھاؤں تھی۔ گرمیوں میں ان کا پھل اتنا ہوتا ہے کہ کھانے والے نہیں ملتے۔ اکثر ان کو خشک کرکے بڑے شہروں کی طرف بھیجا جا تا ہے اور لوگوں کی آمدنی کا بڑا ذریعہ ہے۔ اس لیے جگہ جگہ خوبانی، آلوبخارا، آلوچہ کو خشک کرنے کے شیشے کے کمرے بنے ہیں، جہاں ہوا کو بند کرکے پھل خشک کیا جاتا ہے۔

یہاں سوائے ندی نالوں اور پرندوں کے شور کے، کوئی دوسرا شور نہ تھا۔ لمبے بالوں والی اور موٹی آنکھوں والی بھیڑیں تھیں، بکریاں تھیں اور گائیں تھیں اور یاک تھیں اور سب کی سب پاک تھیں۔ یہاں ہمارے ساتھ میرا ایک اور ہونہار شاگرد منور حسن بھی تھا۔ اسی جگہ لکڑی سے بنی ہوئی پانچ سو سال پرانی مسجد بھی ہے اور امام بارگاہ بھی ہے۔ ہم نے وہاں نماز پڑھی اور تصویریں لیں۔ ہائے شغر! مجھ ایسا شاعر کیوں اتنا عرصہ تم سے دور رہا۔

تہذیب مجھے اپنے گاؤں مہدی آباد بھی لے گیا۔ یہ کیا بستی ہے تعریف کیا کروں، بس اس سے آگے خدا کی ہستی ہے۔ وہی پہلی والی رنگینیاں اور سفیدیاں، یہاں ہم نے ایک اسکول میں نوروز کی تقریب میں حصہ لیا، جسے وہاں کے لوگوں نے صرف یتیم بچوں کے لیے بنایا ہے کہ اْنھیں تعلیم کے ساتھ ہاسٹل اور مفت کھانا پینا بھی میسر ہے۔ اس تقریب میں حاجی گلزار صاحب ہمیں لے گئے، جو تہذیب کے والد بھی ہیں اور اصل خدا پرست، مہمان نواز اور نفیس انسان ہیں۔ یہیں سے ہم آگے آبشار کی طرف نکل گئے ، یہ دنیا بھی ہمیں فطرت سے ہم کلام ہونے کا شرف بخش گئی، ٹھنڈی ہوائیں کیا اور پانی کی خنکیاں کیا اور دل کی آرزوئیں کیا، سب باہم گلے ملنے لگیں۔

میں کس کس جگہ کا نام لوں، وہ جو کبھی پریوں کا مسکن سنتے تھے، یہیں ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ لوگ اتنے اچھے اور مانوس اور مہمان نواز کہ اور کوئی اِن سے بڑھ کر کیا ہو گا۔ ایک شام نوروز کا مشاعرہ بھی ہوا جہاں ذیشان کاظمی اور عارف صاحب نے ہماری صدارت رکھ دی۔ یہ مشاعرہ بھی اپنی مثال آپ تھا۔ سب اچھے شاعر تھے، خاص کر حشمت الہامی صاحب، عارف صاحب ذیشان مہدی، احسان شاہ ، تہذیب الحسن، قیصر حسین اور بھی کچھ تھے، جن کے ابھی مجھے نام یاد نہیں مشاعرہ بھی اتنا اچھا رہا کہ اسکردو والوں کی ادب پروری اور سخن فہمی کی داد رشک سے دیتا رہا، مشاعرے میں سامعین کی تعداد چار سو کے لگ بھگ تھی اور سب کے سب سخن فہم تھے۔

سب سے بڑی بات یہ کہ میں نے انھیں پاکستان اور اردو سے بہت محبت کرنے والا پایا۔ اسکردو میں ہماری دعوتوں کا اہتمام اپنی جگہ کہ ہر شخص کھینچتا تھا، مگر پیٹ کی اپنی مجبوری، پھر بھی منور، حاجی گلزار اور سدیف جعفر کے والد صاحب کے تکلفات کو قبول کیے ہی بنی۔ منور کا گاؤں شغر بالا بھی کیا خوب صورت تھا۔ اب جون کو جو وہاں نہ جائے تو ناطق میاں کافر ہو جائے۔ ہائے اسکردو وائے اسکردو۔

اے زندہ اور مہمان نواز انسانوں کے شہر سدا آباد رہ

مقبول خبریں