سب کی نظریں بجٹ پر۔۔۔۔ کیا صوبائی بجٹ عوامی توقعات پر پورا اترے گا

 سندھ کے بجٹ 2016-17 کے حوالے سے منعقدہ ’’پری بجٹ ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ


June 06, 2016
 سندھ کے بجٹ 2016-17 کے حوالے سے منعقدہ ’’پری بجٹ ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ ۔ فوٹو : فائل

٭عوام کا انتظار ختم ہوا اور حکومت نے وفاقی بجٹ 2016-17ء کا اعلان کردیا، اب سندھ کے بجٹ کا انتظار ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ سندھ حکومت اپنے صوبے کے عوام کیلیے بجٹ میں کیا پیش کرتی ہے۔ جمعہ 3 جون کی شام وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار نے جو بجٹ تقریر کی اور وفاقی بجٹ میں جن اقدامات کا اعلان کیا گیا، ان کا پاکستانی عوام کو اور قومی معیشت کو کتنا فائدہ پہنچے گا۔

اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت کرے گا لیکن اپوزیشن جماعتوں اور تاجر برادری نے اس بجٹ پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے، اپوزیشن نے تو بجٹ کو اعداد و شمار کا گورکھ دھندہ قرار دے کر مسترد ہی کردیا ہے جبکہ تاجروں اور صنعتکاروں کا موقف ہے کہ بجٹ میں ان کے لیے خاطر خواہ پالیسیوں کا اعلان نہیں کیا گیا۔ بجٹ کے مطابق موبائل فونز، سگریٹ، سیمنٹ، مشروبات، اسٹیشنری، کاسمیٹکس کا سامان، بسکٹ، ایئر کنڈیشنر اور دیگر اشیا مہنگی کردی گئی ہیں جن کے مقابلے میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنوں میں صرف 10 فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے جو سرکاری ملازمین کے مطابق نہ ہونے کے برابر ہے۔ دوسری جانب کچھ چیزیں سستی بھی کی گئی ہیں جن میں کھادیں، زرعی دوائیں، لیپ ٹاپ، کمپیوٹر شامل ہیں۔

وفاقی بجٹ کے حوالے سے عام آدمی سے لے کر بڑے اور چھوٹے تاجروں اور صنعتکاروں تک ہر کوئی اپنے اپنے لحاظ سے تبصرے کررہا ہے اور بجٹ کے خدوخال کے حوالے سے اپنی تجاویز بھی سامنے لارہا ہے، وفاقی بجٹ تو آگیا، اب کچھ دنوں بعد سندھ حکومت بھی اپنا بجٹ پیش کرنے والی ہے۔ عوام کو سندھ کے بجٹ کے حوالے سے بھی کافی خدشات ہیں تو بہت سی توقعات بھی ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سندھ حکومت اپنے صوبے کے عوام کے لیے کیا اقدامات کرتی ہے، صوبے کی معاشی ترقی کے لیے کن پالیسیوں کو اختیار کیا جاتا ہے اور معیشت کے استحکام کے لیے کیا فیصلے کیے جاتے ہیں، یہ اور ایسے بہت سے سوالات لوگوں کے ذہنوں میں ہیں۔ وفاقی بجٹ کیسا رہا؟ اور سندھ کا بجٹ کیسا ہوگا یا اسے کیسا ہونا چاہیے، اس حوالے سے ماہرین معاشیات، تاجر برادری، صنعتکاروں کے نمائندوں کے ساتھ کراچی میں ''ایکسپریس فورم'' کا انعقاد کیا گیا جن میں شرکا نے وفاقی بجٹ اور سندھ کے متوقع بجٹ کے حوالے سے اپنی آراء کا اظہار کیا۔ ایکسپریس فورم کی روداد ایکسپریس کے قارئین اور قومی معیشت کے طالبعلموں کے لیے پیش کی جارہی ہے۔

عارف حبیب
( پاکستان اسٹاک ایکس چینج کے سینئررکن،کے ایس ای کے سابق صدر)
توقع ہے سندھ حکومت تاجروعوام دوست بجٹ پیش کرے گی جس سے صوبے کی ترقی اور عوام کو ریلیف مل سکے گا۔اعلان کردہ وفاقی بجٹ میں زراعت اور برآمدی شعبے کے لیے فراخدلانہ اقدامات کیے گئے ہیں، جاری حالات کے تناظر میں بجٹ اگرچہ متوازن ہے لیکن اس میں پاکستان اسٹاک ایکس چینج اورصنعتی شعبوں کی تجاویز کو شامل نہیں کیا گیا جس سے مایوسی بڑھی ہے۔

ملک میںنئی ریئل اسٹیٹ انویسٹمنٹ ٹرسٹ (REITs) کے قیام وفروغ کے لیے ارسال کردہ تجاویزکوبھی بجٹ میں شامل نہیں کیا گیا ہے حالانکہ ان تجاویز کو بجٹ کا حصہ بنانے اورREITs کی سال2006 کی ٹیکس ترغیبات بحال کرنے کی صورت میں ابتدائی طور پر50 ارب روپے کی سرمایہ کاری سے مزیدREITs کے قیام میں سرمایہ کاردلچسپی رکھتے ہیں جبکہ ہماری تجاویزکو بجٹ کا حصہ بنانے کی صورت میں ریئل اسٹیٹ بزنس میں ڈاکومنٹیشن کوفروغ ملے گا۔

ہمیں توقع ہے کہ وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار پی ایس ای اور REITs سے متعلق تجاویزپر دوبارہ غورکرتے ہوئے فنانس ایکٹ کا حصہ بنائیں گے ۔ اسٹاک ایکس چینج کووفاقی بجٹ میں ٹیکسٹائل اور فرٹیلائزر سیکٹرکے لیے بجٹری اقدامات سے بھی فائدہ پہنچے گا۔وفاقی بجٹ میں کم ازکم اجرت میں اضافے اور پنشنروں کی شرح بڑھانے جیسے اقدامات لائق تحسین ہیں، سندھ حکومت بھی ایسے ہی اقدامات کرے گی تو صوبے میں بھی عوام کی حالت زار بہتر ہوجائے گی۔

ملک محمد بوستان
(صدر فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان)
ان حالات میں اس سے بہتر بجٹ پیش نہیں کیا جاسکتا تھا، تنخواہوں اور پینشن میں اضافہ کیا گیا ہے ، زرعی شعبے کو بہت سہولتیں اور مراعات دی گئی ہیں۔ صحت، دفاع اور تعلیم کا بجٹ بھی بڑھادیا گیا ہے، یہ اقدامات خوش آئند ہیں لیکن اس بجٹ میں ریونیواکٹھا کرنے والے ادارے ایف بی آر وٹیکس حکام کے خلاف شکایات کے ازالوں اوربے قاعدگیوں کے خلاف کوئی شفاف احتساب کانظام متعارف نہیں کرایا گیا ہے اور نہ ہی ایف بی آر کی جانب سے ماضی میں نشاندہی شدہ ان32 لاکھ قابل ٹیکس آمدنی کے حامل لوگوں کو نیٹ میں لانے کے لیے اقدامات بروئے کارلائے گئے ہیں۔

اگر ہم صوبے کے لحاظ سے بات کریں تو ہمیں وزیر اعلٰیٰ قائم علی شاہ کی حکومت سے امید ہے کہ وہ پہلے کے مقابلے میں عوام کو زیادہ ریلیف فراہم کرے گی اور تاجر و صنعتکار برادری کو بھی مشکلات سے نکالنے کے اقدامات کیے جائیں گے۔ یہ بھی امید ہے کہ سندھ حکومت اپنے بجٹ میں ایکسچینج کمپنیوں پر ایس آر بی سیلز ٹیکس واپس لینے کا اعلان کریگی۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ سیاسی طور پر بھی حکومت دباؤ میں ہے اور عالمی سطح پر بھی پاکستان کو تنہا کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔

20 کروڑ عوام میں سے صرف 10 لاکھ ٹیکس دیتے ہیں۔ جولوگ بڑے گھروں میں رہ رہے ہیں اور بڑی گاڑیاں استعمال کررہے ہیں، اُنھیں بھی ٹیکس نیٹ میں لانا چاہیے اور حکومت کو اس حوالے سے سوچنا چاہیے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ فائلر اور نان فائلر پر ٹیکس اچھے اقدامات ہیں، اس کی ملک کو بہت ضرورت ہے۔حکومت کا کام وسائل کی فراہمی اور بہتر معاشی ماحول فراہم کرنا ہے، معاشی صورتحال کی بہتری میں فوج کا کردار بھی انتہائی اہم رہا ہے، پورے ملک بالخصوص کراچی میں امن و امان کی صورتحال بہت بہتر ہوئی ہے جس سے کاروباری طبقے کو فائدہ پہنچا ہے۔

اس صورتحال کی وجہ سے ہی جی ڈی پی کی شرح بھی بہت بہتر ہوئی ہے اور میری رائے میں اقتصادی راہداری کا منصوبہ ایک ''گولڈن کوریڈور '' ہے جس کی وجہ سے پاکستان معاشی ترقی کے کئی سنگ میل عبور کرے گا۔ حکومت کو چاہیے کہ برآمدات میں اضافے کی کوششیں کرے کیونکہ معاشی ترقی کیلیے حکومتوں کے جراتمندانہ فیصلے ہی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ایف بی آر کو چھاپوں اور گرفتاریوں کا اختیار نہیں ہونا چاہیے، اس قسم کے فیصلوں کا غلط استعمال بھی ہوسکتا ہے ۔ میری رائے میں فائلرز اور نان فائلرز کی تفریق ختم کرکے تمام صاحب ثروت افراد کو ٹیکس نیٹ میں لانا چاہیے۔ آف شور کمپنیوں کا سرمایہ تقریباً 105 ہزار ارب ڈالر ہے۔

طارق سعود
( سینٹرل چیئرمین آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن، اپٹما)
ہمارے کچھ مطالبات تھے جن میں سیلز ٹیکس ریفنڈ سب سے اہم تھا جو وزیر خزانہ سے جولائی یا اگست تک حل کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ اگر وہ پیسہ واپس ملے گا تو ٹیکسٹائل انڈسٹری کو فروغ حاصل ہوگا جس کا فائدہ ایک عام مزدور کو بھی پہنچے گا۔ اس سال کپاس کافی خراب ہوئی لیکن حکومت نے مسئلہ حل کرنے کے بجائے مزید ایک فیصد ٹیکس لگادیا جس کے صورتحال بگڑے گی۔

ریفنڈز کی عدم ادائیگیوں، جی آئی ڈی سی کے نفاذ اورزائد کاروباری لاگت کے سبب مقامی ٹیکسٹائل انڈسٹری بدستور بحران کا شکار ہے۔ اعلان کردہ وفاقی بجٹ میں لانگ ٹرم فنانسنگ کو وسیع البنیاد نہیں کیا گیا اگراس سہولت کو وسیع البنیاد کردیا جاتا تو مقامی صنعتی یونٹوں کی ایک بڑی تعداد نہ توسیعی منصوبے شروع کردیتیں۔ سندھ حکومت کو بجٹ ایسا پیش کرنا چاہیے جس سے عام آدمی کو خوشحالی مل سکے ۔ ملک ترقی کرے گا تو صوبے ترقی کریں گے اور صوبہ ترقی کرے گا تو عوام کو بہت فائدہ ہوگا۔

ٹیکسٹائل کے حوالے سے حکومت نے بجٹ میں جو فیصلے کیے ہیں اُن سے ٹیکسٹائل انڈسٹری کو فائدہ ہوگا، ہماری خواہش ہے کہ سندھ میں بھی ٹیکسٹائل سیکتر کی ترقی کیلیے صوبائی سطح پر اقدامات کیا جائیں۔اگر ہمارے جائز مطالبات پر حکومت توجہ دے اور انھیں مانے تو دو تین برسوں میں ٹیکسٹائل انڈسٹری قومی معیشت کو بہت فائدہ پہنچاسکتی ہے۔ بطور پاکستانی ہماری خواہش ہے کہ بجٹ کا ہر عام آدمی کو فائدہ ملنا چاہیے۔

حکومت ایسی فضا فراہم کرے جس میں بند ملیں بھی چلیں، روزگار بڑھے تو ہر کسی کو اس کا فائدہ ہوگا۔ معاشی ترقی کے ثمرات سب تک پہنچیں گے۔مزدور کی تنخواہ 14 ہزار روپے ماہانہ کرنا بھی اچھا فیصلہ ہے، اگر انڈسٹریاں ترقی کریں گی تو مزدوروں کی تنخواہیں اس سے بھی زیادہ ہوسکتی ہیں۔ سندھ کے صوبائی بجٹ میں کوشش کی جانی چاہیے کہ وفاقی بجٹ کے مثبت اقدامات کو لے لیا جائے اور جو کمی رہ گئی ہے اُس کو صوبائی بجٹ میں دور کرنا چاہیے۔

ندیم شریف
( وائس چیئرمین ٹریول ایجنٹس ایسوسی ایشن آف پاکستان ، ساؤتھ زون)
(چیئرمین حج آرگنائزر ایسوسی ایشن آف پاکستان)
اس میں دورائے نہیں کہ بجٹ اپنے ملک اور عوام کے لحاظ سے بننا چاہیے۔ معیشت کا پہیہ ہر حال میں چلتا رہنا چاہیے کیونکہ پاکستا ن ہے تو سب کچھ ہے۔ہمارے ملک میں 3 طبقے اپر کلاس، مڈل کلاس اور لوئر کلاس پائے جاتے ہیں، بدقسمتی یہ ہے کہ برسوں سے مڈل کلاس کو کوئی ریلیف نہیں مل رہا اور اگر صورتحال یہی رہی تو یہ مڈل کلاس طبقہ لوئر کلاس میں چلاجائے گا جس کے سنگین نتائج نکل سکتے ہیں۔

وفاقی بجٹ تو آگیا لیکن اب سندھ حکومت کو ایسے اقدامات کرنے ہونگے جن کا فائدہ مڈل کلاس کو پہنچے، دعا کرنی چاہیے کہ ہمارے حکمراں ایسی مثبت اور پائیدار معاشی پالیسیاں بنائیں جن سے معاشی صورتحال میں قابل ذکر بہتری ہو۔ بجٹ میں عمرہ ادا کرنے والے فی فرد پر2 ہزار روپے کا ٹیکس عائد کردیاگیا ہے جس سے وہ طبقہ سے زیادہ متاثر ہوگا جو40 سے60 ہزار روپے کے معمولی پیکیج پرعمرہ ادا کرتے ہیں۔

بجٹ میں ٹریول ٹریڈ انڈسٹری کی ترقی وفروغ کے لیے کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا ہے اور نہ ہی ٹیکس نظام کودرست بنانے کی کوئی حکمت عملی وضع کی گئی ہے۔سندھ بجٹ بھی جلد آرہا ہے حکومت سندھ نے بھی ایس آربی کے توسط سے فی فضائی ٹکٹ پر10 فیصد سیلزٹیکس عائد کیا ہوا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ نئے سندھ بجٹ میں ایس آربی بین الاقوامی فضائی مسافروں پر200 روپے اور مقامی فضائی مسافروں پر50 روپے کا فکسڈ ٹیکس سسٹم متعارف کرائے اس سے نہ صرف عام آدمی کو ریلیف ملے گا بلکہ ایس آربی کے ریونیو حجم میں مزید اضافہ ممکن ہوسکے گا۔

سیاحت کو فروغ دیا جانا بہت ضروری ہے۔ ہمارے جن سیاحتی مقامات کو جنت سے تشبیہہ دی جاتی تھی ، وہ انفرااسٹرکچر کی تباہی کی وجہ سے لوگوں کی پہنچ سے دور ہورہے ہیں جس کی وجہ سے سیاحتی شعبہ زوال پذیر ہے۔ اگر میں ٹریول ایجنٹس کے حوالے سے بات کروں تو 18 ویں ترمیم کے بعد ٹریول ایجنٹس کو وفاق سے نکال کر صوبوں کے حوالے کردیا گیا ہے جس کی وجہ سے وفاقی سطح پر ہماری کوئی شُنوائی نہیں۔

بجٹ میں حکومت نے جہازوں کے پارٹس کیلیے ڈیوٹی میں تو کمی کی لیکن ان جہازوں میں سفر کرنے والوں کو کوئی ریلیف نہیں دیا گیا۔ عمرے پر 2 ہزار روپے فی کس کے حساب سے ٹیکس لگایا گیا ہے، میری رائے میں کرایوں میں کسی حد تک کمی ہونی چاہیے تھی۔ وفاقی بجٹ میں تویل اینڈ ٹریڈ انڈسٹری کیلیے کچھ نہیں۔ ہم نے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ مسافروں پر ٹیکس فکس کردے، انٹرنیشنل مسافروں پر 200 روپے اور ڈومیسٹک مسافروں پر 50 روپے ٹیکس لے لیا جائے، اس سے صورتحال بہتر ہوگی، ٹریول ایجنٹس کو علم ہوگا کہ انھیں کتنا ٹیکس دینا ہے۔ سندھ ریونیو بورڈ نے سروسز پر 10 فیصد ٹیکس لگایا ہے، دیگر صوبوں میں بھی اس ٹیکس کی شرح مختلف ہے۔

آصف سم سم
( ریجنل چیئرمین ایسوسی ایشن بلڈرز اینڈ ڈیولپرز ، آباد)
بجٹ سے پہلے ہر بلڈر کا سو فیصدآڈٹ ہوتا تھا جس پر ہم نے اعتراض کیا ۔ ہارون اختر صاحب نے آباد کی تجاویز کو تسلیم کیا اور انھیں بجٹ کا حصہ بنایا۔ہمارا مطالبہ ہے کہ بلڈرز پر فکس ٹیکس لگایا جائے ، اس سے ٹیکس چوری سے بچاجاسکے گا۔ ہماری خواہش ہے کہ سندھ کے بجٹ میں تعمیراتی سیکٹر کو مزید مراعات اور سہولتیں دی جائیں۔

سندھ میں یہ قانون بنایا گیا ہے کہ صرف وہی کمرشل پلازہ بناسکتا ہے جو آباد کا ممبر ہو۔ پنجاب میں بھی یہ قانون ہے لیکن وہاں اس پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ ہم نے سیمنٹ کی قیمت کو کنٹرول کرنے کیلیے بار بار آواز اٹھائی لیکن کچھ نہیں کیا گیا بلکہ سیمنٹ پر ڈیوٹی لگادی گئی۔ ہم تو کہتے ہیں کہ صرف ہم ہی گھر نہیں بناتے، ایک عام آدمی بھی اپنا گھر خود بناتا ہے ، اس کے علاوہ حکومت اپنے تعمیراتی منصوبے ہوتے ہیں جن میں لاکھوں ڈالر کی لاگت آتی ہے۔ سیمنٹ اور سریے کی قیمت بڑھنے سے حکومت کے اپنے منصوبوں کی لاگت بڑھ جائے گی۔

دبئی سے فی ٹن سریا 55 ہزار میں آسکتا ہے ، ہم نے حکومت کو تجویز دی ہے کہ وہ ہم سے 65 ہزار فی ٹن لے لے لیکن حکومت 80 یا 85 ہزار کے ریٹ پر بضد ہے، اب کچھ کمی کرکے وہ ریٹ 78 ہزار کیا گیا ہے۔

اسٹیل کی امپورٹ پر 10 فیصد ڈیوٹی لگادی گئی ہے جس سے اسٹیل بھی مہنگا ہوجائے گا۔ حکومت کی جانب سے Low Costing کا نعرہ صرف نعرہ ہی ہے۔ہم نے حکومت سے کہا ہے کہ وہ ہم سے تعاون کرے ، ہم عام آدمی کیلیے 10,15 لاکھ میں رہائشی یونٹ بنانے کیلیے تیار ہیں بس گیس، بجلی اور پانی کی فراہمی حکومت کی ذمے داری ہوگی۔ ہاؤسنگ سیکٹر کیلیے سبسڈی ضروری ہے۔ اگر بجٹ میں بھی کوئی حکومت ملک اور عوام کا سوچنے کے بجائے اپنا سوچے تو یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہوتی ہے۔ مستقل پالیسیوں سے ہی ملک ترقی کرسکتا ہے، تعلیم ، دفاع، صحت ایسے سیکترز ہیں جن پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوناچاہیے، بجٹ کے بعد ایک ہاؤسنگ پالیسی لانا بھی ضروری ہے۔
سیمنٹ کی فی بوری قیمت50 روپے بڑھادی گئی اوردرآمدی سریے پر10 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کردی گئی ہے جس سے واضح ہوگیا ہے کہ ایف بی آر پرسیمنٹ اور اسٹیل کارٹیل حاوی ہے جو صرف مقامی صنعتوں کی تحفظ کی آڑ میں من پسند فیصلے کرانے کی طاقت رکھتے ہیں لیکن اپنی مصنوعات کی قیمتیں کم کرنے سے گریزاں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان 2شعبوں کو لگام دینے سے حکومت کو بھی بھرپورفائدہ ہوسکتا ہے جس کے اربوں روپے مالیت کے ترقیاتی وتعمیراتی منصوبے جاری ہیں۔

شرجیل جمال
(چیئرمین ٹیکس ایڈوائزری فورم)
ملک کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ سیاسی حکومتوں کے پاس حکومت چلانے کا پورا اختیار نہیں ہوتا، بیوروکریسی نے ملک کو برباد کردیا ہے۔ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اسحق ڈار صاحب کا ڈر بیوروکریسی پر ہے ۔

موجودہ حالات میں وفاقی حکومت نے اچھا بجٹ پیش کیا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جو پالیسیاں بنائی جاتی ہیں اور جن باتوں کا اعلان کیا جاتا ہے اُس پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ ہمارے ملک میں سیاست سے لیکر ٹریڈ باڈیز تک ہر جگہ فیوڈل ازم ہے جس کو ختم کرنے کیلیے کسی حکومت نے سنجیدہ کوششیں نہیں کیں، ترقی جب ہوتی ہے جب ہر بندے کو برابر کے حقوق ملیں لیکن پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں ڈبل ٹیکسیشن (Double Texation) کا نظام ہے۔صوبے خاص طور پر سندھ حکومت اپنے عوام کو مدنظر رکھ کر بجٹ پیش کرے گی تو اس کا فائدہ پورے ملک کو ہوگاکیونکہ معیشت کی ترقی کا کا پہیہ چلتا ہے تو دور تک جاتا ہے۔

زرعی زمین پر کوئی ٹیکس نہیں، یہ سلسلہ بھی ختم ہونا چاہیے۔ ابھی بجٹ آیا ہے لیکن اس بجٹ میں کئی تبدیلیاں ہوں گی اور مِنی بجٹ بھی آئے گا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ملک میں معاشی پالیسیاں سیاسی جماعتوں کی بنیاد پر بنائی جاتی ہیں جبکہ انھیں پاکستان کی بنیاد پر پاکستان کیلیے ہی بنانا چاہیے۔کوئی ایسا ادارہ ہونا چاہیے جو پورے ملک کیلیے ٹیکسیشن پالیسی بنائے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ محض لالی پاپ ہے۔حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ بیروکریسی کو کنٹرول کرنے کا کوئی مکینزم ہونا ضروری ہے۔

ایف بی آر واحد ادارہ ہے جہاں کسی بھی افسر کی کرپشن کی شکایت ہی درج نہیں کی جاسکتی، اگرشکایات کردی گئیں تو شکایت کنندہ کوبھاری کاروباری خسارے اور مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ ایف بی آر کی نوکرشاہی کی تقرری وترقی کے موقع پر دیگر ٹیسٹوں کے ساتھ نفسیاتی ٹیسٹ بھی لازم قراردیا جائے۔

مقبول خبریں