فنانس ایکٹ کے ذریعے ورکرز فنڈز آرڈیننس میں ترامیم غیرآئینی قرار

غلام نبی یوسفزئی  ہفتہ 12 نومبر 2016
جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے27 ستمبرکو سماعت مکمل کرکے اپیلیں خارج کردی تھیں۔ فوٹو : فائل

جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے27 ستمبرکو سماعت مکمل کرکے اپیلیں خارج کردی تھیں۔ فوٹو : فائل

اسلام آباد: سپریم کورٹٰ نے ورکرز ویلفیئر فنڈز آرڈیننس مجریہ1971 میں فنانس ایکٹ کے ذریعے ترامیم کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہر قسم کے مالی معاملات کو منی بل کے ذریعے فنانس ایکٹ میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔

جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے ورکرز ویلفیئر فنڈز آرڈیننس کی سیکشن 2 اور 4کو فنانس ایکٹ 2006 اور اسی آرڈیننس کی سیکشن 8 کو فنانس ایکٹ 2008 کے ذریعے ترمیم کرنے کو غیر آئینی قرار دینے کا لاہور اور پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے فیصلے کے خلاف اپیلیں خارج کر دی ہیں اور قرار دیا ہے کہ لازمی ادائیگیوں، لیویز اور صنعتی یونٹس کی کنٹری بیوشن کو ٹیکس نہیں کہا جا سکتا بلکہ یہ فیس ہے اور اس نوعیت کے مالی معاملات سے متعلق قانون سازی فنانس ایکٹ کے ذریعے نہیں کی جا سکتی بلکہ اس نوعیت کے معاملات کے بارے میں قانون سازی آئین کی شق 70 کے تحت ہوگی۔

جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے27 ستمبرکو سماعت مکمل کرکے اپیلیں خارج کردی تھیں، گزشتہ روز تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا ہے،32 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جسٹس ثاقب نثار نے لکھا ہے جس میں ٹیکسز اور لازمی ادائیگیوںکے بارے میں فرق کو واضح کر دیا گیا ہے اورکہا گیا ہے کہ لازمی ادائیگیوں کو منی بل کے ذریعے فنانس ایکٹ میں شامل نہیںکیا جا سکتا۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔