کراچی کے موسم کا اسکرو ڈھیلا ہے

کراچی سے سردی کی ناراضگی کے بعد لوگ بھی اب یہ سوچتے ہیں کہ ’گرم کپڑے پہن کر جاؤں کہاں اور لحاف گدّے بنواؤں کس کے لئے؟‘


مہوش کنول December 06, 2016
کراچی میں لحاف اوڑھ کر سونے کا شوق پورا کرنے کے لئے پہلے پنکھا تیز رفتار سے چلا کر کمرہ ٹھنڈا کیا جاتا ہے اور جب محسوس ہو کہ اب کمبل میں جانے لائق ٹھنڈ ہوگئی ہے تب کہیں جاکر کمبل اور لحاف میں سونے کا مزہ لیا جاتا ہے۔

کراچی میں سردی کا موسم نہ جانے کیوں آتے ہوئے اتنے نخرے دکھاتا ہے اور آتا ہے تو ٹِکتا کیوں نہیں؟ شاید اس کا اسکرو ڈھیلا ہے۔ کہنے کو تو موسم سردی کا ہے لیکن ناں جانے کیوں درجہ حرارت ہے کہ بڑھتا ہی چلا جارہا ہے یا پھر ہمارے اعصاب پر ہی گرمی سوار ہوگئی ہے۔

یہاں عوام سارا سال شدت سے سردی کا انتظار کرتے ہیں اور سردی ایسے آتی ہے جیسے اس کی منہ دکھائی ہو۔ سمجھ نہیں آتا کہ پنکھا چلائیں نہ چلائیں، کمبل اوڑھیں نہ اوڑھیں اور اگر صبح جیکٹ پہن کر گھر سے نکل جائیں تو شام کو وہ جیکٹ کندھے کی سواری کرتی نظر آتی ہے۔

گرمی سردی کی اس تو تو، میں میں سے شہری پریشان ہوجاتے ہیں کہ سردیوں کی سوغات یعنی مختلف قسم کے سوپ، حلووں، مونگ پھلی اور دیگر خشک میوہ جات کا مزہ کیسے لیں۔ کراچی کے برعکس ملک کے دوسرے شہروں میں پڑنے والی سردی کو دیکھ کر ہی کراچی کے شہری رشک میں ڈوبی سرد آہیں بھر بھر کر ماحول ٹھنڈا کردیتے ہیں، جبکہ دوسری طرف سردی تو سردی لوگ برف باری کا بھی خوب مزہ لیتے نظر آتے ہیں۔

کراچی میں کمبل اور لحاف اوڑھ کر سونے کا شوق پورا کرنے کے لئے پہلے پنکھا تیز رفتار سے چلا کر کمرہ ٹھنڈا کیا جاتا ہے اور پھر جب محسوس ہوتا ہے کہ اب کمبل میں جانے لائق ٹھنڈ ہوگئی ہے تب کہیں جاکر کمبل اور لحاف میں سونے کا مزہ لیا جاتا ہے۔ اب کراچی میں سردی آتی ہے تو کچھ مخصوص طبقات کے لئے۔ ان میں سب سے پہلا طبقہ ہے چھوٹے چھوٹے بچوں کا، جن کی مائیں سردی کی شروعات سے پہلے ہی ان کے لئے اونی کپڑوں کی خریداری یہ سوچ کر کرتی ہیں کہ سردیوں کی آمد پر کہیں اِن کی قیمتیں مزید بڑھا نہ دی جائیں، اور پھر چاہے بچوں کو سردی محسوس ہو نہ ہو اپنی ماؤں کی خوشی اور خواہش کے مطابق انہیں وہ اونی کپڑے اپنے جسم کی زینت بنانے پڑتے ہیں۔

دوسرا طبقہ ہے خشک میوہ جات بیچنے والے اسٹورز اور ٹھیلے والوں کا، سردی کا نام سنتے ہی ان خشک میوہ جات کی قیمتیں ہوا میں پرواز کرنا شروع ہوجاتی ہیں اورشہری بے چارے سردی کا مزہ لینے کے لئے نہ صحیح، لیکن منہ کا ذائقہ بدلنے کے لئے بھی ان سے لطف اندوز نہیں ہوپاتے۔

تیسرا طبقہ ہے گرم اور اونی ملبوسات بیچنے والوں کا، جو بے چارے سردی کے موسم کے لحاظ سے اپنی دوکانوں پر گرم ملبوسات کا ذخیرہ تو کرلیتے ہیں لیکن ان کی طلب نہ ہونے کے باعث خریدار ذرا کم ہی ان کی دکانوں کا رخ کرتے نظر آتے ہیں۔

ایک وقت تھا کہ سردی کی آمد سے پہلے ہی دُھنیے کی دوکانوں پر رش لگنا شروع ہوجاتا تھا۔ کوئی پرانے گدّے لحاف صحیح کروانے لارہا ہوتا تھا تو کوئی نیا کپڑا خرید کر نئے لحاف گدّے بنوانے کے لئے لارہا ہوتا۔ یہ بھی ایک اچھی سرگرمی ہوا کرتی تھی، لیکن جیسے جیسے سردی نے کراچی سے ناراضگی دکھانی شروع کی تو لوگ بھی اب یہ سوچتے ہیں کہ،
''گرم کپڑے پہن کر جاؤں کہاں اور لحاف گدّے بنواؤں کس کے لئے؟''

کیونکہ کراچی میں سردی تو بھیّا اب صرف سننے سنانے کو رہ گئی ہے۔ اب تو لگتا یہ ہے کہ سردیوں میں اوڑھے جانے والے کمبل اور پہننے والے گرم کپڑے جن کی مختلف برانڈز سے خریداری پر ہم ہزاروں روپے خرچ بلکہ برباد کرتے ہیں وہ کراچی میں صرف نمود و نمائش کے لئے ہی نہ رکھے رہ جائیں۔

[poll id="1276"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

مقبول خبریں