کیا حاصل؟

فرح ناز  ہفتہ 10 دسمبر 2016
ffarah.ffarah@gmail.com

[email protected]

بہت ہی دکھی سا دن ہے تمام پاکستانیوں کے لیے کہ PIA کا جہاز PK-661 چھیالیس مسافروں کو چترال سے لے کر اسلام آباد کی طرف روانہ ہوا، مگر اس لاجواب سروس کے جہاز کا انجن حویلیاں ایبٹ آباد پر آکر جواب دے گیا، اور پائلٹ نے جہاز کو بستی میں گرنے سے بچا کر پہاڑوں کے سپرد کردیا اور پھر وہ ہوا جو نہیں ہونا چاہیے تھا، تمام اسٹاف سمیت تمام مسافر ایک خوفناک حادثے کا شکار ہوگئے، 48 لوگ، 48 خاندان، شدید دکھ اور کرب کا شکار ہوگئے، جہاز پہاڑوں پر گرا خوفناک آگ، جلے ہوئے مسافر، شدید کرب، شدید دکھ، پورا پاکستان غم میں ڈوب گیا۔

بدقسمتی سے اس جہاز کے مسافروں میں مایہ ناز شخصیت جنید جمشید اور ان کی بیوی بھی اللہ کو پیارے ہوگئے۔ نیہا جنید، جنید جمشید کی دوسری اہلیہ تھیں، جو چترال سے اسلام آباد واپس آرہے تھے، جنید جمشید کی پہلی اہلیہ عائشہ اپنے بچوں کے ساتھ خیریت سے ہیں۔ PIA ہماری وہی ایئرلائن ہے جس نے امارات جیسی ایئرلائن کی تربیت کی، جو اپنی روایات اور سروس کی وجہ سے لاجواب سروس ہونے کا دعویٰ کرتی تھی، اب اس کا حال یہ ہے کہ جو جہاز گراؤنڈ کرنے کے لائق ہیں ان کو بھی استعمال کیا جا رہا ہے، سفر کرنے والے اپنی جانوں پر کھیل کر اس کو استعمال کر رہے ہیں، جس کا رزلٹ سب کے سامنے ہے، اس سے پہلے ایئربلیو کا جہاز مارگلہ پہاڑوں پر گر چکا ہے اور یہ زیادہ پرانی بات نہیں۔

زندگی اور موت اور رزق صرف اور صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے، نہ کوئی چھین سکتا ہے اور نہ کوئی زیادہ کرسکتا ہے۔ محنت کرنے کا اختیار اللہ نے ضرور انسانوں کو دیا ہے، اب یہ بھی اللہ کی مرضی ہے کہ وہ آپ کی محنتوں کو قبول کرے یا نہ کرے۔ سیاست اور کرپشن نے پاکستان کی جڑیں کمزور کردی ہیں، یہ دونوں ناسور پاکستان کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں، کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے کہ شاید سنجیدگی سے ایکشن نہیں لیے جا رہے ہیں یا پھر بے حسی کا عالم یہ ہے کہ چلے جا رہے ہیں خدا کے سہارے۔ شعیب منصور نے اسلام آباد کے ایک گروپ کے ساتھ مل کر ایک ملی نغمہ تخلیق کیا، دل دل پاکستان، اب شاید ہمارے قومی ترانے کے بعد سب سے زیادہ گایا جانے والا ملکی نغمہ، ہر طرف مشہوری کے جھنڈے گاڑنے والے جنید جمشید لیڈنگ آواز تھے وائٹل سائن گروپ کی، بہت زیادہ خوبصورت نغمے، پھر ایک دم بدلاؤ، مولانا طارق جمیل بنے جنید جمشید کے استاد اور پھر دنیا کے ساتھ ساتھ دین سے بھی جنید منسلک ہوگئے، کامیاب بزنس مین بن گئے اور کپڑوں کے کاروبار سے بھی مشہوری حاصل ہوئی۔

جے ڈاٹ کا برانڈ اور پاکستان سمیت مختلف ملکوں میں اپنے آؤٹ لیٹ کھولے۔ ٹی وی شوز، تبلیغ، کاروبار، گوکہ مختلف شعبوں میں کامیابی و کامرانی کے ساتھ چلے، کبھی ان پر اعتراضات بھی ہوئے  مگر پھر سے سنبھلے اور چلتے گئے، مگر چترال سے اسلام آباد کا سفر ان کی زندگی کا آخری سفر ثابت ہوا۔ تقریباً 20 سال کا عرصہ جنید جمشید نے دین کی تبلیغ میں صرف کیا اور آخری کام بھی یہی رہا۔ تاحال 40, 42 انسانی لاشوں کو جہاز کے ملبے سے نکالے جانے کے باوجود جنید جمشید کی شناخت تاحال نہ ہوسکی۔ بہرحال اللہ رب العزت ان تمام شہادتوں کو جنت کے اعلیٰ درجات عطا فرمائے، اور ہم سب پر رحم کے بادل کردے کہ بے شک ہم گناہ گار کہاں اس قابل کہ اپنے لیے کچھ بھلائی سوچ سکیں۔

ان شہادتوں میںہوائی ادارے کا بڑا حصہ سمجھا جائے گا، وہ جہاز جو ناقابل استعمال ہوتے ہیں ان کو انسانوں کی جانوں کی نذر کردیا جائے گا، اس طرح کون کرتا ہے، ڈھٹائی دیکھیے کہ اس طرح کے حادثات کو کبھی پائلٹ کی غلطی قرار دیا جاتا ہے، کبھی موسم کی خرابی۔ بس کھائے جاؤ، اب تو ایسا لگتا ہے کہ انسانی خون ہی ان لوگوں کی مرغوب غذا بن گیا ہے۔ جب تک ہوسکے گا یہ انسانی خون اور انسانی گوشت کھاتے رہیں گے اور ایک دن خود بھی اپنے سے بڑے درندے کا شکار ہوجائیں گے۔ مکافات عمل کو کوئی بھی نہیں روک سکتا۔ اللہ کے قانون کبھی نہیں بدل سکتے ہیں، کتنے بھی پھنے خان بن جائیں، کتنے بھی ڈالرز اور ہیرے جواہرات جمع کر لیجیے، وہی ملے گا جو بویا جائے گا۔

یہ ناگہانی حادثات انسانوں کے دماغ اور روحوں کو جھنجھوڑ کے رکھ دیتے ہیں، احساس دلاتے ہیں کہ کوئی اوپر موجود ہے جو ذرہ ذرہ دیکھ رہا ہے، کوئی ہے جو پل پل ہماری سوچوں اور دلوں کے حال جانتا ہے، مگر انسان آدم علیہ السلام سے لے کر آج تک ظالم ہے، ظلم کی کہانیاں، ظلم کے بازار آج بھی ایسے ہی آباد ہیں جیسے جہالتوں کے دور میں تھے، وہی ہوس، وہی لونڈیوں کے دور، وہی جہالت، وہی شباب اور شراب، پہلے جاہل ہوکر اور اب ماڈرن بن کر، گندگی، غلاظت، ڈھیروں کی صورت میں موجود، نہ رات نہ دن، ایسا دور جو چلے جا رہا ہے، اس کا انجام کیا صرف آگ ہی آگ ہے، کیا جلے ہوئے جسم، نہ پہچانی جانے والی لاشیں ہی مقدر ہوگا، کیا ہم صرف انسانوں کی شکل والے جانور ہی بنے رہیں گے یا خلافت اور انصاف کو بھی سمجھیں گے۔

کتنی سیاستیں، کتنی کرپشن، خودکشیاں، قتل و غارت، لوٹ مار اور وہ سب کچھ جو شاید نبیوں کی آمد سے پہلے رہا ہوگا، مگر کیا اب بھی ایسے ہی چلے گا، اللہ کی ہدایت، بھیجی گئی آسمانی کتابیں، تبلیغ، محبتیں، چاہتیں، قربتیں، کیا حاصل؟

کیا ہم کھو رہے ہیں کیا ہم پا رہے ہیں؟ ایک سوال جس کا جواب جانے کب ملے گا۔ پتا نہیں ہم اس سوال کے جواب کو حاصل کرپائیں گے یا نہیں، یا پھر صرف جئے جائیں گے اور ایک دن کوئی ناگہانی مصیبت، ناگہانی حادثہ ہمارا مقدر ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔