اُستاد کی عظمت

آپؐ پوری انسانیت کے لیے عظیم اور مثالی معلّم بن کر تشریف لائے


وسیم ابن نصیر December 23, 2016
آج بھی اخلاق عالیہ کے اعلیٰ و ارفع مقام پر فایز معلمین بہ کثرت پائے جاتے ہیں۔ فوٹو: فائل

حیات انسانی کا نظام دو عناصر یعنی جسم اور روح کے ملاپ سے تشکیل پاتا ہے۔ جسدِ خاکی کی نگہداشت و بود و باش حقیقی والدین کی ذمے داری ہے جب کہ روحِ انسانی کے ثمردار پودے کو خونِ جگر دے کر سینچنے والی ہستی کا نام استاد ہے۔ حقیقی والد بچے کا جسمانی باپ جب کہ استاد بچے کا روحانی باپ ہے۔

امام غزالیؒ نے استاد کو اس طرح خراج تحسین پیش کیا ہے: '' حقیقی باپ نفس کو آسمان سے زمین پر لاتا ہے مگر روحانی باپ تحت الثرٰی سے سدرۃُالمنتہٰی پر لے جاتا ہے۔''

استاد کی عظمت اور فضیلت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ربِ ذوالجلال خود سب سے پہلے اور بڑے معلم ہیں۔ ارشادِ ربانی ہے: (ترجمہ و مفہوم) '' پڑھ تیرا رب بہت بزرگی والا ہے جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا اور انسان کو وہ کچھ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔''

ہمارے پیارے رسول ﷺ جو سردارالانبیاء، سرتاج الانبیاء ، نبی آخرالزماں، رحمت اللعالمین، محبوبِ پروردِگار اور سرکارِ دوعالم ہیں۔ رازقِ جن و بشر اور خالق ِشمس و قمر آپؐ کو قرآن مجید فرقان حمید میں داعی الی اﷲ، شاہد، یٰس، طٰہ، مبشر، نذیر اور سراج منیر جیسے اسماء الحسنٰی سے مخاطب کرتا رہا۔ کارسازِ و معبودِ بر و بحر اسی کتاب مقدسہ میں آپؐ کی زلف مشک بار، رخ انور، سینہ اطہر، زمانۂ منور، زیستِ مطہر، چادرِ معنبر اور مکہ شہر کہ '' جس کی سرزمین آپؐ کے قدم ہائے معطر کے نعلین کے بوسے لیتی رہی'' کی قسمیں اٹھاتا رہا۔ اِن تمام عزتوں اور عظمتوں کے باوجود آپؐ نے اپنے معلم ہونے پر فخر فرمایا۔ آپؐ کی زبان ِ معجزبیان و خوش الحان پر وارد ہونے والے معتبر الفاظ آج بھی کتب احادیث کے حافظے میں موجود ہیں۔

آپؐ پوری انسانیت کے لیے عظیم اور مثالی معلم بن کر تشریف لائے۔ ایسے معلم جن کی صرف 23 سال کی تدریسی کاوشوں نے جزیرہ عرب کی کایا پلٹ کر رکھ دی۔ آپؐ کی تعلیمات نے وحشی صحرا نشین شتربانوں کو مہذب شہری بنا دیا۔ آپؐ کو معلم کا یہ عظیم منصب اﷲ رب العزت کی طرف سے عطا ہوا تھا۔

قرآن حکیم میں متعدد مرتبہ آپؐ کے معلم ہونے کا ذکر آیا ہے۔

مختلف آیات کا ترجمہ و مفہوم :

'' اے ہمارے پروردگار! ان لوگوں میں خود انہیں کے اندر سے ایک رسول مبعوث فرما جو انہیں تیری آیات پڑھ کر سنائے' انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور انہیں پاک کر ے۔

'' جس طر ح ہم نے تمہارے اندر خود تم ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو تم کو ہماری آیات پڑھ کر سناتا ہے اور تمہارا تزکیہ کرتا ہے اور تمہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور تمہیں وہ باتیں سکھاتا ہے جو تم نہیں جانتے تھے۔''

'' اﷲ تعالیٰ نے ایمان والوں پر احسان فرمایا، ہم نے ان کے اندر خود ان ہی میں سے ایک رسول مبعوث کیا جو انہیں اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور ان کا تزکیہ کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور اس سے پہلے تو وہ صریح گم راہی میں تھے۔''

'' وہی ہے جس نے امیوں (ان پڑھوں ) کے درمیان خود انہی میں سے ایک رسول مبعوث کیا جو ان کو اس کی کتا ب پڑھ کر سناتا ہے اور ان کا تزکیہ کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔''

یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اقوام و ملل کے زوال و انحطاط کا اصل سبب احترامِ اساتذہ میں کمی ہے۔ جو اقوام احترامِ اساتذہ سے روگردانی کے جرم عظیم کا ارتکاب کرتی ہیں، گردش ِ دوراں کی آتشِ غضب برق بن کر اُن کے خرمن حیات کو خاکستر کر دیتی ہے۔ اُن کی داستان رہتی دُنیا تک مخلوقاتِ ارضی کے لیے درسِ عبرت بن جاتی ہے۔ جب کہ احترامِ اساتذہ بجا لانے والی اقوام جہانِ رنگ و بو کے ا فق پر آفتابِ جہاںتاب اور مہتاب شب تاب بن کر چمکتی دمکتی رہتی ہیں۔ تاریخ کی پیشانی پر اُن اقوام کے نام کا جُھومر تابندہ و پایندہ نظر آتا ہے جو اپنے اساتذہ کی قدر جانتی اور منزلت پہچانتی ہیں۔

آج کا انسان عمیق سمندروں کے کڑوے کسیلے پانیوں کی منہ زور موجوں کو نکیل ڈال چکا ہے۔ آج کا انسان کہکشاؤں کے جادے سے گزر کر ماہ و مہر کے سینے پر کام رانیوں کے عَلم گاڑ چکا ہے۔ آج کا انسان ہواؤں، فضاؤں اور خلاؤں کے قرطاس پر اپنی حکم رانی کی کہانی اپنے قلم سے رقم کر چکا ہے۔ استاد کی نظر عنایت نے ہی ان تمام ناممکنات کو ممکنات میں بدل دیا ہے۔ استاد کی قدر و منزلت سے انکار حدِ امکان سے باہر ہے۔ جس طرح کوئی انسان اپنے باپ سے انکار کو گالی تصور کرتا ہے اسی طرح استاد کی خدمات کا انکار بھی گالی ہے۔ کفس معلم اٹھانے والے ہی زمانے کے جور و استبداد کے بوجھ سے محفوظ رہتے ہیں۔

استاد قوم کا محسن ہے۔ استاد قوم کا خیر خواہ ہے۔ استاد قوم کا مستقبل سنوارنے کا فریضہ سرانجام دیتا ہے۔ استاد قوم کی تنظیم و تشکیل کا ذمے دار ہے۔ استاد قوم کو ترقی کی راہ پر گام زن کرتا ہے۔ استاد قوم کی اصلاح کرتا ہے۔ استاد قوم کو کام یابی اور کام رانی کے گُر سکھاتا ہے۔ استاد قوم کی بقا کا ضامن ہے، استاد قوم کا طبیب ہے، استاد قوم کا مسیحا ہے، استاد قوم کا باپ ہے، استاد فکر ِ بشر کو انسانیت کا درس دیتا ہے۔ استاد محبت، اخوت، رواداری، ہم دردی، ایثار، قربانی، اتفاق، اتحاد، شرافت، امانت، دیانت، صداقت اور عدالت کا سبق دے کر افراد کو اقوام کی امامت سکھاتا اور قوم کا معمار ہے۔

حیف صد حیف کہ ہمارے معاشرے نے استاد سے اُس کا اصل مقام چھین لیا ہے۔ استاد کی قدر و منزلت اور جاہ و عزت وہ نہیں رہی جو قدیم زمانے میں تھی۔ آج ہمارے معاشرے کے تباہی کے گڑھے کے دہانے پر پہنچ جانے کی اصل وجہ استاد کی ناقدری ہے۔ آج کے استاد کو اُس کے اصل مقام سے ہٹا دینے کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ آج کا استاد قدیم دور کے اساتذہ جیسے خواص کا حامل نہیں ہے۔ لیکن آج بھی ذہین و فطین، قابل اور صاحبِ کردار اساتذہ کی کمی نہیں ہے۔ آج بھی اخلاق عالیہ کے اعلیٰ و ارفع مقام پر فایز معلمین بہ کثرت پائے جاتے ہیں۔ ایسے اساتذہ کی زندگی ہمارے لیے نمونہ عمل قرار پاتی ہے اُن کے نقش قدم پہ چل کر ہم دین و دنیا کی بھلائی حاصل کر سکتے ہیں۔ حقیقی والدین کی طرح اساتذہ بھی عزت، احترام اور تکریم کا استحقاق رکھتے ہیں۔

اﷲ تعالٰی ہم سب کو استاد کا احترام بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

مقبول خبریں