شرم و حیا، انسان کو بداخلاقی و بدتہذیبی سے بچاتی ہے

عاصمہ عزیز  جمعـء 6 جنوری 2017
ایک باحیا انسان کے ذہن میں پنپتے خیالات ہوں یا پیٹ میں جاتا لقمہ، وہ اس کے حلال ہونے کے بارے میں بھی محتاط رہتا ہے۔ فوٹو : فائل

ایک باحیا انسان کے ذہن میں پنپتے خیالات ہوں یا پیٹ میں جاتا لقمہ، وہ اس کے حلال ہونے کے بارے میں بھی محتاط رہتا ہے۔ فوٹو : فائل

حیا عربی زبان کا لفظ ہے جو حیات سے نکلا ہے اور حیات کے معنی زندگی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کسی بھی معاشرے یا فرد میں حیا کا ہونا زندگی کی علامت ہے۔ حیا کا لفظ بہت وسیع ہے، جس کے مطالب میں عاجزی، خودداری اور عزت کو لیا جاسکتا ہے۔ مومن کی زندگی میں حیا ایک لازمی جزو ہے۔ حیا، ایمان کا حصہ ہے جس کے بغیر انسان کا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا۔

آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ایمان کی ستّر سے اوپر کچھ شاخیں ہیں، جن میں سے ایک حیا ہے۔‘‘

حیا اور ایمان لازم و ملزوم ہیں۔ اگر حیا انسان کے اندر سے رخصت ہوگئی تو ایمان بھی جاتا رہے گا، کیوں کہ سارے نیک اعمال کی بنیاد حیا ہے۔

حیا وہ خوبی ہے جو انسان کو گناہ کے راستے پر جانے سے بچاتی ہے۔ یہ انسان کی زبان، اس کی نگاہوں، سماعت اور قدموں کو غلط کاموں سے روکے رکھتی ہے۔ جب انسان میں حیا نہ رہے تو وہ بے حس ہوجاتا ہے، اسے نہ تو گناہ کا احساس ہو پاتا ہے نہ اﷲ کی ناراضی کا ڈر۔ اس لیے کہا گیا ہے کہ جب تم حیا نہ کرو تو جو چاہے کرو۔ حیا نہ صرف انسان میں اﷲ کا ڈر پیدا کرتی ہے بل کہ جس میں حیا ہوتی ہے وہ لوگوں کے ساتھ معاملات میں بھی لحاظ و مروت سے کام لیتا ہے۔ حیا انسان کو بداخلاقی و بدتہذیبی سے بچاتی ہے۔

انسان میں حیا کا ہونا مرد و زن دونوں کے لیے یک ساں ضروری ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب بھی حیا کا لفظ ادا کیا جائے تو اس کو محض عورت سے منسوب کردیا جاتا ہے، جب کہ قرآن میں سورۃ نور میں عورتوں سے پہلے مردوں کو اپنی نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم فرمایا گیا ہے۔ اس کے ساتھ عورتوں کے لیے بھی پردے اور نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم ہے۔ نگاہ کی حفاظت انسان کو باحیا بناتی ہے۔ کیوں کہ اگر نظر میلی ہوگئی تو دل بھی میلا ہوگا۔ نظر کا جھکانا دل کو روشن کرتا ہے۔ آنکھ میں حیا ہوگی تو دل میں تقویٰ کی کیفیت پیدا ہوجائے گی۔ حیسا کہ حیا کا لفظ حیات سے نکلا ہے تو یہ حیات القلب یعنی دل کی زندگی کا نام ہے۔

اﷲ نے انسان کی فطرت میں حیا رکھی ہے۔ ایک بچہ فطرتاََ باحیا پیدا ہوتا ہے۔ لیکن پھر آہستہ آہستہ اس پر معاشرے کے رسم و رواج اور ماحول کے اثرات حاوی ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اور اس کے اندر حیا کی صفت نابود ہوجاتی ہے۔ آج کے دور میں دیکھا جائے تو نگاہیں نیچی رکھنے والے شرمیلے اور باحیا انسان کو فرسودہ اور دقیانوسی خیال کیا جاتا ہے۔ دوست احباب، خیرخواہی کے پردے میں طنز کے تیر چلا کے اس شخص کی خود اعتمادی کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ جب کہ اسلام اور آپ ﷺ کی تعلیمات سے ظاہر ہوتا ہے کہ شرمیلا اور باحیا ہونا باعث ِشرمندگی نہیں۔

عبداﷲ ابن عمر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے : رسول اﷲ ﷺ ایک آدمی کے پاس سے گزرے جو اپنے بھائی کو حیا کے حوالے سے نصیحت کر رہا اور کہہ رہا تھا کہ تم بہت شرمیلے ہو اور مجھے ڈر ہے کہ اس سے تمہیں نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اسے چھوڑ دو کہ حیا ایمان کا حصہ ہے۔‘‘ ( بخاری)

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان کو کس سے حیا کرنی چاہیے۔ سب سے پہلے تو انسان کو اﷲ سے حیا کرنی چاہیے کیوں کہ اﷲ کی پاک ذات ہی اس بات کی سب سے زیادہ حق دار ہے کہ اس سے حیا کی جائے۔ اﷲ کے ڈر سے انسان کوئی ایسا کام نہ کرے جس میں پکڑ ہو اور جو اس کو عیب دار بنا دے۔ انسان کے دل اور دماغ میں کیسے خیالات آتے ہیں یہ صرف اﷲ ہی جانتا ہے۔ اس کے دل میں کسی کے لیے نفرت، دشمنی، حسد یا نفاق کے اندھیرے ہیں یا پھر ایمان کی روشنی اﷲ ہی اس سے واقف ہے۔

ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ نبی اکرمؐ نے فرمایا : ’’ اﷲ سے حیا کرو جیسے حیا کرنے کا حق ہے۔ لوگوں نے کہا وہ تو ہم کرتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا یہ حیا نہیں۔ اﷲ سے حیا یہ ہے کہ انسان اپنے سر اور جو کچھ اس کے اندر ہے، پیٹ اور جو کچھ اس کے اندر ہے، اس کی حفاظت کرے۔ اور موت اور اس سے جڑے فتنوں کو یاد رکھو، اور جو آخرت کی تمنا کرتا ہے وہ اس دنیا کی زیب و زینت چھوڑ دیتا ہے۔ پس جو شخص یہ سب کرتا ہے وہ واقعی اﷲ سے حیا کرتا ہے جیسا کہ اس سے حیا کرنے کا حق ہے۔‘‘ ( ترمذی)

اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ باحیا ہونے کا مطلب محض شرمیلا ہونا نہیں بل کہ ہر چیز کے بارے میں محتاط ہونا ہے۔ ایک باحیا انسان کے ذہن میں پنپتے خیالات ہوں یا پیٹ میں جاتا لقمہ، وہ اس کے حلال ہونے کے بارے میں بھی محتاط رہتا ہے۔ اس کے علاوہ ملائکہ اور لوگوں سے بھی حیا کرنا۔ لوگوں سے حیا صرف یہ نہیں کہ انسان لوگوں کے ڈر سے غلط کام نہ کرے بل کہ لوگوں سے اچھے اخلاق سے پیش آنا بھی ان سے حیا کرنا ہے۔ اس کے بعد اپنے نفس سے بھی انسان حیا کرے اور کوشش کرتا رہے کہ بری باتیں ذہن و دل میں جگہ نہ بنائیں۔ ایمان کی حفاظت کے لیے حیا کی حفاظت بہت ضروری ہے۔ اس لیے اپنے اندر اس کیفیت کو لانے کے لیے اﷲ سے دعا اور کوشش جاری رکھنی چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔