پاک امریکا تعلقات اور امیگریشن کے معاملات

ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کے خلاف اندرون امریکا مختلف شعبوں کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا ہے۔


Editorial February 04, 2017
ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کے خلاف اندرون امریکا مختلف شعبوں کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا ہے ۔ فوٹو: فائل

پاکستان میں امریکی سفارتخانے کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ فی الحال پاکستان کو سفری پابندی کا شکار ہونے والے سات مسلم ممالک میں شامل کرنے پر کوئی غور نہیں کیا جا رہا اور پاکستان کے لیے ویزا پالیسی میں بھی کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے' پاکستانیوں کو معمول کے مطابق ویزے جاری کیے' امریکی انتظامیہ نے پاکستان سے متعلق کوئی خصوصی ہدایات بھی جاری نہیں کی ہیں' پاکستان کو سفری پابندی والے ممالک میں ممکنہ شامل کیے جانے کے حوالے سے اطلاعات محض افواہیں ہیں۔

مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے اس حوالے سے اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا کی ویزا پالیسی اس کا داخلی معاملہ ہے وہ اس میں کوئی بھی تبدیلی لا سکتا ہے ہم امریکا سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں' ہر آزاد اور خود مختار ملک کو اپنی ویزا پالیسی کے حوالے سے مکمل اختیار ہے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ ہر ملک کا حق ہے کہ وہ اپنی ویزا پالیسیاں جاری کرے' پاکستان امریکا کے مختلف شعبوں میں اچھے تعلقات موجود ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے سات مسلم ممالک ایران' عراق' لیبیا' سوڈان' یمن' شام اور صومالیہ کے شہریوں کے امریکا داخلے پر پابندی کا انتظامی حکم نامہ جاری ہونے کے بعد ایسی افواہیں گردش کرنے لگیں کہ اب پاکستان کے شہریوں پر بھی سفری پابندیاں عائد کر دی جائیں گی۔ اس صورتحال میں پاکستانی شہریوں میں تشویش کی لہر کا ابھرنا قدرتی امر ہے لہذا پاکستانی حکومت پر یہ دباؤ پڑنے لگا کہ وہ اس حوالے سے اپنا موثر کردار ادا کرے تاکہ پاکستانی شہری اس قانون کی زد میں نہ آئیں۔

اب پاکستان میں امریکی سفارتخانے کے ترجمان کی اس وضاحت کہ پاکستانی شہریوں پر کوئی پابندی عائد نہیں کی جا رہی اس حوالے سے جنم لینے والی افواہیں دم توڑ گئی ہیں۔ ان افواہوں کے بعد ایسے تجزیے بھی سامنے آنے لگے کہ امریکا اور پاکستان کے تعلقات ایک بار پھر سرد مہری کا شکار ہوجائیں گے بلکہ پاکستان کی مشکلات میں اضافہ ہو جائے گا۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ ہر ملک کو اپنی سلامتی کے تحفظ اور اندرونی معاملات کو بہتر بنانے کے لیے پالیسیاں بنانے کا حق حاصل ہے' ڈونلڈ ٹرمپ بھی عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی دہشت گردی سے امریکا کو محفوظ بنانے کے لیے پالیسیاں تشکیل دے رہے ہیں۔

ترجمان دفتر خارجہ نے بھی وضاحت کر دی ہے کہ پاکستانیوں پر سفری پابندیوں کے حوالے سے کسی اندیشہ میں مبتلا ہونے کی چنداں ضرورت نہیں مختلف شعبوں میں پاک امریکا تعلقات موجود ہیں جو جاری رہیں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کا صدر بننے کے بعد جو اقدامات اٹھائے ہیں اس حوالے سے نہ صرف داخلی بلکہ عالمی سطح پر بھی تشویش پیدا ہوئی ہے۔ جہاں امریکا کے اندر بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے وہاں دیگر ممالک کے ساتھ بھی ڈونلڈ ٹرمپ کے جھگڑوں کا آغاز ہو گیا ہے۔

امریکا اور آسٹریلیا کے درمیان ایک معاہدہ موجود ہے جس کے تحت امریکا نے آسٹریلیا سے سیکڑوں مہاجرین کو اپنے ہاں قبول کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے اب ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ اس احمقانہ معاہدے پر نظرثانی کریں گے' اس حوالے سے آسٹریلوی وزیراعظم سے فون پر بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے تلخ رویہ اختیار کیا' انھوں نے میکسیکو کے ہم منصب کو بھی فون پر فوج کشی کی دھمکی دے ڈالی' ایران کے بیلسٹک میزائل تجربے پر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ایران کو نوٹس دے دیا گیا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کے خلاف اندرون امریکا مختلف شعبوں کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا ہے یہاں تک کہ نیویارک کی عدالت نے ڈونلڈ ٹرمپ کے صدارتی حکم نامے کے خلاف فیصلہ سناتے ہوئے پناہ گزینوں کو عارضی طور پر امریکا میں قیام کی اجازت دے دی تھی۔

نئی امریکی انتظامیہ نے انتہا پسندی کے خلاف امریکی پروگرام کو اسلامی انتہا پسندوں تک محدود کرنے کے لیے مشورے شروع کر دیے ہیں' انسداد انتہا پسندی (سی وی ای) پروگرام کا نام تبدیل کر کے انسداد اسلامی انتہا پسندی (سی آر آئی ای) پروگرام رکھنے پر غور کیا جا رہا ہے' اس نئے مجوزہ پروگرام کے تحت امریکا میں مسلمانوں کی کڑی نگرانی کی جائے گی' یہ پروگرام مسلمانوں تک مخصوص ہونے کے بعد امریکا میں سفید فام نسل پرست گروپوں یا دیگر شدت پسند عناصر کو کھلی چھوٹ مل جائے گی۔

پاکستان اور دیگر بہت سے مسلم ممالک کی بھرپور کوشش ہے کہ امریکا کے ساتھ تعلقات بگڑنے نہ پائیں اور نئی انتظامیہ کے ساتھ بہتر تعلقات تشکیل دیے جائیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ مستقبل میں اسلامی ممالک کے بارے میں کیا لائحہ عمل اختیار کرتے اور اس سے نمٹنے کے لیے پاکستان اور مسلم ممالک کیا حکمت عملی اپناتے ہیں۔ حالات کا تقاضا یہی ہے کہ امریکا کے ساتھ تعلقات ہر ممکن طور پر بہتر بنانے کی کوشش کی جائے۔

 

مقبول خبریں