سلطان اذلان شاہ کپ

سید عباس رضا  ہفتہ 2 فروری 2013
نئے سال میں بلند عزائم کے ساتھ پہلے امتحان سلطان اذلان شاہ ٹورنامنٹ کی تیاریاں شروع ہو چکی۔ فوٹو : فائل

نئے سال میں بلند عزائم کے ساتھ پہلے امتحان سلطان اذلان شاہ ٹورنامنٹ کی تیاریاں شروع ہو چکی۔ فوٹو : فائل

 کبھی ہاکی کے میدانوں میں پاکستان کا راج تھا، کوئی عالمی اعزاز ایسا نہ تھا جوگرین شرٹس نے قوم کی جھولی میں نہ ڈالا ہو، دور بدلا، کھیل کے قوانین ، فٹنس کا معیار بھی تبدیل ہو گیا۔

ہم لکیر کے فقیر بنے رہے اور قومی ہاکی کا زوال کی طرف سفر شروع ہوا، ایک ایک کر کے انٹرنیشنل ٹائٹل ہمارے ہاتھ سے نکل گئے، ناکامیوں کی داستان طویل ہوئی تو قومی کھیل عوامی سطح پر مقبولیت کھو بیٹھا جس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ مختلف اداروں نے اپنی ہاکی ٹیمیں ختم کر کے توجہ کرکٹ اور دیگر کھیلوں پر مرکوز کر لی۔ کلب سطح پر مقابلے کا رجحان بھی ختم ہو گیا تو مستقبل کے لیے سٹار تلاش کرنے کا عمل جمود کا شکار نظر آنے لگا، پاکستان ہاکی فیڈریشن میں کئی عہدیدار آئے اور گئے مگر باصلاحیت کھلاڑیوں کی کمی کے سبب جو خلا پیدا ہو گیا تھا اسے پر کرنے میں ناکام رہے۔

موجودہ فیڈریشن بھی تاحال بہت بڑی کامیابیاں تو حاصل نہیں کر سکی تاہم اسے ایک کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ ہاکی کا گلیمر واپس لانے کے لیے سنجیدہ کوششیں ضرور کی گئی ہیں، ریجنل اکیڈمیز کے قیام اور ملک بھر میں مختلف سطح پر جونیئر اور سینئر مقابلے تواتر کے ساتھ کروائے جانے لگے ہیں، مسلسل کاوشوں کے بعد کئی نئے باصلاحیت کھلاڑی بھی اب روشن مستقبل کے دروازے پر دستک دیتے نظر آتے ہیں، دستیاب پلیئرز میں سے سینئرز کے ساتھ جونیئرز کو بھی انٹرنیشنل مقابلوں میں شرکت کے مواقع دینے کا فائدہ بھی نظر آ رہا ہے، کبھی سوچا جاتا تھا کہ ورلڈ ریکارڈ ہولڈر پنالٹی کارنر اسپیشلسٹ سہیل عباس اور چند بڑے نام ٹیم کا حصہ نہ ہوتے تو ٹیم کی کیا پرفارمنس باقی رہ جائے گی‘ اب نئے لڑکے بھی کارکردگی دکھاتے اور جگہ بناتے نظر آ ہے ہیں۔

مجموعی پرفارمنس پر ایک نظر ڈالی جائے تو قومی ہاکی ٹیم نے ورلڈ کپ میں بارہویں اور چیمپئنز ٹرافی میں ساتویں پوزیشن کی شرمندگی کے ساتھ گزشتہ سال کا آغاز کیا تھا،ان حالات میں پی ایچ ایف نے اولمپکس کو نیا ہدف قرار دیتے ہوئے ڈچ کوچ مشل وین ڈین کو فارغ کرکے اختر رسول کو ذمہ داری سونپی۔اذلان شاہ کپ ٹورنامنٹ میں سہیل عباس کپتان تھے، گرین شرٹس کو نیوزی لینڈ، ملائشیا، ارجنٹائن، بھارت اور برطانیہ کے ہاتھوں شکستوں نے ساتویں پوزیشن پر دھکیل دیا۔ اولمپکس کے لیے بھی سہیل عباس کو ہی قیادت پر برقرار رکھا گیا، ریحان بٹ، شکیل عباس، وسیم احمد کی واپسی ہوئی، سلمان اکبر یورپ سے بلا کر بھی ٹیم میں شامل نہ کئے گئے، میگا ایونٹ کی تیاری کے لیے نیشنل ہاکی سٹیڈیم میں نیلی آسٹروٹرف بچھانے کا کام کھلاڑیوں کی روانگی تک مکمل نہ ہو سکا۔

گرین شرٹس نے پریکٹس بیرون ملک ہی کی، پاکستان سپین سے میچ برابر کھیلنے کے بعد ارجنٹائن کو 2-0 سے زیر کرنے میں کامیاب ہوا مگر برطانیہ نے 4-1 سے زیر کرکے مہم کمزور کر دی، جنوبی افریقہ کیخلاف 5-4 سے فتح کے بعد آسٹریلیا کو ہرانے کی صورت میں ہی سیمی فائنل کا راستہ بن سکتا تھا مگر 7-0 سے شکست نے امیدیں خاک میں ملا دیں، کوریا کیخلاف 3-2 سے فتح نے ساتویں پوزیشن دلائی، ناکامی پر سابق اولمپئنز نے تنقیدی توپوں کا رخ ہاکی فیڈریشن کی طرف موڑ دیا۔کچھ وقفے کے بعد سلیکشن کمیٹی ختم کرتے ہوئے ہیڈ کوچ اختر رسول، کوچ حنیف خان اور گول کیپنگ کوچ احمد عالم پر مشتمل مینجمنٹ کو ہی ٹیم منتخب کرنے کا اختیار دے دیا گیا، چیمپئنز ٹرافی کے لیے اسکواڈ سے سہیل عباس اور ریحان بٹ کو ڈراپ کرکے ریٹائرمنٹ لینے والے وسیم احمد کو واپس بلا لیا گیا، محمد عمران کپتان مقرر ہوئے۔

نیا پلان کارگر ثابت ہوا، ہالینڈ اور آسٹریلیا سے شکست ہوئی مگر جرمنی جیسی ورلڈ کلاس ٹیم کے مقابل فتح کی بدولت گرین شرٹس سیمی فائنل میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے جہاں میزبان ٹیم کی دیوار گرانا ممکن نہ ہوا، تاہم تیسری پوزیشن کے میچ میں بھارت کے خلاف کامیابی نے 8 سال بعد برانز میڈل کا حق دار بنایا، کارکردگی میں نمایاں بہتری کے آثار لیے قومی ٹیم ایشین چیمپئنز ٹرافی کے لیے دوحا روانہ ہوئی جہاں پر گروپ میچ میں بھارت کے ہاتھوں ہارنے کے بعد گرین شرٹس نے اعتماد کی بحالی کا سفر جاری رکھتے ہوئے فائنل جیت کر شکست کا بدلہ چکایا اور ٹائٹل پر قبضہ جمایا۔

اب نئے سال میں بلند عزائم کے ساتھ پہلے امتحان سلطان اذلان شاہ ٹورنامنٹ کی تیاریاں شروع ہو چکی، مارچ میں ملائیشیا کے شہر ایپوہ میں شیڈول مقابلوں کے لیے تربیتی کیمپ 10 فروری سے نیشنل سٹیڈیم لاہور میں شروع ہوگا۔ ابتدائی فہرست میں شامل 25 کھلاڑیوں میں عمران شاہ ،عمران بٹ، سید کاشف شاہ ، محمد عمران ، محمد رضوان سینئر ، محمد توثیق ، فرید احمد ، راشد محمود ، محمد وقاص ، شفقت رسول ، عبدالحسیم خان ، علی شان ، محمد عتیق ، وسیم احمد ، ایم کاشف علی ، شکیل عباسی ، محمد عرفان ، ایم سلمان حسین، عمر بھٹہ ،رضوان جونیئر ، محمد عرفان جونیئر ،محمد دلبر ، محمد خالد بھٹی ، تصور عباس اور طلعت خالد شامل ہیں،آفیشلز میں اختر رسول (منیجرو ہیڈ کوچ ) حنیف خان (کوچ )، اجمل خان لودھی،احمد خان لودھی (اسسٹنٹ کوچز )فیض الرحمان (فزیو تھراپسٹ )اور ندیم خان لودھی (ویڈیو اینالسٹ ) کی خدمات حاصل ہونگی۔ ایپوہ میں9سے17مارچ تک شیڈول ایونٹ میں میزبان ملائیشیا، پاکستان، بھارت، آسٹریلیا، دفاعی چیمپئن نیوزی لینڈ اور کوریا کی ٹیمیں شرکت کریں گی،ہر روز3 مقابلے کھیلے جائیں گے،۔

پی ایچ ایف حکام اور شائقین بہتری کی طرف گامزن قومی ہاکی ٹیم سے ایک بار پھر بڑی امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہیں،توقع کی جاسکتی ہے کہ کھلاڑی اس بار بھی قوم کو مایوس نہیں کریں گے اور عروج کی طرف سفر جاری رہے گا، مگر وقتی طور پر ملنے والی چند کامیابیوں کو ہی کافی سمجھتے ہوئے مطمئن ہوکر بیٹھ جانا وقت کے تقاضوں کے خلاف ہوگا،مستقل بنیادوں پر نئے پلیئرز کی گرومنگ کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے زیادہ سے زیادہ انٹرنیشنل میچ کھیلے جائیں تو آنے والے بڑے ایونٹس کے لیے اچھی تیاری ہو سکتی ہے، ہاکی ہمارا قومی کھیل ہے مگر سپانسرز اور اداروں کا رویہ مایوس کن رہا ہے، معاملات میں کچھ بہتری آئی ہے مگر ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے، کئی اداروں نے ہاکی ٹیمیں ختم کر کے کھلاڑیوں کو مالی مشکلات کا شکار کر دیا تھا، چند ایک کی طرف سے حوصلہ افزا اقدامات کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔

مگر نجی سیکٹر کو مزید متحرک کرنے کی ضرورت اب بھی باقی ہے، معاشی عدم تحفظ صرف ہاکی ہی نہیں ہر کھیل کا قاتل ہے، عالمی سطح پر فتوحات کے لیے قومی ترجیحات بدلنا ہوں گی، دنیا بھر میں بجٹ کا بڑا حصہ کھیلوں اور تعلیم پر خرچ کیا جاتا ہے جبکہ ہمارے ہاں کرکٹ میں تو پیسے کی ریل پیل ہے، دیگر سپورٹس سپانسرز کی زیادہ توجہ نہیں حاصل کر پاتے، وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے ہاکی کو بہتری کی جانب گامزن کرنے کے لیے اپنے خزانوں سے فنڈز مہیا کر کے اچھی روایت قائم کی مگر کھلاڑیوں کو گراس روٹ لیول پر راغب کرنے کے لیے مختلف سرکاری اور نجی اداروں کو ٹیمیں بنانے کا پابند کرنا ہوگا،کھلاڑیوں کو ملازمتیں ملیں گی تو مستقبل کے حوالے سے بے یقینی کی فضا ختم ہو گی، سینکڑوں نئے پلیئرز میسر آئیں تو چند تو ایسے ضرور ہوں گے جن کو مناسب تربیت دے کر عالمی مقابلوں کے لیے تیار کیا جا سکے، ایک مضبوط قومی اسکواڈ تشکیل دینے کے ساتھ ساتھ ہمیں کم ازکم 100 ایسے کھلاڑیوں کی کھیپ بھی درکار ہوگی جن کو گروم کر کے مستقبل کی ضرورتوں کے لیے تیار کیا جا سکے، اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں اور مختلف محکموں کو کھلاڑیوں کی نرسری کا کردار ادا کرنے کے لیے تیار کر دیا جائے تو پاکستان کے پاس باصلاحیت کھلاڑیوں کی کمی نہیں رہے گی، چین میں پرائمری اسکولوں میں تربیت حاصل کرنے والے ایتھلیٹ، جمناسٹ، ٹیبل ٹینس اور بیڈمنٹن کے کھلاڑی ہر اولمپکس میں کئی میڈلز اپنے ملک کے نام کرتے ہیں، پاکستان منظم کوششوں کے ذریعے قومی کھیل ہاکی میں کھویا ہوا مقام کیوں نہیں حاصل کر سکتا؟ حکومت کی معاونت سے مزید شہروں میں آسٹروٹرف کی تنصیب ہو جائے تو ہاکی فیڈریشن کو اہداف حاصل کرنے میں آسانی ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔