امریکا دھونس کے ذریعے گیس لائن کی مخالفت کر رہا ہے، لاریجانی

مانیٹرنگ ڈیسک  بدھ 13 فروری 2013
مسلمان موثر بلاک بنائیں تو ہمارے پاس بہترین وسائل موجودہیں،باہمی اختلافات کو ختم کرنا ہوگا،’کل تک‘میں جاویدچوہدری سے گفتگو

مسلمان موثر بلاک بنائیں تو ہمارے پاس بہترین وسائل موجودہیں،باہمی اختلافات کو ختم کرنا ہوگا،’کل تک‘میں جاویدچوہدری سے گفتگو

لاہور: ایرانی پارلیمنٹ کے اسپیکر علی لاریجانی نے کہا ہے کہ امریکا دھونس کے ذریعے پاک ایران گیس پائپ لائن کی مخالفت کررہا ہے لیکن حتمی فیصلہ پاکستان کی حکومت اور عوام کو کرنا ہے کہ وہ پاکستان کیلیے کیا چاہتے ہیں۔

اسوقت مختلف ملکوں کی ترجیحات ان کے اپنے مفادات ہیں جو ملک اپنے مفادات پر فوکس رکھتے ہیں وہ زیادہ کامیاب رہیں گے۔ ایکسپریس نیوزکے پروگرام’’کل تک‘‘ میں میزبان جاوید چوہدری سے گفتگو میںانھوں نے کہاکہ ایران ایک پرامن ایٹمی طاقت ہے جو اپنا مکمل دفاع کرسکتا ہے۔ حملہ کرنے والوں کو ایران پر حملہ بہت مہنگا پڑیگا۔ اسرائیل ایک کینسر کی طرح ہے اور اس میں اتنی عقل ضرورہے کہ وہ ایران پر حملے کی حماقت نہیں کریگا ۔ اسرائیل کئی چھوٹے گروپوں سے شکست کھا چکا ہے۔ امریکا بھی ایران پر حملے کے دردسر میں نہیں پڑیگا۔

ایران صرف ایٹمی ہتھیاروں پر انحصار نہیں کررہا۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان ایسا ملک نہیں ہے کہ وہ ایران کے خلاف اپنی سرزمین کسی کو استعمال کرنے دیگا۔ پاکستان اورایران کے دیرینہ بہترین تعلقات ہیں۔ خطے میں پرانے مسائل ہیں جو ایران اور پاکستان دونوں کو پریشان کرتے ہیں۔ بعض اوقات بلوچستان کے شرپسند عناصرہمارے لیے بھی پریشانی کا باعث بنتے ہیں۔ بھارت ایران کے ذریعے پاکستان میں بدامنی نہیں پھیلارہا اور نہ ہی ایران اپنی سرزمین سے کسی خطرے کو پاکستان کی طرف آنے دیگا۔ ایران ایک انقلابی ملک ہے اور پاکستان ہمارا برادر اسلامی ملک، پاک ایران تعلقات میں نشیب وفراز آتے رہتے ہیں، اسکی وجہ پاکستان میں تیزی سے ہونیوالی تبدیلیاں ہیں۔

7

کبھی کوئی حکومت ایران کے ساتھ تعلقات میں گرمجوشی دکھاتی ہے تو کبھی کوئی حکومت نہیں دکھاتی۔ روس کے زوال کے بعد ایک سوچ مضبوط ہوکر سامنے آئی تھی کہ طاقت کے استعمال سے حالات کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔ امریکا افغانستان میں دہشتگردی کے خاتمے کیلیے آیا تھا لیکن کوئی ایک بھی تجزیہ یا تبصرہ ایسا نہیں ہے جس میں یقین سے کہاجاسکتا ہوکہ دہشتگردی ختم ہو گئی۔ افغانستان میں جو بھی مشکلات ہوں وہ امریکیوں کی وہاں موجودگی سے زیادہ نہیں۔ امریکا کی واپسی سے علاقے میں پھر مسائل پیدا ہوں گے ۔آج کا دورمہم جوئی کا نہیں ہے، عوام مہم جوئی پسند نہیں کرتے۔

جب کسی ملک پر جارحیت کی جاتی ہے تووہاں کے عوام میں قدرتی طورپر ری ایکشن پیدا ہوتا ہے۔ لیبیا، تیونس اور مصر عوامی بیداری کا مظہر ہیں۔ خطے میں پرامن مذاکرات کیلیے ایران میزبانی کرنے کو تیار ہے۔ کوئی اور ملک بھی میزبانی کرے تو ہمیں اعتراض نہیں، جگہ کا تعین ضروری نہیں، نتائج ضروری ہیں۔ ایران، پاکستان اور افغانستان مل بیٹھیں توخطے کے بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ پاک ایران گیس منصوبہ ایک اہم منصوبہ ہے۔ ہم ترکی کو گیس دے رہے ہیں، پاکستان بھی اس منصوبے کے ذریعے اپنی مشکلات پر قابو پاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔