حادثات و سانحات تدارک کیسے ہو

حکومت معاوضے کا اعلان ، سانحہ پر اظہار غم اور تحقیقات کی روایتی یقین دہانی کر کے سب بھول جاتی ہے۔


Editorial February 23, 2015
عالمی سطح پر حادثات کی روک تھام کے لیے ہر رکن ملک کے لیے اقوام متحدہ کے روڈ سیفٹی کنونشن پر عمل کرنا ضروری ہے، فوٹو : اے ایف پی

اتوار اور پیر کی درمیانی شب کراچی سے حیدرآباد جانے والی مسافر وین کو دردناک حادثہ پیش آیا ، وہ ٹائر برسٹ ہونے کے باعث الٹ گئی اور اس میں آگ لگنے سے 10 افراد زندہ جل گئے۔ ابتدائی رپورٹ کے مطابق لاشیں ناقابل شناخت ہیں۔ حادثے کا ایک سبب یہ بتایا گیا ہے کہ وین میں ٹائروں کی رگڑ سے آگ بھڑک اٹھی ۔

اس المناک حادثہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے ارباب اختیار اور ملک گیر ٹریفک اور ٹرانسپورٹ نظام میں مضمر خرابی اور نقائص کا جائزہ لیا جائے تو روڈ سیفٹی کے قوانین اور اس کی مانیٹرنگ سمیت حادثات کے خطرات سے نمٹنے اور ہائی ویز اتھارٹیز حکام اور ٹریفک پولیس کی کارکردگی کا افسوس ناک کھوکھلا پن سامنے آجاتا ہے ، جب کہ گاڑیوں کی فٹنس ، ڈرائیونگ لائسنس کے اجرا، ٹریفک قوانین کی پابندی ، اوور ٹیکنگ اور تیز رفتاری کو کنٹرول کرنے کے سارے دعوے اس وقت نقش برآب ثابت ہوتے ہیں جب کوئی حادثہ رونما ہوجاتا ہے۔

کوئی چیک ایند بیلنس نہیں، مشاہدے میں آیا ہے کہ کوئی بھی با اثرکرمنل پاکستان آکر قانون کو قدموں تلے روند ڈالے، اپنا شناختی کارڈ ، اسلحہ لائسنس، روڈ پرمٹ، فٹنس سرٹیفکیٹ اور منشیات کا دھندا دھڑلے سے شروع کر لے ، اسے ہر آسانی میسر ہے۔ اس اعتبار سے پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جو فری فار آل ہے۔ ادھر نظر ڈالو تو موٹر وے پولیس کا اپنا کوڈ آف کنڈکٹ ہے ، وہاں شفاف محفوظ ٹریفک کی روانی ہے، کیا ایسا ملک بھر میں نہیں ہوسکتا۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ کرپشن کا جو زہر ٹریفک اور ٹرانسپورٹ کے عمومی نیٹ ورک میں پھیلا ہے ۔

اس نے تمام اداروں کو شدید متاثر کیا ہے، ایک طرف تو عالمی سطح پر حادثات کی روک تھام کے لیے ہر رکن ملک کے لیے اقوام متحدہ کے روڈ سیفٹی کنونشن پر عمل کرنا ضروری ہے ، جب کہ ملکی ماہرین کی جن رپورٹوں میں پاکستان کی شاہراہوں اور بین الصوبائی ہائی ویز کو محفوظ بنانے کے لیے تجاویز دی گئیں وہ طاق نسیاں ہوگئیں، صورتحال یہ ہے کہ جب حادثہ ہوجاتا ہے ، حکومت معاوضے کا اعلان ، سانحہ پر اظہار غم اور تحقیقات کی روایتی یقین دہانی کر کے سب بھول جاتی ہے۔ ملکی ٹریفک قوانین پر سختی سے عمل کرنا کسی کو یاد نہیں رہتا۔ ٹریفک اور ٹرانسپورٹ کا پورا نظام زمین بوس ہوگیا ہے ۔

متعلقہ ادارے بے حسی اور نا اہلی کی دھند میں چھپ گئے ہیں، حکمرانوں کو قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع اور شاہراہوں کے موت کے کنویں بننے پر کوئی ندامت اور پشیمانی نہیں، سیاسی موج مستیوں میں انھیں اندازہ نہیں کہ حادثات میں ہلاک ہونے والوں کی اکثریت اپنے خاندانوں کی کفالت کی ذمے دار ہوتی ہے ۔ گزشتہ کئی الم ناک حادثات میں مسافر بسوں کے اندر پھنس کر جل گئے اور ان کی سوختہ لاشیں بھی بڑی مشکل سے نکالی گئیں ، گجرات میں اسکول وین کا گیس سیلنڈر پھٹنے سے 9بچے جاں بحق ہوئے، اندرون سندھ کی طالبات کے کئی جنازے اٹھے، خضدار کے قریب اور کئی مقامات پر پٹرول سے لدی بسوں میں ٹکر کے باعث ہولناک آگ لگی ،کئی مسافر زندہ جل گئے۔

اسی طرح لاہور، اندرون سندھ ، کراچی، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی شاہراہوں اور مختلف شہروں میں کئی مقامات پر گاڑیوں کے الٹنے اور تصادم سے ہلاکتوں کے انبار لگے۔ اسی طرح آتش زدگی کے ناقابل بیان اور دلگداز سانحوں نے ہم وطنوں کو مغموم کر دیا، بلدیہ سانحہ ابھی تازہ ہے، مصروف مارکیٹوں کے شعلوں نے کیا قیامت نہیں ڈھائی، حادثات کا شماریاتی یا اجمالی جائزہ لیں تو صورتحال کی ابتری بیڈ گورننس پر جا کر رکتی ہے۔ ملک کے مختلف شہروں میں ہونے والے اندوہ ناک حادثات کے تدارک کی کوششیں اب تک تو غیر موثر نظر آتی ہیں۔

لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ شاہراہوں اور ملک کے مختلف شہروں،دیہی اور کوہستانی علاقوں،سیاحتی مقامات کی دشوار گزار سڑکوں ، نہروں، پلوں، فلائی اوور ، کھائیوں اور دور افتادہ مقامات پر جہاں سے بسیں ، جیپیں، بھاری گاڑیاں اور لگژری کوچز گزرتی ہیں روڈ سیفٹی کے انتظامات ، طبی امداد اور ایمبولینسوں کی دستیابی یقینی ہو، حکومت ٹریفک قوانین کی پابندی پر ہمہ وقتی چیک رکھے، گاڑیوں کی محض ڈیزائننگ یا ان کی خوبصورتی پر توجہ کے ساتھ ساتھ بسوں ، ٹرالروں ، ویگنوں ، گڈز ٹرکوں کے کریش اور ہولناک تصادم کے خطرات کو روکنے کی تدبیر کرے، حادثات میں جاں بحق ہونے والوں کو انشورنس کی سہولت ملے، زخمیوں کو اسپتالوں تک فوری رسائی کے لیے ریپڈ دستے تعینات ہوں، ملک کی تربیت یافتہ افرادی قوت کو حادثے کی صورت میں قریبی امدادی چیک پوسٹوں سے کال کرنے کا مواصلاتی نیٹ ورک آن کیا جائے۔

ٹرانسپورٹ اور ٹریفک کے انتظامی شعبے کی کالی بھیڑوں سے جان چھڑائی جائے۔ شفاف روڈ سیفٹی ایکشن پلان نافذ ہونا چاہیے جب کہ ٹریفک پولیس حادثات پر قابو پانے کے لیے روڈ سنسں کی عوامی مہم کے اجرا اور خطرناک ڈرائیونگ اور تیز رفتاری کے تدارک کے لیے اربن ٹریفک پلاننگ کے علاوہ بین الصوبائی روڈ نیٹ ورک کو محفوط سفر کے ساتھ منسلک کرے۔ ایسے سگنلز اور جدید آلات نصب ہوں جن کی مدد سے تیز رفتر گاڑیوں کو چیک کر کے ڈرائیوروں کو فوری سزا دلوائی جاسکے۔ کیا اس میں کوئی راز چھپا ہے کہ جو ڈرائیور اپنے ملک میں ٹریفک قوانین توڑتے ہیں وہ بیرون ملک جا کر قانون کی مکمل پابندی کرتے ہیں؟ آخر کیوں؟

مقبول خبریں