نظام سے پہلے خود کو بدلو

بات دراصل نظام بدلنے سے پہلے خود کو بدلنے کی ہے۔ دنیا بھر میں اچھے نظام رائج ہیں لیکن جاپان کی قوم مثالی قوم کہلاتی ہے



چند روز قبل کراچی شہر میں ایک سپر اسٹور سے والدین خریداری کر کے باہر آئے تو ان کا چھوٹا بچہ اپنے والدین سے چند قدم آگے بڑھا اور ایک مین ہول میں گرگیا، موقع پر موجود لوگوں نے فوراً ہی بچے کو نکالنے کی بھرپور کوششیں کیں مگر ناکام رہے۔

ایک ٹی وی چینل کے مطابق گھنٹوں گزرنے کے بعد بھی ریسکیو کا عملہ بھی بچے کی تلاش میں ناکام ہوگیا۔ ایک چھوٹے لڑکے نے بالآخر بچے کو تلاش کرکے نکال لیا۔ سوشل میڈیا پر اس بچے کی پذیرائی بھی ہوئی، مگر لوگوں نے شہر کے اداروں خصوصاً میئر کراچی پر خوب تنقیدکی۔ میڈیا نے بھی خوب خبر لی کہ حکومت کو شہریوں کے مسائل کی کوئی پرواہ نہیں، صوبائی حکومت بس ٹیکس اور ای چلان جیسے کاموں میں دلچسپی رکھتی ہے کہ کس طرح شہریوں سے خوب دولت حاصل کی جائے۔

ایک وڈیو بھی سوشل میڈیا پر چلی کہ چند دن پہلے ایک ڈمپر مخالف سمت سے آرہا تھا، جس نے اس مین ہول کے اوپر ٹائر گزارے جس سے ڈھکنا ٹوٹ کر مین ہول کے اندرگرگیا۔ کوئی ٹائون ناظم کو مجرم قرار دے رہا ہے کہ اس نے ڈھکنا کیوں نہیں لگایا، ٹائون والے میئر کراچی اور وزیر اعلیٰ کو ذمے دار قرار دے رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک کے بعد ایک وڈیو آرہی ہے جس میں شہری توجہ دلا رہے ہیں کہ یہاں، یہاں بھی گٹرکے ڈھکنے غائب ہیں،کسی وڈیو میں کہیں ایک اور بچہ گرگیا ہے اور اسے لوگ باہر نکال کر صاف پانی سے دھو رہے ہیں۔

اس قسم کے واقعات پہلے بھی ہوتے رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ایسے اور دیگر بہت سے مسائل سے کس طرح باہر نکلا جا سکتا ہے؟ ہم میں سے بہت سے کہتے ہیں کہ صورتحال بڑی خراب ہوگئی ہے، اب نظام فرسودہ ہوچکا ہے، اس کو بدلنا ہوگا۔ یہ بات کسی حد تک تو درست ہے مگر بات یہ ہے کہ ہماری معاشرتی صورتحال بھی انتہائی خراب ہوچکی ہے، اس لیے اب نظام کو بدلنے سے پہلے خود کو بدلنا ہوگا، ورنہ نظام کی بہتری بھی بے کار جائے گی۔ ہماری سماجی اقدار (سوشل ویلوز) جو ماضی میں انتہائی شاندار ہوا کرتی تھیں، اب دم توڑتی دکھائی دیتی ہیں جس سے معاملات اور خرابی کی طرف جا رہے ہیں۔

مثلاً مذکورہ واقعہ میں ہی دیکھ لیں کہ شہرکا ایک بڑا سپر اسٹور ہے جس کے مرکزی دروازے کے عین سامنے خطرناک بڑا مین ہول کھلا ہوا تھا، تمام خریدار یہاں موٹر سائیکلیں اورگاڑیاں کھڑی کر کے اس سپر اسٹور میں خریداری کے لیے آجا رہے تھے، اگر اسٹور کی انتظامیہ اس مین ہول کو کسی چیز سے ڈھک دیتی تو اس پرکتنا خرچہ آجاتا؟ اسی طرح اگر یہاں کے ٹائون کی انتظامیہ یہ کام کردیتی توکیا علاقہ کے لوگوں کی خدمت نہ ہوتی؟ اسی طرح اگر یہاں سے ڈمپر رونگ سائیڈ سے نہیں گزرتا ، یا کم ازکم گزرتے ہوئے احساس کر لیتا کہ وہ سڑک چھوڑ کرکنارے سے اور گٹرکے اوپر سے گزر رہا ہے جس سے لازماً گڑ ٹوٹ سکتا ہے، تو یہ سب کچھ نہ ہوتا،کسی ماں کی گود یوں نہ اجڑتی۔

دراصل ہمارے معاشرے میں اب احساس انسانیت مرتا جا رہا ہے، سب اپنی دھن میں مگن ہیں، سرکاری ادارے اپنے کام کو ’’ ملازمت‘‘ سمجھ رہے ہیں لوگوں کی ’’خدمت‘‘ سمجھ کر نہیں۔ احساس کی کمی کی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ ایک جانب حکومتی ادارے ترقیاتی کاموں کے لیے گڑھے کھود کر، سڑکیں ادھیڑکر چلے جاتے ہیں اور ملبہ ٹھکانے لگانا، تو دورکی بات، ایک سائیڈ پر بھی نہیں کرتے اور دوسری جانب لوگوں کو بھی احساس نہیں ہوتا کہ چلو حکومتی ادارے نے کام درست نہیں کیا تو ہم بھی کچھ کرلیں کہ اس سے تکلیف تو ان کو ہی ہے۔

چنانچہ شہر میں جگہ جگہ ہمیں بڑے بڑے گڑھے، مبلے کا ڈھیر وغیرہ نظرآتا ہے کہ جس پر دو، تین مزدور بھی راستہ ہموارکرنے کے لیے لگا دیے جائیں تو بمشکل چار سے پانچ ہزار روپے کا خرچہ آئے گا مگر راستہ ہموار اور صاف ستھرا ہوجائے گا، یہ کام آپس میں چندہ کر کے کرلیں تو ہر ایک کے حصے میں شاید پانچ سو روپے سے بھی کم آئیں لیکن یہ کام کرنے کو کوئی تیار نہیں۔ شہر میں بڑی بڑی دکانوں اور مارکیٹوں میں کھلے گٹر ہوں یا ٹوٹی پھوٹی سڑکیں،کھڈے اور ملبوں کے ڈھیر جابجا دکھائی دیتے ہیں لیکن جس طرح حکومت اور حکومتی اداروں کو اپنی ذمے داریوں کا احساس نہیں، اسی طرح عوام کو بھی احساس نہیں کچھ ان کی بھی اخلاقی ذمے داری بنتی ہے۔ ہم صرف یہ سوچتے ہیں کہ یہ کام حکومتی اداروں کی ذمے داری ہے، یہ سوچنا غلط نہیں، لیکن ہم یہ بھی تو جانتے ہیں کہ حکومتی اداروں کے کام میں بہت وقت لگتا ہے، لٰہذا جب تک یہ کام نہیں ہوتا، ہم تو اپنے طور پرکچھ پریشانیاں، خرابیاں کم کر لیں۔

یہ احساس ہی کی کمی ہے کہ اگرکوئی سانحہ ہوجائے تو ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ شروع کردی جاتی ہے، ہرکوئی یہ ثابت کرنے کی کوشش میں لگ جاتاہے کہ یہ میرے سرکاری اختیارات میں نہیں آتا، اس کی ذمے داری دوسرے ادارے کی ہے۔ حکومتی اداروں اور سیاسی لوگوں کے ’’ کریڈیٹ‘‘ لینے کے چکر میں بھی بہت سے کام جو وقت پر ہوسکتے ہیں، نہیں ہو پاتے، اگر لوگوں کے مسائل کا احساس ہو تو پھر ایسا نہ ہو۔

بات دراصل نظام بدلنے سے پہلے خود کو بدلنے کی ہے۔ دنیا بھر میں اچھے نظام رائج ہیں لیکن جاپان کی قوم مثالی قوم کہلاتی ہے کیونکہ وہ قوم نظام سے ہٹ کر بھی بحیثیت عوام اپنی اخلاقی ذمے داری پوری کرتی ہے۔

ہمارے ہاں بھی اچھے شہریوں کی کمی نہیں ہے، مذکورہ واقعے میں ہی دیکھ لیں کہ جیسے ہی بچہ مین ہول میں گرا، فوراً ہی لوگ مدد کو آگئے، حکومتی اداروں پہلے بچہ کو بچانے کی کوششوں میں لگ گئے اورگھنٹوں کی محنت کے بعد بچہ نہ مل سکا، تو ایک چھوٹا کم عمر لڑکا جو اس شہر میں محنت مزدوری کی غرض سے آیا ہوا تھا، وہ ماں کی پریشانی اور آنسو دیکھ کر فوراً مین ہول میں کودگیا، اس نے مسلسل کوششوں کے بعد بچے کو تلاش کیا اورکامیاب ہوا۔ یہ لڑکا جو دیکھنے میں ابھی خود بچہ لگتا ہے، انسانیت کا احساس رکھتا تھا، لٰہذا بغیر سوچے کہ یہ کام کس کی ذمے داری ہے،گٹر میں کود گیا۔ یہ ہوتا ہے احساس، یہ ہوتی ہے ایک انسان کی ذمے داری، جب کہ بہت سے تنخواہ دار، حکومتی نمایندے یہ سوچتے رہے کہ یہ ان کی ذمے داری نہیں!

 بات صرف اس طرف توجہ دینے کی ہے کہ کوئی بھی نظام اس وقت اچھا اور کامیاب ہوسکتا ہے کہ جب حکومتی ادارے ہی نہیں قوم بھی احساس ذمے داری رکھتی ہو، اگر ہم نے اپنے نظام کو اچھا اورکامیاب بنانا ہے تو پہلے ہمیں احساس ذمے داری پر توجہ دینا ہوگی۔

مقبول خبریں