اسرائیل نواز یاسر ابو شباب کی موت

یاسر ابو شباب کا نام گزشتہ برس اچانک سے میڈیا میں سامنے آیا۔مگر غزہ کے لوگ اور اسرائیلی حکام اسے بطور جرائم پیشہ پہلے سے جانتے تھے


وسعت اللہ خان December 09, 2025

کرائے کے فوجی اور اپنی دھرتی کے غدار اچھے سے جانتے ہیں کہ ہوا کا رخ پلٹتے ہی وہ کہیں کے نہیں رہتے۔پھر بھی جانے کیوں ہے کہ گزشتہ غداروں کا انجام سننے ، پڑھنے اور دیکھنے کے باوجود ہر بار نئے غدار یہی سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ ایسا نہیں ہوگا جیسا پچھلوں کے ساتھ ہوا۔

شاید آپ کو یاد ہو کہ اسرائیل نے انیس سو بیاسی میں جنوبی لبنان کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر لیا اور اس قبضے کو مسلسل رکھنے اور حزب اللہ اور پی ایل او وغیرہ سے نپٹنے کے لیے طفیلی لبنانیوں کی ایک ملیشیا میجر سعد حداد کی قیادت میں ساؤتھ لبنان آرمی کے نام سے تشکیل دی۔میجر حداد کا انیس سو چوراسی میں کینسر سے انتقال ہو گیا۔

اس کی جگہ لبنانی فوج کے ایک اور منحرف افسر انطون لحد نے لی۔ جیسے ہی سن دو ہزار میں اسرائیل کو یہ علاقہ اٹھارہ برس بعد مجبوراً خالی کرنا پڑا ، ساؤتھ لبنان ملیشیا بھی ہوا میں تحلیل ہو گئی۔اس کے سربراہ انطون نے فرانس میں پناہ لی۔دو ہزار چودہ میں ایک لبنانی عدالت نے اسے غداری کے جرم میں موت کی سزا سنائی۔اگلے برس انطون کا پیرس میں انتقال ہو گیا۔

اسرائیل ان دنوں جنوبی شام کے صوبہ السویدا میں مقامی دروز ملیشیا کے سر پر ہاتھ رکھ کے جنوبی لبنان کا وہی چالیس برس پرانا ناکام ماڈل پھر آزما رہا ہے۔ شامی دروز ملیشیا کے تین ہزار ارکان کی تنخواہیں ، کھانا پینا اور اسلحہ کی ترسیل اسرائیل کے ذمے ہے۔مقصد یہ ہے کہ دمشق میں قائم احمد الشرح کی سال بھر پرانی کمزور حکومت اسرائیلی شرائط کے آگے گھٹنے ٹیک دے اور شام ایک متحد ملک کی شکل میں اسرائیل کے لیے خطرہ نہ رہے۔

طفیلی غداروں کا یہی ماڈل غزہ میں بھی گزشتہ ڈیڑھ برس سے دوہرایا جا رہا ہے۔اس کی واضح مثال گزشتہ ہفتے غزہ کی نام نہاد پاپولر فورس کے بتیس سالہ کمانڈر یاسر ابو شباب کا قتل ہے۔یہ پاپولر فورس لگ بھگ سو تلنگوں پر مشتمل ہے اور اس کی نقل و حرکت جنوبی غزہ کے تباہ حال شہر رفاہ کے اردگرد ہے۔یاسر کو زخمی حالت میں جنوبی اسرائیل کے ایک اسپتال پہنچایا گیا اور وہیں سے اس کی موت کا اعلان ہوا۔

یاسر ابو شباب کا نام گزشتہ برس اچانک سے میڈیا میں سامنے آیا۔مگر غزہ کے لوگ اور اسرائیلی حکام اسے بطور جرائم پیشہ پہلے سے جانتے تھے۔حالانکہ اس کی اسکولی تعلیم بھی نامکمل ہے مگر امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل میں اس کے نام سے غزہ میں امن کے موضوع پر مضمون بھی شایع ہوا۔چنانچہ اس کی موت کی خبر آتے ہی کئی سوشل میڈیا صارفین نے وال اسٹریٹ جرنل کے ایک ’’ مایہ ناز ‘‘ کالمسٹ کی اچانک موت پر اخبار سے ’’ تعزیت ‘‘ بھی کی۔

یاسر ابو شباب کی بنیادی وجہ شہرت ، منشیات اور اسلحے کے اسمگلر کی تھی۔وہ دو ہزار پندرہ سے سات اکتوبر دو ہزار تئیس تک ان جرائم کی پاداش میں جیل میں تھا۔بعد ازاں جیل ہی اسرائیلی حملوں میں تباہ ہو گئی۔یاسر کے سر پے داخلی سلامتی کے اسرائیلی ادارے شن بیت نے ہاتھ رکھ دیا۔اسے پیسہ ، اسلحہ اور ٹرانسپورٹ فراہم کی گئی۔

 پہلی جنگ بندی کے دوران امدادی سامان لے کر جو بھی ٹرک غزہ میں داخل ہوئے ان میں سے نوے فیصد کو مسلح لوگوں نے لوٹ لیا۔اسرائیل نے یہ الزام لگا کے غزہ کی مکمل غذائی ناکہ بندی کر دی کہ یہ امداد حماس لوٹ رہی ہے۔مگر اقوامِ متحدہ نے اپنی رپورٹ میں واضح طور پر کہا کہ ان ٹرکوں کو لوٹنے والا یاسر ابو شباب کا گروہ ہے اور لوٹی ہوئی امداد کی بلیک مارکیٹنگ میں بھی ملوث ہے۔

یاسر کے گروہ کو یہ کام سونپا گیا کہ شمالی غزہ میں بالخصوص امداد کا ایک دانہ بھی نہ پہنچے۔یاسر کی موت کے بعد حماس سے منسلک ایک ڈجیٹل گروپ رعد نے پوسٹ لگائی ’’ ہم نے تمہیں بتایا تھا کہ اسرائیلی تمہیں نہیں بچا سکتے ‘‘۔گزشتہ جون میں اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے برملا کہا کہ ہاں ہم غزہ میں حماس مخالف گروہوں کی مدد کر رہے ہیں۔آخر اس میں برائی کیا ہے۔بلکہ اس حکمتِ عملی سے اسرائیلی فوجیوں کی جانیں خطرے میں نہیں پڑتیں۔

یاسر کا تعلق غزہ کے ترابین قبیلے سے تھا۔اس کے خاندان اور قبیلے کے عمائدین نے گزشتہ برس ہی اس کی سرگرمیوں سے لاتعلقی کا اعلان کیا اور جب اس کی موت کی خبر پہنچی تو قبیلے نے اس کا خیرمقدم کیا۔

اسرائیلیوں کو یاسر کی موت سے یوں بھی دھچکا لگا ہو گا کہ وہ نسل کشی پالیسیوں پر پردہ ڈالنے اور دربدر فلسطینیوں کو گھیر گھار اور ورغلا کر دس اکتوبر کی جنگ بندی کے بعد خوراک اور پناہ کی آس میں یاسر جیسے کرداروں کی امان میں کنسنٹریشن کیمپوں تک محدود کر سکیں۔

اس کام کے لیے انھیں ایسے ایجنٹ درکار ہیں جو مقامی ہوں اور عربی بولتے ہوں تاکہ انھیں حماس مخالف متبادل کے طور پر بطور دھول دنیا کی آنکھوں میں جھونکا جا سکے اور پھر ان کیمپوں میں جمع کیے گئے فلسطینیوں کو بتدریج غزہ کے ’’ مایوس کن حالات ’’ سے نجات کے لیے علاقہ چھوڑنے پر مجبور یا آمادہ کیا جا سکے۔اس مقصد کے لیے ابو شباب کو اسرائیلی ہینڈلرز نے سوشل میڈیا پر غزہ کے ایک سنجیدہ امن پسند ہمدرد رہنما کے طور پر ابھارنے کی بھرپور کوشش بھی کی۔

موت سے پہلے یاسر نے ایک پوسٹ میں صدر ٹرمپ کی قیادت میں ممکنہ طور پر قائم ہونے والے امن بورڈ سے مکمل تعاون کا بھی اعلان کیا۔اس کا مطلب یہ تھا کہ مستقبل کے انتظامی اور پولیس ڈھانچے میں اس کے گروپ کو بھی جگہ دی جائے۔

 امریکی اور اسرائیلی حکام خان یونس کے علاقے میں آپریٹ کرنے والی ایک اور طفیلی ملیشیا ’’ کاؤنٹر ٹیررازم اسٹرائیک فورس ‘‘ کے لیڈر حسام الاسطل سے بھی رابطے میں ہیں۔حسام نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ نئی انتظامیہ میں انھیں بھی ’’ حصہ ’’ دینے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔حسام کا گروپ اگرچہ یاسر ابو شباب کے گروپ سے چھوٹا ہے مگر اسے خان یونس کے مصیب زدگان کے لیے اسرائیلی زیرِ قبضہ علاقے میں بنائے گئے پناہ گزین کیمپ کے نظم و نسق کی زمہ داری دی گئی ہے۔

اسرائیلی ملٹری انٹیلی جینس میں مقبوضہ علاقوں کے امور کے ایک سابق انچارج مائکل ملشٹین کے بقول اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ نے پچھلی چار دہائیوں میں اسی طرح کے تجربات کی ناکامی سے بھی کچھ نہیں سیکھا۔انیس سو اسی کی دہائی میں اسرائیل نے پی ایل او کو کمزور کرنے کے لیے حماس کے لیے نرم گوشہ اختیار کیا اور اس کی سیاسی سرگرمیوں کو نظرانداز کرنے کی پالیسی اپنائی۔مگر یہ پالیسی بری طرح بیک فائر کر گئی۔

آج اسی حماس کو ختم کرنے کے لیے اسرائیل نئے گروہوں کی سرپرستی کے لیے کوشاں ہیں۔مگر غزہ کے یہ چھوٹے موٹے گروہ حماس کے برعکس کوئی نظریہ نہیں رکھتے۔ان کا ریکارڈ محض جرائم ، لوٹ مار اور اسمگلنگ سے عبارت ہے۔ لہٰذا غزہ کے سماج میں نفاق ڈالنے کا منصوبہ پرواز سے پہلے ہی ٹکڑے ٹکڑے ہو چکا ہے ۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

مقبول خبریں