اقتصادی سروے ترقی کی شرح بلند مگر اہداف نامکمل

عوام الفاظ کے گورکھ دھندوں سے زیادہ اپنی زندگی پر پڑنے والے مثبت اثرات کا تقاضا کرتے ہیں۔


Editorial April 28, 2018
عوام الفاظ کے گورکھ دھندوں سے زیادہ اپنی زندگی پر پڑنے والے مثبت اثرات کا تقاضا کرتے ہیں۔ فوٹو: فائل

KARACHI: حکومت کی جانب سے رواں مالی سال 2017-18 کا اقتصادی سروے جاری کردیا گیا ہے۔ اقتصادی سروے کے مطابق رواں مالی سال کے دوران اقتصادی ترقی کی شرح 5.79 رہی جو گزشتہ 13 سال میں بلند ترین ترقی کی شرح ہے۔ پاکستان کا اقتصادی سروے مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے پیش کیا۔

بلاشبہ اقتصادی سروے میں ترقی کی بلند شرح کو سراہا جاسکتا ہے لیکن عوام الفاظ کے گورکھ دھندوں سے زیادہ اپنی زندگی پر پڑنے والے مثبت اثرات کا تقاضا کرتے ہیں جب کہ حقیقت یہی ہے کہ ترقیاتی کاموں کی داغ بیل پڑنے کے باوجود مہنگائی کا گراف بھی بڑھا ہے جس سے عوام نالاں ہیں۔

رواں مالی سال کے دوران ملک کی زرعی ترقی 3.81، صنعتی ترقی 5.8، مہنگائی کی شرح 3.8 فیصد، لارج اسکیل مینوفیکچرنگ 6.24 فیصد اور بے روزگاری کی شرح 5.79 فیصد رہی جب کہ برآمدات 24 ارب 50 کروڑ ڈالر اور درآمدات 53 ارب 10 کروڑ ڈالر رہی۔

وفاقی وزیر منصوبہ بندی ترقی و اصلاحات احسن اقبال کا کہنا تھا کہ 5.8 فیصد گروتھ کے اعداد و شمار نہ صرف حکومت پاکستان بلکہ ورلڈ بینک اور دیگر اداروں نے بھی اسے تسلیم کیا ہے۔ حکومت نے توانائی میں سرمایہ کاری کی جس کی وجہ سے درآمدات پر دباؤ آیا، سی پیک پاکستان کے لیے گیم چینجر منصوبہ ہے، 46 ارب ڈالر میں سے 29ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہوچکی ہے جس سے گوادر پورٹ کی ڈیولپمنٹ اور ملکی شاہراہوں اور ریل کو اپ گریڈ کیا جارہا ہے۔

کراچی کے شہریوں اور اسٹیک ہولڈرز سیاسی جماعتوں کی خواہش ہے کہ کراچی سرکلر ریلوے منصوبہ کو سی پیک سے جوڑا جائے۔ دوسری جانب اس امر کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ موجودہ حکومت پانچ سال مکمل کرنے کے باوجود کئی ترقیاتی اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ قرضوں کا بوجھ بڑھنے کے علاوہ گردشی قرضہ ایک ٹریلین سے بھی تجاوز کرگیا ہے جب کہ بجلی کے ٹیرف میں گزشتہ دور حکومت کے مقابلے میں 4 روپے فی یونٹ اضافہ کیا گیا۔ ترسیلات زر میں بھی کمی واقع ہوئی۔ ترقیاتی اہداف کے مکمل حصول کے ساتھ قرضوں کے بوجھ اور مہنگائی میں کمی حکومت کے وژن میں شامل ہونی چاہیے۔

وفاقی حکومت نے آیندہ مالی سال 2018-19 کے لیے اپنا بجٹ بھی جمعہ کو پیش کردیا ہے۔ وفاقی حکومت نے آیندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ میں سگریٹ، سیمنٹ، کاسمیٹکس اور دیگر اشیا مہنگی جب کہ کتابیں، کاپیاں و اسٹیشنری کا دیگر سامان، کھاد اور پولٹری مصنوعات سستی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

عوام پرامید ہیں کہ ڈیری و لائیو اسٹاک کو ٹیکس میں چھوٹ دینے کے بعد دودھ و گوشت کی بڑھتی ہوئی قیمتیں بھی کم کی جائیں گی۔ اقتصادی رپورٹ کے مطابق سال گزشتہ پاکستان کی معیشت کو دہشت گردی کی وجہ سے 2 ارب ڈالر سے زائد نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ بلاشبہ پاکستان نے دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے موثر اقدامات کیے، آپریشن ضرب عضب، خیبر آپریشن ایک تا پانچ اور نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے نتیجے میں پاکستان گلوبل ٹیررازم انڈیکس 2017 میں پانچویں درجے پر آگیا۔

پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف سیکیورٹی اداروں اور عوام کی قربانیوں کی وجہ سے دہشت گردی کی وارداتوں اور ہلاکتوں میں مسلسل 3 سال سے کمی واقع ہورہی ہے تاہم پاکستان کو اب بھی پڑوسی ملکوں کی جانب سے ریاستی تعاون سے ہونے والی دہشت گردی کا سامنا ہے۔

افغانستان کی صورتحال بدستور خطے میں پائیدار امن اور استحکام کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ افغانستان کے لاکھوں مہاجرین کی اعانت سے پاکستان کی معیشت پر پڑنے والے اضافی بوجھ کے ساتھ داخلی سلامتی کو بھی خدشات کا سامنا ہے۔ صائب ہوگا کہ عوام دوست پالیسیاں اور اقدامات اپنائے جائیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں