انتخابی نظام؛ یہی راہ گزر یا نیا راستہ؟

سید بابر علی  اتوار 29 جولائی 2018
پاکستان کے انتخابی نظام کے تناظر میں مختلف ممالک کے رائے دہی کے نظاموں کا جائزہ

پاکستان کے انتخابی نظام کے تناظر میں مختلف ممالک کے رائے دہی کے نظاموں کا جائزہ

یوں تو 1997ء سے ہر پانچ سال بعد پاکستان کے عوام اپنے نمائندوں کا چناؤ کرکے اسمبلیوں میں بھیج رہے ہیں۔

اگرچہ 1999ء میں اسمبلیاں معطل کردی گئی تھیں اور 2002ء کے انتخابات اس وقت ہوئے جب ملک پر ایک باوردی جنرل کا راج تھا۔ تاہم ان اسمبلیوں نے اپنی آئینی مدت پوری کی تھی، لیکن 2008ء کے انتخابات کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی نے وفاق میں حکومت بنائی اور اس جمہوری دور میں اسمبلیوں نے اپنی مدت پوری کی جسے تاریخ میں جمہوریت اور پارلیمنٹ کے وقار اور استحکام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

اس کے بعد 2013ء میں عام انتخابات کروائے گئے اور اب پانچ سال مکمل ہونے کے بعد ایک مرتبہ پھر عوام اپنے نمائندوں کو منتخب کریں گے۔ پاکستان میں رائج پارلیمانی نظام حکومت کے تحت ایک فرد، ایک ووٹ کی بنیاد پر رائے شماری کی جاتی ہے۔ لیکن دنیا بھر میں دس انتخابی نظام جن میں متناسب نظام، متناسب نمائندگی، رینکڈ چوائس ووٹنگ، مکسڈ سسٹم، ارکان کا ملا جلا تناسب، مسکڈ پروپورشنل اینڈ ونر ٹیک آل، ونر ٹیک آل سسٹمز، ونر ٹیک آل (رینکڈ چوائس سسٹمز)، ونر ٹیک آل رن آف اور ونر ٹیک آل شامل ہیں۔ ان نظاموں کے تحت فاتح جماعت کو اقتدار دینے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔

پاکستان کا انتخابی نظام مکسڈ پروپورشنل اینڈ ونر ٹیک آل کی بنیاد پر قائم ہے۔ موجودہ انتخابی نظام کے متعلق بعض ماہرین کی رائے ہے کہ یہ اشرافیہ کے مفادات کو تحفظ فراہم کرتا ہے جس میں عام آدمی کو ریلیف ملنے کے امکانات نہیں ہیں۔ یہی نظام پاکستانی سیاست میں ہارس ٹریڈنگ جیسے غیرجمہوری طرزِعمل کے فروغ کا سبب بھی ہے۔ کچھ بہت سے آئینی اور سیاسی ماہرین کے نزدیک اس نظام سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے پاکستان میں ’متناسب نمائندگی‘ کا انتخابی نظام متعارف کروانا ہوگا جس میں چہرے دیکھ کر نہیں بلکہ پارٹی کے منشور، اس کی کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ ڈالے جاتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہی نظام پاکستان میں حقیقی قیادت کو آگے لانے کا ذریعہ بن سکتا ہے، کیوں کہ اس میں ہر طبقۂ فکر کے لوگوں کی نمائندگی ہوجاتی ہے، چاہے وہ اکثریت میں ہوں یا اقلیت میں۔ یہ انتخابی نظام ملک میں ایسی قیادت چننے کا مؤثر ذریعہ ہے جس میں کسی بھی فرد کا ایک بھی ووٹ ضایع نہیں ہوتا۔ متناسب نمائندگی کا نظام دنیا کی کئی بڑی جمہوریتوں میں رائج ہے۔ اس نظام کے تحت کسی جماعت کو ملنے والے ووٹوں کی تعداد کے تناسب سے اسے اسمبلی میں نشستیں ملتی ہیں۔ یہ نظام اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ سیاسی جماعتوں یا امیدواروں کو وہ مطلوبہ ووٹ حاصل ہوں ۔

جس سے ان کی عوامی حمایت اور اعتماد ظاہر ہو۔ اس انتخابی نظام کی ایک خوبی یہ ہے کہ کسی پارٹی یا امیدوار کو انتخابی نشستیں جیتنے کے لیے اوّل نمبر پر آنا ضروری نہیں ہے۔ اس طرح ملک کے ہر طبقے کی پارلیمنٹ میں نمائندگی یقینی بن جاتی ہے۔ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ پاکستان کا موجودہ انتخابی نظام وڈیروں، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی نمائندگی کرتا ہے، اور لوگ یہ بھی جانتے ہیں کہ ان کے نمائندے اسمبلیوں کے ذریعے صرف اپنے مفادات پورے کرتے ہیں، لیکن لوگوں کو یہ بھی جاننا چاہیے کہ اس کا متبادل نظام کیا ہے اور وہ اس کی خرابیوں سے کس طرح چھٹکارا پاسکتے ہیں۔

٭چین میں رائج انتخابی نظام

چین کا انتخابی نظام دیگر ممالک سے خاصا مختلف اور پیچیدہ ہے۔ چین میں انتخابات دو طرح سے ہوتے ہیں، اول بلاواسطہ اور دوسرا بالواسطہ۔ چین میں انتخابات کے لیے مراتبی نظام (ہیرارکی سسٹم) رائج ہے جس پر کمیونسٹ پارٹی کی اجارہ داری ہے جس کے تحت مقامی پیپلزکانگریسوں کا انتخاب براہ راست کیا جاتا ہے۔ یہی مقامی کانگریس بالائی درجے کی کانگریس بشمول نیشنل پیپلز کانگریس جو کہ قومی مقننہ ہے، کا بالواسطہ انتخاب عمل میں لاتی ہے۔ نیشنل پیپلزکانگریس ہی ملک کے صدر اور ریاستی کونسل کا انتخاب کرتی ہے، جب کہ گورنرز، میئرز، اضلاع، قصبوں اور دیہات کے سربراہوں کا انتخاب بالترتیب مقامی کانگریس کرتی ہیں۔

اس طرح عوامی عدالتوں کے صدور اور چیف پراسیکیوٹرز کا انتخاب بالترتیب ضلعی سطح کی کانگریس کی جانب سے کیا جاتا ہے۔ مقامی کانگریس کو صوبائی سطح اور اس سے نیچے کے سربراہوں اور ان کے نائبین کو طلب کرنے کا آئینی اختیار حاصل ہے۔ کمیونسٹ پارٹی چین میں 1949 ء سے برسراقتدار ہے، جس کی سب سے سنیئر اور فیصلہ ساز تنظیم پولٹ بیورو کی قائمہ کمیٹی ہے جس میں ہیرارکی سسٹم (مراتبی نظام) کے تحت عہدوں کی تقسیم ہوتی ہے۔ پولٹ بیورو کے ارکان کو کبھی بھی مسابقتی الیکشن کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ پولٹ بیورو تین اہم باڈیز پر بھی کنٹرول رکھتا ہے جن میں مسلح افواج کو کنٹرول کرنے والی نیشنل پیپلزکانگریس، ملٹری افیئرز کمیشن، پارلیمنٹ اور اسٹیٹ کونسل شامل ہیں۔

٭فرانس کا انتخابی نظام

فرانس میں ونر ٹیک آف آل رن آف) (Winner-take-all Runoffکا انتخابی نظام رائج ہے۔ جس میں مقننہ اور انتظامیہ کے لیے عہدے داروں کا انتخاب براہ راست یا بالواسطہ طور پر شہر یوں کی جانب سے کیا جاتا ہے یا ان کو منتخب شدہ عہدے داروں کی جانب سے نام زد کیا جاتا ہے۔ فرانس میں مختلف مسائل خاص طور پر آئین میں ترمیم کے سلسلے میں ریفرنڈم کے ذریعے عوام کی رائے بھی لی جاتی ہے۔ فرانس میں ریاست کے سربراہ اور قانون سازوں کا انتخاب قومی سطح پر کیا جاتا ہے۔ عوام کی جانب پانچ سالہ مدت کے لیے صدر کا انتخاب براہ راست کیا جاتا ہے۔

فرانسیسی پارلیمنٹ دو ایوانوں، ایوان زیریں اور ایوان بالا پر مشتمل ہے۔ ایوان زیریں کے ارکان کی تعداد 577 ہے، جنہیں عوامی ریفرنڈم کے ذریعے پانچ سالہ مدت کے لیے براہ راست منتخب کیا جاتا ہے۔ ایوان بالا کے ارکان کی تعداد 348 ہے، جن میں 328 کو ایک الیکٹورل کالج کے ذریعے چھے سال کی مدت کے لیے چنا جاتا ہے، جب کہ دیگر بیس ارکان کو دیگر مختلف اداروں بشمول بیرون ملک مقیم فرانسیسیوں کی تنظیم فرنچ اسمبلی آف فرنچ سیٹیزنز ایبراڈ کی جانب سے منتخب کیا جاتا ہے۔ فرانس میں انتخابات ہمیشہ اتوار کو ہوتے ہیں۔ انتخابی مہم الیکشن سے ایک دن پہلے یعنی جمعے کے روز ختم ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد کسی قسم کا انتخابی اشتہار اخبار یا ٹیلی ویژن پر نشر نہیں ہوسکتا۔ چھوٹے قصبوں میں پولنگ اسٹیشنز صبح آٹھ بجے سے لے کر شام چھ بجے اور شہروں میںرات آٹھ بجے تک کھلے رہتے ہیں۔

٭روس کا انتخابی نظام

روس میں باقاعدہ انتخابات کا سلسلہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد شروع ہوا تاہم یہ اب بھی دیگر ممالک سے خاصا مختلف اور پیچیدہ ہے۔ روس میں فہرستی متناسب نمائندگی (List Proportional Representation) کا نظام رائج ہے۔ اس نظام کے تحت صدر ریاست کا سربراہ اور قانون ساز بھی ہوتا ہے۔ روسی پارلیمنٹ دو ایوانوں اسٹیٹ ڈوما اور وفاقی کونسل پر مشتمل ہے۔

عوام صدر کو چھے سال کی مسلسل دو مدتوں کے لیے منتخب کر سکتے ہیں۔ 2008 ء تک یہ مدت چار سال تھی جو اب بڑھا کر چھے سال کر دی گئی ہے۔ اسٹیٹ ڈوما کے ارکان کی تعداد ساڑھے چار سو ہے جنہیں متناسب نمائندگی کی بنیاد پر پانچ سال کی مدت کے لیے منتخب کیا جاتا ہے۔ وفاقی کونسل کا انتخاب براہ راست نہیں ہوتا، بل کہ 83 وفاقی اراکین کی جانب سے ہر رکن کی جانب سے دودو ڈیلی گیٹس کو بھیجا جاتا ہے اور یوں مجموعی طور پر اس کے 166ارکان ہوتے ہیں۔

٭برطانیہ کا انتخابی نظام

برطانیہ میں ونر ٹیک آل کا انتخابی نظام رائج ہے، جس میں پارلیمانی طرزحکومت اور دوایوانی مقننہ ہے، جو کہ ایوان زیریں (ہاؤس آف کامنز) اور ایوان بالا (ہاؤس آف لارڈز) پر مشتمل ہے۔ ہاؤس آف کامنز کے لیے نمائندوں کا انتخاب عوامی ووٹوں کے ذریعے ہوتا ہے جب کہ ہاؤس آف لارڈز کے ارکان ارکان پارلیمنٹ منتخب کرتے ہیں۔ پارلیمنٹ تحلیل ہونے کے بعد ایوان زیریں کے لیے ہر پانچ سال بعد عام انتخابات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ برطانیہ  اکثریت حاصل کرنے والی جماعت ہی عموماً حکومت تشکیل دیتی ہے۔ برطانوی قانون کے تحت ہر پانچ سال بعد مئی کی پہلی جمعرات کو الیکشن کے انعقاد کا حکم ہے۔ برطانیہ میں مقررہ میعاد سے پہلے حکومت کا خاتمہ کرنے کے لیے ایوان زیریں میں سادہ اکثریت سے عدم اعتماد کی تحریک پیش کی جاتی ہے اور اگر چودہ دن تک اکثریتی پارٹی اعتماد کی تحریک نہ لاسکے تو نئی حکومت تشکیل دی جاتی ہے۔

اس طرح نئے الیکشن کے لیے خالی نشستوں سمیت دو تہائی کی اکثریت سے تحریک پیش کی جاتی ہے۔ برطانیہ کے انتخابی طریقۂ کار کے تحت ہر حلقے سے مختلف امیدواروں کے درمیان ہی سے رکن پارلیمنٹ منتخب کیے جاتے ہیں اور عوامی نمائندوں کے انتخاب کے لیے ہر برطانوی شہری کو ایک ووٹ کاسٹ کرنے کا حق حاصل ہے۔ برطانیہ میں شہریوں کو پولنگ اسٹیشنز کے علاوہ پوسٹل ووٹ کاسٹ کرنے کا بھی حق ہے، تاہم اس کے لیے اسے درخواست دینا پڑتی ہے۔ کم ازکم پندرہ سال سے بیرون ملک مقیم برطانوی شہری پوسٹل ووٹ کاسٹ کرنے کے حق دار ہوتے ہیں۔

٭بھارت میں انتخابات کیسے ہوتے ہیں؟

بھارت میں Plurality ونر ٹٰیک آؒل کا انتخابی نظام رائج ہے، جس میں اکثریت سے جیتنے والا ہی حکومت بناتا ہے۔ بھارت میں وفاقی طرزحکومت ہے جس میں وفاقی، ریاستی اور مقامی سطح پر عہدے دار منتخب ہوتے ہیں۔ قومی سطح پر حکومت کا سربراہ وزیراعظم کہلاتا ہے جسے بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں لوک سبھا (قومی اسمبلی) کی جانب سے چنا جاتا ہے۔ لوک سبھا میں کل 545 نشستیں ہیں جنمیں 543 ارکان کو عوام کی جانب سے براہ راست پانچ سال کے لیے منتخب کیا جاتا ہے، جب کہ دو ارکان کو صدر نام زد کرتا ہے جو اینگلو انڈین کمیونٹی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ حکومت بنانے کے لیے 272 نشستیں جیتنا لازمی ہے۔ ایوان بالا راجیہ سبھا (سینیٹ) کے ارکان کو ریاستی اسمبلیوں کے ارکان اور الیکٹورل کالج کی جانب سے منتخب کیا جاتا ہے۔ ووٹروں کی تعداد بہت زیادہ ہونے کے باعث انتخابات کو مختلف مراحل میں منعقد کیا جاتا ہے۔

وفاقی اور ریاستی اسمبلیوں پر مشتمل حلقہ انتخاب کی جانب سے پانچ سالہ مدت کے لیے صدر منتخب کیا جاتا ہے۔ بھارتی سینیٹ (راجیہ سبھا) کے ارکان کی تعداد 245 ہے جن میں سے 233 ارکان کو چھے سالہ مدت کے لیے ریاستی اسمبلیوں اور وفاقی علاقہ جات کے قانون سازوں کی جانب سے بالواسطہ طور پر چنا جاتا ہے۔ ان ارکان کا انتخاب ’واحد قابل تبادلہ ووٹ‘ کے ذریعے متناسب نمائندگی کی بنیاد پر ہوتا ہے، جب کہ دیگر بارہ نشستوں پر مشہور فن کاروں، اداکاروں، سائنس دانوں، قانون دانوں، کھلاڑیوں، تاجروں، صحافیوں یا ایسے افراد کو منتخب کیا جاتا ہے جنہوں نے معاشرے میں کوئی قابل قدر کام سر انجام دیا ہو۔

٭امریکا کا انتخابی نظام

امریکا کا انتخابی نظام وفاقی صدارتی طرز پر قایم ہے، امریکا کا انتخابی نظام Plurality ونر ٹٰیک آل پر مبنی ہے جس کے تحت تمام وفاقی، ریاستی اور مقامی سطح پر حکومتی عہدے دار منتخب کیے جاتے ہیں۔ قومی سطح پر ریاست کا سربراہ صدر کہلاتا ہے۔ انتخاب کا طریقۂ کار وہی ہے جیسے بھارت اور برطانیہ جیسے ملکوں میں صدور اور وزرائے اعظم کے انتخاب کے لیے اختیار کیا جاتا ہے۔ الیکٹورل کالج کے ذریعے نمائندے بالواسطہ طور پر عوام کی جانب سے منتخب ہوتے ہیں۔ عوام الیکٹورل کالج کے ارکان کو ووٹ دیتے ہیں جو آگے چل کر صدر کا انتخاب کرتے ہیں۔ انتخاب کنندگان عموماً اسی پارٹی کے صدارتی امیدوار کو ووٹ دیتے ہیں جس کو متعلقہ ریاست میں زیادہ مقبولیت حاصل ہوتی ہے۔

صدارتی انتخابات کے ابتدائی مرحلے میں ری پبلکن اور ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے اپنے اپنے صدارتی اور نائب صدارتی امیدوار کی نام زدگی ہوتی ہے۔امریکی انتخابات میں امیدواروں کی نام زدگی کا عمل یا کنونشن آئین کا پابند نہیں بلکہ اسے ریاستوں اور سیاسی جماعتوں نے خود ہی وضع کررکھا ہے۔ امریکا میں صدر اور نائب صدر کا انتخاب چار سال کے لیے ہوتا ہے۔ امریکی شہری پاپولر ووٹ کے ذریعے امریکی الیکٹورل کالج کے ارکان کا چناؤ کرتے ہیں اور پھر یہ ارکان براہ راست امریکی صدر اور نائب صدر کو چنتے ہیں۔ منتخب ہونے والا نیا امریکی صدر انتخابات کے اگلے سال بیس جنوری کو اقتدار سنبھالتا ہے۔ ہر ریاست کے الیکٹورل کالج کے انتخاب کنندگان کی ایک تعداد مختص ہوتی ہے ۔

امریکی کانگریس کے ایوان نمائندگان میں نشستوں کی کل تعداد 435اور سینٹ میں 100 ہے جب کہ واشنگٹن ڈی سی کی تین نشستیں ہیں۔ اس طرح ٹوٹل 538 سیٹیں ہیں۔ ہر انتخاب کے لیے نمائندہ اراکین کے نام سے معروف ارکان کو منتخب کیا جاتا ہے۔ یہ ارکان ملک کے رائے دہندگان کے لیے ثالث کا کردار ادا کرتے ہیں۔ کسی صدارتی امیدوار کے انتخاب کے لیے 270 نمائندہ ارکان کی واضح اکثریت حاصل کرنا ضروری ہے۔ اس سارے انتخابی عمل کی نگرانی وفاقی حکومت کی ایک ایجنسی امریکی نیشنل آرکائیوز کرتی ہے۔

ریاستیں پارلیمنٹ میں موجود ان کے اراکین کی تعداد کے مساوی نمائندہ ارکان رکھنے کا حق رکھتی ہیں۔ ہر ریاست کے ایوانِ بالا (سینیٹ) میں دو اراکین ہوتے ہیں، جب کہ ایوانِ زیریں یعنی ایوانِ نمائندگان میں اراکین کی تعداد مختلف ہوتی ہے۔ کسی مخصوص ریاست کی آبادی کے لحاظ سے پارلیمنٹ میں عوامی نمائندوں کی تعداد ہر دس برس بعد تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ انتخابات کے روز ہر ریاست میں عام رائے دہندگان اپنی پسند کے صدارتی امیدوار کے لیے ووٹ کرتے ہوئے نمائندہ ارکان کا انتخاب کرتے ہیں۔ نمائندہ ارکان پر وفاقی قانون یا آئین کی جانب سے نومبر میں کی جانے والی صدارتی امیدوار کی ووٹنگ کے نتائج کے اعتبار سے ووٹ ڈالنے کی پابندی نہیں ہوتی مگر بعض ریاستوں میں نمائندہ ارکان پر ایسا ہی کرنے کی شرط عائد ہے۔

عام طور پر نمائندہ ارکان سے اپنی پارٹی کے امیدواروں کے لیے ووٹ ڈالنے کا عہد لیا جاتا ہے۔ ملک کی بڑی اکثریت نومبر میں کی جانے والی صدارتی امیدوار کی ووٹنگ کے نتائج کا احترام بھی کرتی ہے۔ صدارتی امیدوار کی ووٹنگ کے بعد نمائندہ ارکان اپنی پسند کے صدر اور نائب صدر کو ووٹ ڈالنے کے لیے ہر ریاست میں دسمبر میں دوسرے بدھ کے بعد پڑنے والے پہلے پیر کو ملتے ہیں۔ ان نمائندہ ارکان کے ووٹوں کی گنتی جنوری میں کانگریس کے مشترکہ اجلاس میں کی جاتی ہے۔ اگر صدر یا نائب صدر کے عہدے کا کوئی بھی امیدوار 270 ووٹ حاصل نہیں کر پاتا تو ایوانِ زیریں صدر کا انتخاب کرتا ہے اور سینیٹ نائب صدر چنتی ہے۔

٭جرمنی کا انتخابی نظام

جرمنی کا نظام انتخابات ’مشترکہ ارکان کے تناسب‘ پر مبنی ہے۔ جرمنی میں وفاقی سطح پر مقننہ کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ جرمنی کے انتخابی نظام کے حوالے سے ایک فقرہ سب سے زیادہ بولا جاتا ہے کہ ’اراکین پارلیمان کو عام، آزاد، یکساں اور خفیہ طریقے سے منتخب کر لیا گیا ہے۔‘ جرمنی میں ہر بالغ فرد کو بلاتفریق دو ووٹ ڈالنے کی اجازت ہوتی ہے۔ پہلا ووٹ کسی انتخابی امیدوار کو براہ راست دیا جاتا ہے اور دوسرا ووٹ الیکشن میں حصہ لینے والی کسی بھی سیاسی جماعت کو دیا جاتا ہے۔ یہ سارا عمل خفیہ طریقے سے کیا جاتا ہے۔ جرمنی کے انتخابی نظام میں اراکین پارلیمنٹ مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ عوام کے مرضی کے نمائندے ہوتے ہیں اور فیصلہ سازی میں انہی کا کردار ہوتا ہے۔ وفاقی جرمن پارلیمان ایک ہی ایوان (بُنڈس ٹاگ) پر مشتمل ہوتی ہے جس کے اراکین کی تعدد 598 ہوتی ہے۔ ان میں سے نصف نشستیں (299) انتخابی حلقوں میں واضح برتری حاصل کرنے والوں پر مشتمل ہوتی ہیں۔

ان کا انتخاب براہ راست کیا جاتا ہے جب کہ بقیہ ارکان متناسب نمائندگی کے تحت انتخاب میں آتے ہیں۔ رائے دہندگان پہلے تو حلقہ جات کی نمائندگی کرنے والوں کو ووٹ دیتے ہیں اور دوسری مرتبہ کسی پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں۔ جرمنی میں صدر کا عہدہ نمائشی ہے جب کہ حکومت کا اصل سربراہ چانسلر کہلاتا ہے۔ انتخابات ہر چار سال بعد اتوار یا کسی عام تعطیل والے دن ہوتے ہیں۔ انتخابات کی حتمی تاریخ کا اعلان صدر کرتا ہے۔ پارلیمانی انتخابات میں ہر اہل شہری دو ووٹ دینے کا حق دار ہوتا ہے۔

وفاقی جرمن پارلیمان کی تشکیل میں اہم کردار یہ دوسرا ووٹ کرتا ہے۔ ایک سیاسی جماعت کو پینتیس فی صد ووٹ ملتے ہیں تو مستقبل کی پارلیمان میں اس کے نمائندوں کی تعداد بھی پینتیس فی صد ہی ہو گی۔ جرمن پارلیمان میں معاملہ اس وقت پیچیدہ ہو جاتا ہے، جب کسی سیاسی جماعت کے براہ راست اراکین زیادہ منتخب ہوجائیں لیکن اسے بہ حیثیت سیاسی جماعت ووٹ کم ملیں۔ اگر معاملہ ایسا ہو جائے تو اراکین پارلیمان کی تعداد میں بھی اضافہ کرنا پڑتا ہے۔ جرمن انتخابات کی ایک خصوصیت کم از کم پانچ فی صد ووٹوں کی حد بھی ہے، یعنی پارلیمان میں کم از کم پانچ فی صد ووٹ حاصل کرنے والی جماعت ہی آ سکتی ہے۔

٭ ایران کا انتخابی نظام

ایران کا نظام اپنے اندر ایک انفرادیت رکھتا ہے۔ دو مراحل پر مشتمل اس نظام میں آمریت اور جمہوریت ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ ایران کے سیاسی نظام میں ویسے تو غیرانتخابی اداروں کی اہمیت اور اثرورسوخ بہت زیادہ اور واضح ہے، ان اداروں میں رہبرِِمعظم، سپاہ پاسدارانِ انقلابِ اسلامی، مجلس خبرگانِ رہبری اور شوریٰ نگہبان شامل ہیں، لیکن اس کے ساتھ جمہوری ادارے یعنی صدر اور پارلیمان کی اہمیت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ایران کا انتخابی نظام انتہائی پیچیدہ ہے۔ انتخابی امیدواروں کی جانچ پڑتال کا کام مقامی، صوبائی اور قومی سطح پر تقسیم کیا جاتا ہے۔

امیدواروں کی اہلیت کا فیصلہ شوریٰ نگہبان ہی کرتی ہے۔ انتخابات میں کاغذاتِ نام زدگی جمع کروانے والے افراد کی فہرستیں وزاتِ داخلہ کو دی جاتی ہیں، جو خفیہ اداروں سے کلیئرنس ملنے کے بعد ان امیدواروں کی فہرستیں شوریٰ نگہبان اور مقامی ایگزیکٹیو کمیٹی کو فراہم کردیتی ہے۔ ضلع کے گورنر کی سربراہی میں قائم یہ مقامی ایگزیکٹیو کمیٹیاں امیدواروں کے کوائف پر نظرثانی کے بعد اہل اور نااہل امیدواروں کی فہرست صوبائی شوری نگہبان کی زیرنگرانی کام کرنے والے سپروائزری بورڈ کو بھیج دیتی ہیں۔

یہ بورڈ امیدواروں کی تمام معلومات اور ضروری دستاویزات کی جانچ پڑتال کرنے کے بعد حتمی فہرست شوریٰ نگہبان کو دیتا ہے۔ شوریٰ نگہبان نااہل قرار دیے جانے والے امیدواروں کی اپیلوں پر نظرثانی کرتی ہے اور اہل امیدواروں کی قابلیت کا جائزہ لے کر ایک فہرست جاری کرتی ہے، جس پر اگر کسی کو اعتراض ہو تو وہ وزارتِ داخلہ کو درخواست دیتا ہے اور شوریٰ نگہبان ان اعتراضات کا جائزہ لے کر امیدواروں کی حتمی فہرست جاری کرتی ہے۔

ہمارے لیے پارلیمانی نظام بہتر ہے، کم زوریاں دور کرنے کی ضرورت ہے: ڈاکٹر سید جعفر احمد

ماہر سیاسیات و تاریخ، سابق ڈائریکٹر پاکستان اسٹڈی سینٹر، جامعہ کراچی ڈاکٹرسیدجعفر احمد نے پاکستان کے سیاسی نظام کی خوبیوں اور خامیوں پر گفت گو کرتے ہوئے کہا: کچھ باتوں کا جاننا نہایت ضروری ہے۔ ہمارے انتخابی نظام میں موجود ایک بڑی خامی یہ ہے کہ ایک امیدوار ایک سے زیادہ حلقوں سے انتخابات لڑتا ہے۔ اس کے برعکس دنیا کے بہت ممالک میں ایک امیدوار ایک ہی نشست پر الیکشن میں حصہ لے سکتا ہے۔ بعض ممالک میں دو حلقوں سے الیکشن لڑنے کی اجازت ہے لیکن ہمارے یہاں ایک ہی امیدوار بیک وقت پانچ پانچ ، چھے چھے حلقوں سے انتخابی عمل کا حصہ بنتا ہے۔ دنیا کے بہت سے ممالک میں اگر کوئی امیدوار ایک سے زیادہ حلقوں سے لڑتا ہے تو جیتنے کے بعد وہ چھوڑے جانے والے حلقوں پر آنے والی لاگت ادا کرنے کا پابند ہوتا ہے۔ میرے خیال میں ہمیں اس پہلو پر نظرثانی کی اشد ضرورت ہے۔

ہمارے ہاں خواتین کی نشستوں کا فیصلہ سیاسی جماعت کی لیڈر شپ کی جانب سے دی گئی فہرست کی بنیاد پر کیا جاتا ہے اور یہ پارٹی قیادت پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ جس کا نام چاہے سرفہرست رکھے اور جس کا نام چاہے سب سے نیچے ڈال دے۔ اس طریقۂ کار میں پسند ناپسند اور اقربا پروری کا رجحان پیدا ہوتا ہے۔ اس کے سدباب کے لیے خواتین امیدواروں کی فہرستیں بنانے کا فیصلہ صرف جماعت کے سربراہ پر نہ چھوڑا جائے بلکہ یہ فیصلہ پارٹی کی پارلیمانی کمیٹی، سینٹرل کمیٹی کے ساتھ مشاورت کے بعد کیا جائے۔ ان سب باتوں کا براہ راست تعلق سیاسی جماعتوں کے اندرونی جمہوری نظام سے ہے لیکن سیاسی جماعتوں میں داخلی جمہوریت نہ ہونے کے برابر ہے اور عموماً پارٹی لیڈر کے فیصلے کو ہی حُرف آخر سمجھتے ہوئے اس کی دی گئی فہرست پر فیصلہ کردیا جاتا ہے۔ ایوان زیریں کے علاوہ ایوان بالا (سینیٹ) میں بھی اصلاحات کی بہت گنجائش موجود ہے۔

قومی اسمبلی کے انتخابات میں تو آزاد امیدوار کی گنجائش موجود ہوتی ہے، کیوں کہ وہ براہ راست عوام سے ووٹ لے رہا ہوتا ہے، لیکن سینیٹ کے الیکشن میں آزاد امیدواروں کے کھڑے ہونے سے بدعنوانی کا امکان پیدا ہوتا ہے، کیوں اس میں صوبائی اسمبلیاں الیکٹورل کالج کا کردار ادا کرتی ہیں۔ صوبائی اسمبلیوں کے تمام ارکان کوئی نہ کوئی سیاسی وابستگی رکھتے ہیں۔

آئین کی رُو سے قومی اور صوبائی اسمبلی میں جیت کر آنے والے آزاد امیدواروں کو انتخابات کے بعد تین دن کے اندر کسی نہ کسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنی ہوتی ہے۔ سینیٹ میں انتخابات کے موقع پر ان کے سامنے آزاد ارکان بھی ہوتے ہیں جن کی کوئی سیاسی وابستگی نہیں ہوتی اور وہ صوبائی اسمبلیوں کی پارٹی پوزیشن پر اثرانداز ہونے کی کیفیت میں آجاتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر آزاد امیدواروں کے سینیٹ انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی عاید کردی جائے تو اس سے بڑی حد تک ہارس ٹریڈنگ بھی ختم ہوگی اور جیتنے کے لیے پیسہ لگانے کی بھی حوصلہ شکنی ہوگی۔ جہاں تک مکمل جمہوریت کی بات ہے تو مکمل طور پر جمہوری نظام کوئی نہیں ہوتا، جمہوریت ایک آئیڈیل ہے ۔

جس تک پہنچنے کے لیے ایسا راستہ استوار کیا جائے جو جمہوری اقدار کے مطابق ہو۔ پاکستان کے موجودہ انتخابی نظام کو ہر الیکشن کے بعد ہونے والے تجربات کی روشنی میں بہتر سے بہتر بنایا جاسکتا ہے اور بنایا جانا چاہیے۔ ماضی میں بھی ہم نے تجربات سے کچھ باتیں سیکھیں؛ مثلاً الیکشن کمیشن کو آزاد ہونا چاہیے، اس کے اندر اعلٰی عہدوں پر تقرری کے لیے حزب اختلاف کا بھی کردار ہونا چاہیے، ہم نے یہ چیزیں عملی طور پر کیں جس سے صورت حال نسبتاً بہتر ہوئی۔ اب الیکشن کمیشن کتنا آزاد ہے، اس پر ادارے اثر انداز ہوسکتے ہیں، نہیں ہوسکتے، یہ ساری باتیں اس ماہ ہونے والے الیکشن کے بعد مزید واضح ہوں گی اور اس کے بعد بھی اصلاح کی گنجائش ہے۔

یوں سمجھ لیجیے کہ جمہوریت ایک سفر کا نام ہے جس میں بہتر سے بہتر کی طرف بڑھنے کا امکان ہوتا ہے۔ جہاں تک بات ہے مثالی جمہوریت کی تو نہ وہ امریکا، برطانیہ میں ہے اور نہ ہی اسکینڈے نیوین ممالک میں۔ وہاں بھی یہ موضوع زیربحث رہتا ہے کہ اپنے نظام کو مزید بہتر کس طرح کر سکتے ہیں۔ برطانیہ میں ’فرسٹ پاسٹ دی پوسٹ‘ نظام رائج ہے یعنی جسے زیادہ اکثریت مل گئی وہ حکومت بنانے کی پوزیشن میں آجاتا ہے، جس جماعت نے پچاس فیصد سے ایک بھی ووٹ یا سیٹ زیادہ حاصل کرلی وہ حکومت بنا رہا ہوتا ہے اور جس کی 49 فی صد سیٹیں ہیں وہ ہار جاتا ہے۔ یعنی 49 فی صد ووٹ ضایع ہوگئے۔ اس لیے وہاں پر متناسب نمائندگی پر مبنی انتخابی نظام کی وکالت کی جاتی ہے، لیکن اگر متناسب نمائندگی کے نظام کو پاکستان کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ نظام اس وقت پاکستان کے لیے موزوں نہیں ہے۔

پاکستان کی بہت سی سیاسی جماعتیں ایسی ہیں جو صرف ایک صوبے تک محدود ہیں۔ اس نظام کے تحت اگر کوئی سیاسی جماعت پانچ فی صد سے زیادہ ووٹ حاصل نہ کرسکے تو وہ انتخابی میدان سے باہر ہوجاتی ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ یہ نظام ہمارے یہاں موزوں ہے کیوں کہ یہ نظام پاکستان کی چھوٹی جماعتوں کے خلاف جائے گا، لیکن مستقبل میں اگر ہماری قومی سطح کی سیاسی جماعتیں زیادہ ہوجائیں یا پھر پورے ملک میں ہر جماعت کی ایک قابل ذکر نمائندگی ہوجائے تو پھر اس نظام کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ صدارتی نظام آنا چاہیے۔

صدارتی نظام پاکستان کے لیے بلکل موزوں نہیں ہے، کیوں کہ پاکستان میں چار صوبے ہیں، جن میں ایک صوبے کی آبادی تین صوبوں کی مشترکہ آبادی سے زیادہ ہے اور اس نظام کی وجہ سے اس بات کا امکان پیدا ہوسکتا ہے کہ صدر ہمیشہ ایک صوبے سے ہی آتا رہے۔ دوسری اہم بات کہ اس نظام میں صدر کا احتساب چار سال بعد ہی ہوسکتا ہے، اس سے پہلے نہیں، جب کہ پارلیمانی نظام کی خوبی یہ ہے کہ اس میں انتظامیہ ہر وقت مقننہ کے سامنے جواب دہ ہوتی ہے اور مقننہ جب چاہے وہ ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرسکتی ہے۔ وہ الیکشن کی طرف جانے کے بجائے حکومت کو تبدیل کرسکتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پارلیمانی نظام بہتر ہے ۔ ہمیں صرف اس نظام میں موجود کم زوریوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس نظام میں سیاسی جماعتوں کا جمہوری ہونا بہت ضروری ہے اور ان کے اندر جب تک داخلی جمہوریت نہیں ہوگی اور پارٹی لیڈر کی بالادستی رہی تو یہ نظام اپنے ثمرات نہیں دے سکے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔