- ویسٹ انڈیز ویمن ٹیم کا پاکستان کو ون ڈے سیریز میں وائٹ واش
- کراچی میں ایرانی خاتون اول کی کتاب کی رونمائی، تقریب میں آصفہ بھٹو کی بھی شرکت
- پختونخوا سے پنجاب میں داخل ہونے والے دو دہشت گرد سی ٹی ڈی سے مقابلے میں ہلاک
- پاکستان میں مذہبی سیاحت کے وسیع امکانات موجود ہیں، آصف زرداری
- دنیا کی کوئی بھی طاقت پاک ایران تاریخی تعلقات کو متاثر نہیں کرسکتی، ایرانی صدر
- خیبرپختونخوا میں بلدیاتی نمائندوں کا اختیارات نہ ملنے پراحتجاج کا اعلان
- پشین؛ سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں3 دہشت گرد ہلاک، ایک زخمی حالت میں گرفتار
- لاپتہ کرنے والوں کا تعین بہت مشکل ہے، وزیراعلیٰ بلوچستان
- سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی کو سزا سنانے والے جج کے تبادلے کی سفارش
- فافن کی ضمنی انتخابات پر رپورٹ،‘ووٹوں کی گنتی بڑی حد تک مناسب طریقہ کار پر تھی’
- بلوچستان کے علاقے نانی مندر میں نایاب فارسی تیندوا دیکھا گیا
- اسلام آباد ہائیکورٹ کا عدالتی امور میں مداخلت پر ادارہ جاتی ردعمل دینے کا فیصلہ
- عوام کو ٹیکسز دینے پڑیں گے، اب اس کے بغیر گزارہ نہیں، وفاقی وزیرخزانہ
- امریکا نے ایران کیساتھ تجارتی معاہدے کرنے والوں کو خبردار کردیا
- قومی اسمبلی میں دوران اجلاس بجلی کا بریک ڈاؤن، ایوان تاریکی میں ڈوب گیا
- سوئی سدرن کے ہزاروں ملازمین کو ریگولرائز کرنے سے متعلق درخواستیں مسترد
- بہیمانہ قتل؛ بی جے پی رہنما کے بیٹے نے والدین اور بھائی کی سپاری دی تھی
- دوست کو گاڑی سے باندھ کر گاڑی چلانے کی ویڈیو وائرل، صارفین کی تنقید
- سائنس دانوں کا پانچ کروڑ سورج سے زیادہ طاقتور دھماکوں کا مشاہدہ
- چھوٹے بچوں کے ناخن باقاعدگی سے نہ کاٹنے کے نقصانات
کھاد کی قیمتوں میں 200 سے 800 روپے تک اضافہ
اسلام آباد: عام مارکیٹ میں گزشتہ دو ماہ کے دوران کھادوں کی قیمت میں 200 روپے سے 800روپے تک اضافہ کر دیا گیا جبکہ وفاقی حکومت کی جانب سے ملک میں کھادوں کی درآمدات، برآمدات، معیار اور فروخت کرنے کیلیے مجوزہ ریگولیٹری اتھارٹی قائم نہ ہو سکی۔
ذرائع کے مطابق متعلقہ اداروں کی جانب سے چیک اینڈ بیلنس کے فقدان کے باعث عام مارکیٹ میں گزشتہ دو ماہ کے دوران کھادوں کی قیمت میں بڑا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور گزشتہ دو ماہ کے دوران کھادوں کی قیمت میں 200 روپے سے 800 روپے تک اضافہ واقع ہوا ہے۔
یوریا کی بوری جو کہ دو ماہ قبل عام مارکیٹ میں تقریبا 1400روپے میں دستیاب تھی اس کی قیمت میں دو ماہ کے اندر 200روپے تک اضافے کے ساتھ یوریا کی فی بوری قیمت 1600روپے ہو گئی ہے۔ اسی طرح ڈی اے پی کھاد کی قیمت بھی گزشتہ دو ماہ کے دوران 2700 روپے سے 3500 روپے تک پہنچ گئی ہے۔ اس طرح عام مارکیٹ میں گزشتہ دو ماہ کے دوران ڈی اے پی کھاد کی قیمت میں بھی 800 روپے تک اضافہ واقع ہوا ہے۔
کھادوں کی قیمت میں اس طرح اضافے کے باعث کاشت کاروں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے کھاد کی مد میں سبسڈی بھی دی جاتی ہے، تاہم خیبر پختونخوا کو گزشتہ سال بھی کھاد کی سبسڈی پر چند تحفظات تھے۔
ذرائع کے مطابق اس وقت بھی فرٹیلائزر کمپنیوں کے سبسڈی کی مد میں حکومت کی جانب اربوں روپے سے واجب الادا ہیں۔ دوسری جانب وفاقی حکومت کی جانب سے ملک میں کھاد کی در آمدات، برآمدات، معیار اور فروخت کو ریگولیٹ کر نے کیلیے ریگولیٹری اتھارٹی قائم کرنے کی تجویز پر کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔
حکومت کی جانب سے ملک بھر میں کھادوں کیلیے ریگولیٹری اتھارٹی قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا جس کیلیے وفاقی وزارت صنعت وپیداوار کے ماتحت ادارے نیشنل فرٹیلائزر کارپوریشن آف پاکستان نے کام شروع کیا تھا جس کا مقصد ملک میں کھاد کی فروحت برآمدات اور درآمدات کو کنٹرول کرنا ہے۔
یاد رہے کہ ملک میں کھاد کی پیداوار نجی شعبے میں آنے کے بعد سے اب تک وفاقی سطح پر کھاد کو ریگولیٹ کرنے کے لیے کوئی موثر ادارہ نہیں ہے جبکہ آئے روز ملک کے مختلف علاقوںمیں کاشت کاروں کی جانب سے کھاد زائد قیمت یا غیر معیاری ہونے کی شکایات بھی سننے میں آتی ہیں یہی وجہ ہے کہ حکومت کی جانب سے اس شعبے کو ریگولیٹ کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا تاکہ ملک میں کاشت کاروں کو کھاد کے سلسلے میں درپیش مسائل پر قابو پایا جا سکے، تاہم اس سلسلے میں تاحال کھاد کوریگولیٹ کرنے کیلیے ریگولیٹری باڈی کے قیام پر کوئی پیش ر فت سامنے نہیں آسکی ہے۔
اس سلسلے میں ایکسپریس نے سندھ کے ایک کاشت کا ر حبیب احمد سے بات کی تو انہوں نے کہاکہ عام مارکیٹ میں کھاد کی قیمت از خود بڑھائی اور کم کی جاتی ہے، اس کو ریگولیٹ کرنے کیلیے حکومت کی جانب سے کوئی موثر حکمت عملی تیار کی جانی چاہیے تاکہ کاشت کا روںکو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
پنجاب کے علاقے رحیم یار خان کے کاشتکار اشفاق احمد نے کہاکہ کھادوں کی قیمت عام مارکیٹ میں ازخود ہی طے کرلی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو کردار ادا کرتے ہوئے کسانوں کو ریلیف دینا چاہیے۔ زرعی سیکٹر ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہم نئی حکومت سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ زرعی سیکٹر کی ان پٹ کاسٹ کو کم کریں اور کھادوں کو ریگولیٹ کرنے کیلیے حکمت عملی بنائیں تاکہ کاشت کاروںکو ان مشکلات سے نکالا جا سکے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔