نواز، زرداری ملاقات؛ کیا مشترکہ جدوجہد کی راہ ہموار ہوگی؟

شہباز انور خان  بدھ 19 ستمبر 2018
سابق صدر مملکت آصف علی زرداری اور پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی جاتی عمرہ میں نوازشریف سے ملاقات کی۔ فوٹو: میڈیا سیل پی پی

سابق صدر مملکت آصف علی زرداری اور پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی جاتی عمرہ میں نوازشریف سے ملاقات کی۔ فوٹو: میڈیا سیل پی پی

لاہور: سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے تاحیات قائد میاں محمد نوازشریف کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز کی وفات کے موقع پر ملک بھر سے مسلم لیگ ن کے کارکنوں کے علاوہ ہر مکتبہ فکر کے لوگوں نے جس طرح بڑی تعداد میں نماز جنازہ میں شرکت کر کے شریف فیملی سے اظہار یکجہتی کیا اور میڈیا کی طرف سے جس وسیع پیمانے پر کوریج کی گئی اس نے مسلم لیگ ن کے قائدین کے حوصلے بڑھا دیئے ہیں۔

اگر یہ کہا جائے کہ بیگم کلثوم نواز کی’موت‘ نے مسلم لیگ ن کو’ نئی زندگی‘ عطا کردی ہے تو شاید غلط نہیں ہوگا۔ حکومت نے میاں شہباز شریف کی درخواست پر مسلم لیگ ن کے اسیر رہنماوں میاں محمد نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کو پیرول پر رہائی دی اور ہیلی کاپٹر کے ذریعے جاتی عمرہ پہنچایا تاکہ وہ نماز جنازہ میں شرکت کر سکیں۔

نماز جنازہ کا اہتمام اور انتظام جاتی عمرہ کی بجائے شریف میڈیکل سٹی کمپلیکس کے وسیع و عریض سبزہ زار میں کیا گیا تھا۔ جہاں اہم شخصیات یعنی وی آئی پیز اور عوام الناس کے لیے الگ الگ جگہ مختص کی گئی تھی۔ لیکن لوگوں کے جم غفیر نے یہ تفریق مٹا دی اور فاصلوں کی لکیر توڑ ڈالی۔ ہجوم اس قدر زیادہ تھا کہ تمام تر انتظامات کے باوجود اسے سنبھالنا مشکل ہوگیا تھا۔

نمازجنازہ میں جہاں مسلم لیگ ن کی حلیف جماعتوں جمعیت علماء اسلام (ف)، عوامی نیشنل پارٹی، مرکزی جمعیت اہل حدیث، پختون خوا ملی عوامی پارٹی اور جمعیت علماء پاکستان کے قائدین نے شرکت کی وہاں مسلم لیگ ن کی مخالف جماعتوں تحریک انصاف، مسلم لیگ ق ، ایم کیو ایم، بلوچستان نیشنل پارٹی وغیرہ کے نمائندوں سمیت ملک بھر سے مسلم لیگ ن کے کارکنوں اور عوام کی بڑی تعداد نے بھی شرکت کر کے شریف خاندان کے دکھ میں سانجھے داری کا احساس دلایا۔

اس کے علاوہ متعدد مسلمان ممالک کے سفیروں اور حکمرانوں نے بھی شریف فیملی سے اظہارتعزیت کیا۔ ان متعدد سفیروں میں سعودی سفیر بھی شامل تھے جن کے بارے میں یہ افواہ بھی گشت کرتی رہی کہ انہوںنے شریف فیملی سے اظہار ِ تعزیت کرنے کے ساتھ ساتھ ان سے کسی این آراو پر بھی بات چیت کی کہ جس کے تحت نوازشریف اینڈ کمپنی کو مبینہ طور پر بعض ضمانتوں کے ساتھ بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی جائے گی جہاں وہ سیاست سے لاتعلق رہ کر اپنی باقی ماندہ زندگی اطمینان و سکون کے ساتھ بسر کر سکیں گے۔

اس امر کی ابھی تک کسی بھی حلقے کی طرف سے تصدیق یا تردید سامنے نہیں آئی۔ البتہ ان افواہوں کو تقویت وزیراعظم عمران خان کے دورہ سعودی عرب سے مل رہی ہے جس میں وہ عمرہ کی ادائیگی کے علاوہ مبینہ طور پر سعودی حکام سے مذکورہ این آر او کے حوالے سے بات چیت کریں گے اور ضمانتیں حاصل کریں گے ۔ بہرحال ان افواہوں کی حقیقت عمران خان کے دورہ سعودی عرب سے واپسی کے بعد ہی ظاہر ہو سکے گی۔

اس تعزیتی پروگرام کے وسیلے سے ہی سابق صدر مملکت آصف علی زرداری اور پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی جاتی عمرہ میں نوازشریف سے ملاقات کی اور مرحومہ کے ایصال ِ ثواب کے لیے فا تحہ خوانی کی۔ ساتھ ساتھ ملکی سیاسی صورت حال پر بھی تبادلہ خیال کیا اور ’’ سانجھے دکھ ‘‘ پر ایک دوسرے کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا۔

اس موقع پر سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنے ایام اسیر ی کی یاد بھی تازہ کی جو میاں نوازشریف ہی کی حکومت کی طرف سے ان کے خلاف قائم کردہ مقدمات کا ’’ حاصل ‘‘ تھی۔ اپنے ایام اسیری کے دوران وہ جن حالات سے دوچار ہوئے اور جس نوع کی آزمائش اور امتحانات سے گزرے ان کی روداد بھی مزے لے لے کر سنائی اور انہیں باور کروایا کہ آپ کی اسیری اور ہماری اسیری میں بہت فرق ہے اس لیے حوصلہ رکھیں، بھلے دن بھی آئیں گے۔

دوران ملاقات ( غیر رسمی طور پر ) دونوں جماعتوں کے قائدین نے جماعتی سطح پر پیدا ہونے والے فاصلے کو کم کرنے اور مستقبل کے لیے سیاسی جدوجہد کو کسی مشترکہ پلیٹ فارم پر جاری رکھنے پر بھی اتفاق رائے کا اظہار کیا۔

نماز جنازہ میں شرکت کیلئے آنے والے جے یو آئی کے مرکزی سیکرٹری جنرل مولاناعبدالغفور حیدری نے اپنی لاہور آمد کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایم ایم اے میں شامل دیگر جماعتوں کے قائدین سے بھی ملاقاتیں کیں اور ان سے 3اکتوبر کو اسلام آباد میں ایم ایم اے کی طرف سے دینی مدارس کے تحفظ کے سلسلے میں بلائی گئی کل جماعتی کانفرنس کے حوالے سے بات چیت کی۔

مولانا عبدالغفور حیدری نے اپنے دورے کو مفید اور کارآمد بنانے کیلئے ایم ایم اے سے باہر کی جماعت اسلامی جمہوری اتحاد کے سربراہ علامہ زبیر احمد ظہیر سے بھی ان کے دفتر میں ملاقات کی اور انہیں تین اکتوبر کو ہونے والی کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی جو علامہ زبیر احمد ظہیر نے قبول کر لی ہے۔

اس موقع پر علامہ زبیر احمد ظہیر کا کہنا تھا کہ دینی مدارس کیخلاف ہونیوالی کسی بھی سازش کو برداشت نہیں کیا جائے گا، تاہم جہاں تک حکومت کی جانب سے دینی مدارس کی اصلاحات کا تعلق ہے تو ہم حکومتی مسودے کا بھی جائزہ لیں گے اور ہمیشہ کی طرح عوامی مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اصولی موقف ہی اختیار کریں گے۔

ایم ایم اے اگرچہ بظاہر قومی سیاست میں اس وقت کوئی قابل ذکر یا فعال کردار ادا رکرنے کی پوزیشن میں دکھائی نہیں دیتی لیکن دینی مدارس کے تحفظ کیلئے کانفرنس کے انعقاد کے حوالے سے اسکے قائدین نے جس’’ایکٹویٹی ‘‘ کا آغازکیا ہے وہ اسے سیاست میں ’’ اِن ‘‘ رکھنے کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے ۔

جماعت اسلامی جو اپنے کارکنوں کا لہو گرم رکھنے کے بہانے تلاشتی رہتی ہے اس نے بھی ( پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی طرح ) صوبہ پنجاب کو تنظیمی طور پر تین حصوں جنوبی پنجاب، وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب میں تقسیم کرکے شیخ عثمان فاروق کو عبوری طور پر جنوبی پنجاب کا امیر مقررکر دیا ہے جبکہ شمالی پنجاب اور وسطی پنجاب کے امراٗ کے تقرر کے سلسلے میں ان کی شوریٰ کے اجلاس آئندہ ہفتے طلب کر لیے گئے ہیں۔ تاہم نئی تقرریوں تک جماعت کی طرف سے صوبہ پنجاب (متحدہ )کے امیر بدستور میاں مقصود احمد ہی ہیں۔

جماعت کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات قیصر شریف نے بھی یہ کہہ کر موجودہ حکومت سے چھیڑ خانی کی ہے کہ ان کی جماعت نے جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنا کر وہاں کے عوام سے کیا گیا وعدہ پورا کردیا ہے اب پی ٹی آئی حکومت بھی جنوبی پنجاب کا الگ صوبہ بنانے کا وعدہ پورا کرے ۔ اب دیکھتے ہیں وہ الگ صوبہ بنانے کی سمت کب قدم اٹھاتی ہے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔