انتخابات 2018ء؛ کراچی میں کیا ہوا؟

رضوان طاہر مبین  اتوار 23 ستمبر 2018
تین عشروں بعد ’متحدہ قومی موومنٹ‘ کی ناکامی شہر کی سیاسی تاریخ کا ایک اہم موڑ ہے، وہ حقائق جنہوں نے شہرقائد کا سیاسی نقشہ بدل ڈالا۔ فوٹو: فائل

تین عشروں بعد ’متحدہ قومی موومنٹ‘ کی ناکامی شہر کی سیاسی تاریخ کا ایک اہم موڑ ہے، وہ حقائق جنہوں نے شہرقائد کا سیاسی نقشہ بدل ڈالا۔ فوٹو: فائل

2018ء کے عام انتخابات میں جہاں بہت سی نئی تاریخیں رقم ہوئیں، وہاں کراچی میں جو نتائج برآمد ہوئے، اس سے ایک نیا باب درج ہو گیا ہے، وہ یہ ہے کہ گذشتہ 30 برسوں میں پہلی بار یہاں نہ صرف متحدہ قومی موومنٹ کو شکست ہوئی، بلکہ 70 سال میں پہلی بار یہاں وفاق میں اکثریت رکھنے والی جماعت اکثریت حاصل کر سکی ہے۔

بٹوارے کے بعد یہاں بہت بڑی تعداد میں ہندوستان کے اقلیتی صوبوں سے ہجرت کرنے والے افراد آئے۔۔۔ یہ وہ لوگ تھے جو اُس وقت کی ’آل انڈیا مسلم لیگ‘ کے مطالبۂ پاکستان کے ہم نوا ہوئے، مگر ان کے صوبے اور ریاستیں اس نئی ریاست کے جغرافیے میں شامل نہ ہو سکیں۔ نیا ملک وجود میں آیا تو یہ جماعت ’پاکستان مسلم لیگ‘ ہو گئی۔۔۔ پھر بانی پاکستان چلے گئے اور لیاقت علی خان شہید کر دیے گئے۔۔۔ جس کے بعد مسلم لیگ پر دیگر شخصیات کا زور بڑھا تو یہ شہر بھی مزاج بدلنے لگا۔

1965ء کے صدارتی چناؤ میں کراچی نے آمر اول جنرل ایوب خان کے مقابلے میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو بھرپور طریقے سے سرخرو کیا، فاطمہ جناح کو آپ ’مسلم لیگی‘ کہہ لیجیے، مگر وہ قائد کی ہمشیرہ ہونے کے ساتھ دراصل ریاستی اشرافیہ سے بھی نبرد آزما تھیں، شاید کراچی نے اُن کے اِسی روپ کو پسند کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد کراچی کو حزب اختلاف کا شہر کہا جانے لگا!

دارالحکومت لے جائے جانے کے باعث کراچی ویسے ہی بے چین تھا کہ 1965ء میں گوہر ایوب کی قیادت میں جشن فتح کے جلوس کے خونیں تصادم نے پہلی بار یہاں لسانی صف بندی کرادی! 1970ء میں ملک کے پہلے عام انتخابات ہوئے تو اس شہر میں قومی اسمبلی کی کُل سات نشستوں میں سے تین جماعت اسلامی، دو جمعیت علمائے پاکستان اور دو پیپلز پارٹی کے حصے میں آئیں۔ 1972ء میں سندھ میں لسانی بل کی منظوری کے باعث شہر میں دوسری لسانی ضرب لگی۔

صرف سات برس میں دوسری بار اس شہر میں زبان کی بنیاد پر ایک گہرا احساس پیدا ہوا۔ یہ مرحلہ 1965ء سے کہیں زیادہ گمبھیر ہوا۔۔۔ یہ مسئلہ حل تو ہو گیا، مگر اپنے گہرے اثرات چھوڑ گیا۔ 1977ء کے بدنصیب چناؤ میں ذوالفقار بھٹو کے مقابل ’نو جماعتوں‘ نے اتحاد بنایا تو پی پی حکومت نے اپنے تئیں اس کا توڑ کرنے کے واسطے پہلی بار کراچی میں چُن کر مہاجر دانش وَروں کو میدان میں اتارا، مگر پیپلزپارٹی کے امیدوار کے طور پر جمیل الدین عالی، حکیم محمد سعید، لیاقت علی خان کے بیٹے اشرف علی خان و دیگر کو زبردست شکست کا سامنا کرنا پڑا، جب کہ ’نو ستاروں‘ کے تمام امیدوار فتح یاب ہوئے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان میں شیر باز مزاری اور اصغر خان جیسے غیر مہاجر بھی تھے، جو اپنے آبائی حلقوں سے نہ جیت سکے، مگر کراچی سے منتخب ہوئے۔

تاریخی طور پر مسلسل محرومیوں اور نا انصافیوں نے اس شہر میں ایک ردعمل جنم دیا، جس میں بدقسمتی سے تشدد نے بہت تیزی سے جگہ بنائی۔ تشدد کا عنصر ایم کیو ایم کے قیام سے پہلے ظاہر ہونا شروع ہو چکا تھا، اس کی شدت کا اندازہ کرنے کے لیے یہ مثال کافی ہے کہ 1977ء میں نو ستاروں کی تحریک کے دوران لالوکھیت میں مخالفین نے پیپلز پارٹی کے امیدوار کا کیمپ نذر آتش کر دیا اور وہ انتخابی مہم ہی نہ چلا سکے۔ یہ امیدوار کوئی اور نہیں لیاقت علی خان کے بیٹے اشرف لیاقت تھے! اُس وقت ایم کیو ایم کی طلبہ تنظیم کا بھی وجود نہ تھا، جب مشتعل ہجوم نے انسانیت سوز طریقے سے پی پی کے کارکنان کی جان لی۔۔۔ پھر ستاروں میں روشنی نہ رہی اور جنرل ضیا الحق کی فوجی آمریت نازل ہوگئی!

اس دوران 1984ء میں ’مہاجر قومی موومنٹ‘ کا ظہور ہوا، جس نے 1985ء کے غیرجماعتی انتخابات میں کچھ امیدواروں کی حمایت کی، پھر جب میئر کراچی عبدالستار افغانی نے وہیکل ٹیکس صوبائی حکومت کے تصرف میں لینے پر احتجاج کیا تو انہیں ہٹا دیا گیا، 1987ء میں نئے بلدیاتی انتخابات ہوئے، جن میں تین سال قبل قائم ہونے والی ایم کیو ایم نے زبردست کام یابی حاصل کی، ڈاکٹر فاروق ستار بلامقابلہ میئر کراچی منتخب ہوگئے۔ اس کے بعد 1988ء اور 1990ء کے انتخابات میں میدان انہی کے نام رہا۔ پھر 1992ء میں فوجی آپریشن کے دوران ایم کیو ایم سے منحرف دھڑے نے خود کو ’ایم کیوایم حقیقی‘ قرار دیا، کہ اب وہ دراصل مہاجر حقوق کے عَلم بردار ہیں، تو ’ایم کیوایم‘ نہ صرف نعرۂ مہاجر سے دست بردار ہوئی، بلکہ اُن کا یہ بنیادی نعرہ ’بغاوت‘ بن گیا! اس کے باوجود ایم کیو ایم کی کام یابی پر فرق نہ پڑا، حتیٰ کہ ان کے ٹکٹ پر بہت سے سندھی امیدوار اپنے مقابل مہاجر امیدواروں کو ہرا کر اسمبلیوں میں پہنچتے رہے۔

پھر عموماً انتخابات میں نشیب وفراز کے باوجود ’ایم کیو ایم‘ ہی اکثریت حاصل کرتی رہی، مجموعی طور پر جماعت اسلامی اس کی ہمیشہ سخت حریف ثابت ہوئی۔۔۔ اور اکثر دوسرے نمبر پر آتی رہی۔ بے شمار مواقع پر شدید ترین کشیدگی بھی ہوئی، کئی جانیں بھی تلف ہوئیں! مگر 1993ء میں ایم کیو ایم کے انتخابی بائیکاٹ کے باوجود جماعت اسلامی کو صرف ایک نشست ملی، 2001ء میں جنرل پرویزمشرف کے پہلے بلدیاتی انتخابات میں ایم کیو ایم نے پھر بائیکاٹ کیا تو جماعت اسلامی نے بہ آسانی اکثریت حاصل کی اور نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ ناظم شہر بنے، جب کہ 2005ء کے بلدیاتی چناؤ میں ایم کیو ایم نے حصہ لیا اور کام یابی حاصل کی۔ اس دوران 2002ء کے عام انتخابات میں جماعت اسلامی نے ’متحدہ مجلس عمل‘ کے اتحاد سے متحدہ قومی موومنٹ کو پانچ نشستوں پر شکست دی، جب کہ پہلی بار حقیقی (مہاجر قومی موومنٹ) نے بھی قومی اسمبلی کی ایک نشست حاصل کی، جب کہ پیپلزپارٹی کے حصے میں دو نشستیں آئیں، یوں کراچی کی 20 نشستوں میں سے 12 ایم کیو ایم کو ملیں، جب کہ دیگر پانچ حلقوں میں اسے ایم ایم اے سے صرف 700 سے سات ہزار ووٹوں سے شکست ہوئی۔

اس کے بعد2008ء کے انتخابات میں جماعت اسلامی، تحریک انصاف وغیرہ نے بائیکاٹ کیا تو ایم کیو ایم دوبارہ بھاری اکثریت حاصل کر گئی، اس دوران کراچی ایک بار پھر بے امنی کی شدید ترین لپیٹ میں آیا، نعمت اللہ کے بعد مصطفیٰ کمال نے کراچی کی ترقی کی رفتار میں رخنہ نہ پڑنے دیا تھا، جس سے ایم کیو ایم کا تاثر کراچی سے باہر بھی بہتر ہونے لگا تھا، مگر زرداری حکومت میں رہ کر عضو معطل بنے رہنے اور دیگر کچھ واقعات سے صورت حال بدلتی چلی گئی۔ ایم کیو ایم کے ارکان کی جانب سے زمینوں پر قبضے (چائنا کٹنگ) اور بدعنوانی کی داستانیں سامنے آنے لگیں۔۔۔

اس دوران عمران خان کی مقبولیت بڑھی تو بے چین کراچی نے اُسے کافی امید افزا نظروں سے دیکھا، نتیجہ یہ نکلا کہ 2013ء کے انتخابات میں خاطر خواہ مہم چلائے بغیر تحریک انصاف کے غیرمعروف امیدوار اس شہر کے ساڑھے آٹھ لاکھ ووٹ لے اُڑے۔ عارف علوی کی ایک نشست بھی مل گئی، مجموعی طور پر تو کراچی میں ایم کیو ایم جیتی، اور حسب روایت ایم کیو ایم پر دھاندلی کے الزامات بھی لگے، لیکن اس انتخاب میں تحریک انصاف کو بے حد مثبت پیغام دیا، لیکن اس کے فوری بعد عدم توجہی کے بعد ان حلقوں میں واضح طور پر مایوسی دیکھی گئی۔ اسکے بعد پہلے ضمنی انتخاب میں دھاندلی روکنے کے لیے فوج بلوائی گئی، لیکن تحریک انصاف خود کو منوانے میں کام یاب نہ ہو سکی۔

25 جولائی 2018ء کے عام انتخابات ایک ایسا موقع تھے، جس میں بہ یک وقت بہت سی جماعتوں کو نشستیں ملنے کا امکان ظاہر کیا جا رہا تھا۔ اس بات سے شاید ایم کیو ایم بھی متفق تھی، کہ بوجوہ اس مرتبہ وہ پہلے جتنی نشستیں حاصل نہیں کرپائے گی، دیگر زورآزماؤں میں متحدہ مجلس عمل، پیپلز پارٹی، مصطفیٰ کمال کی ’پاک سرزمین پارٹی‘ اور تحریک لبیک کے لیے خاصے امکانات موجود تھے، ’مہاجر قومی موومنٹ‘ اور نواز لیگ کی نمائندگی بھی خارج ازامکان نہ تھی، یہ توقع بھی ظاہر کی جا رہی تھی کہ قومی اسمبلی کی 21 نشستیں شاید تین جگہ برابر بٹ جائیں، یا یہ تقسیم سات، پانچ، چار، تین اور دو کے حساب سے ہو، لیکن اس چناؤ میں کراچی کی 21 میں سے 14 نشستیں تحریک انصاف کے نام ہوگئیں۔

جب کہ چار نشستیں متحدہ قومی موومنٹ، جب کہ تین نشستیں پیپلزپارٹی کے حصے میں آئیں۔ یہ کراچی کی انتخابی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ اکثریت حاصل کرنے والی جماعت شہر قائد میں بھی سب سے بڑی جماعت ہے۔ پیپلزپارٹی نے چار مرتبہ وفاقی حکومت بنائی، لیکن اُسے کراچی کی اکثریت نہ ملی، مسلم لیگ (ن) تین مرتبہ حاکم ہوئی، دو مرتبہ دو تہائی اکثریت بھی ملی ، مگر کراچی کے انتخابی نتائج کو نہ چھیڑ سکی۔ یہی حال ایک مرتبہ حکومت بنانے والی مسلم لیگ (ق) کا رہا، لیکن 2018ء کے چناؤ کے بعد یہ روایت بدل گئی ہے۔ اب تحریک انصاف کی وفاقی حکومت ہے اور وہ کراچی میں 14 نشستوں کے ساتھ سب سے بڑی جماعت ہے!

٭ یہ11 برس کا قصہ ہے ۔۔۔!

شہر کے موجودہ سیاسی تغیرات کو بغور دیکھیں تو اس کے تانے بانے 12 مئی 2007ء سے جا ملتے ہیں، جب معزول چیف جسٹس افتخار چوہدری کی کراچی آمد پر سیاسی جماعتوں کے درمیان خونی تصادم ہوا اور چند برسوں میں خود کو ’مہاجر‘ سیاست سے ’متحدہ‘ سیاست کی طرف لانے والی ایم کیو ایم بری طرح لڑکھڑا کر رہ گئی۔۔۔ اس کے بعد کراچی میں لسانی تقسیم پھر سے گہری ہونے لگی، ورنہ اہل کراچی کے لیے ’پشتون مہاجر تصادم‘ ایک ڈراؤنے ماضی کے طور پر ہی رہ گیا تھا۔۔۔ مجموعی امن بھی آج سے بہتر تھا، دہشت گردی کے کچھ واقعات ضرور ہوئے اور وقتاً فوقتاً کراچی آپریشن میں حصہ لینے والے پولیس افسران بھی قتل کیے جاتے رہے۔ لیکن اس کے بعد پھر اس لسانیت کی آنچ سے لاشے بھی گرنے لگے، 2008ء کے بعد 2009ء میں یہ باقاعدہ فساد کا رنگ اختیار کر گیا اور 2012ء تک یہ شہر دوبارہ برسوں پرانی نفرتوں میں جکڑا گیا۔۔۔

2013ء کے چناؤ سے قبل شہر کی سب سے بڑی جماعت ’متحدہ قومی موومنٹ‘ دہشت گردی کے خطرات کے باعث انتخابی مہم نہ چلا سکی، ناقدین نے اِسے عدم مقبولیت کے سبب ایم کیو ایم کا ڈھونگ کہا۔ متحدہ، پیپلزپارٹی اور اے این پی نے مشترکہ پریس کانفرنس میں طالبان کی جانب سے دھمکیوں کا اظہار کیا، جو انتخابی مہم چلانے میں رکاوٹ ہے۔

اس سے قبل دسمبر 2012ء میں عمران خان نے مزار قائد پر ایک بہت بڑا جلسہ کیا۔۔۔ جسے ابتداً متحدہ سے خاموش مفاہمت کا نتیجہ قرار دیا گیا، مگر 2013ء میں تحریک انصاف شہر کی دوسری بڑی جماعت بن کر ابھری۔ اس چناؤ میں اس وقت کے امیر جماعت اسلامی منور حسن نے پولنگ کے کچھ گھنٹوں بعد کراچی وحیدرآباد میں بائیکاٹ کا اعلان کر دیا تھا۔

٭الطاف حسین کے بیانات پر پابندی لگی

کراچی کی تاریخ میں 11 مارچ 2015ء اہم موڑ ہے، جب متحدہ کے مرکز ’نائن زیرو‘ پر چھاپا پڑا، اس سے قبل ان کے یونٹ اور سیکٹر آفس پر چھاپے اور کارکنان کی گرفتاریاں جاری تھیں، لیکن یہ واقعہ ان کے لیے ایک بہت بڑے دھچکے کا باعث بنا، لیکن اسی حلقے (اس وقت کے 246) میں 23 اپریل 2015ء کو ضمنی انتخاب ہوا، جس میں متحدہ نے 70 ہزار ووٹوں سے واضح سبقت حاصل کی۔ اس دوران چھاپے، گرفتاریوں اور کارکنان کی ہلاکتوں پر الطاف حسین کے ریاستی اداروں کے خلاف سخت بیانات کا سلسلہ زور پکڑ گیا، نتیجتاً 31 اگست 2015ء کو ذرایع اِبلاغ میں ان کے بیانات شایع یا نشر کرنے حتیٰ کہ ان کی تصویر اور نام تک لینے کے خلاف منادی ہوگئی۔ ملکی تاریخ میں کسی سیاسی قائد پر اعلانیہ ایسی پابندی کبھی نہیں لگی۔ پھر جہاں یہ تصور تھا کہ ’بھائی‘ کی تقریر نہ دکھائی تو کراچی میں چینل نہیں چل سکے گا، وہاں یہ ہوا کہ اگر بھائی چلے تو پھر چینل نہ چلے گا۔ تاہم ایم کیو ایم کے جلسوں سے الطاف حسین کی تقاریر جاری رہیں۔

٭مصطفیٰ کمال نے نقب لگانے کی کوشش کی

ان واقعات کے دوران دسمبر 2015ء میں بلدیاتی چناؤ ہوا اور جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے اتحاد کے باوجود میدان ایم کیو ایم کے نام رہا، چند ماہ بعد مارچ 2016ء میں مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی اچانک کراچی پہنچے اور ایک کے بعد ایک متحدہ کے کئی راہ نما اپنے ساتھ ملائے اور ایک نئی جماعت ’پاک سرزمین پارٹی‘ (پی ایس پی) کا ڈول ڈالا۔ ابتداً ’پی ایس پی‘ جانے والے ارکان اسمبلی مستعفی ہوئے تو ان حلقوں کے ضمنی انتخاب میں متحدہ پھر فتح یاب ہوئی۔ مصطفیٰ کمال اس کا موازنہ عام انتخابات کے ووٹوں سے کرکے اس کا سہرا اپنی ’تحریک‘ کے سر باندھ کر کہتے کہ دیکھو ہماری وجہ سے عام انتخابات میں لیے گئے ووٹوں سے کتنے کم ووٹ ہوگئے۔ ان کی جماعت کوئی ضمنی انتخاب بھی نہ لڑی، حالاں کہ متحدہ کے رکن قومی اسمبلی علی رضا عابدی انہیں اپنی نشست پر مقابلے کا چیلینج بھی دیتے رہے۔

ایم کیو ایم اس بیچ اپنے کارکنان کے لاپتا اور قتل ہونے کا الزام بعض اداروں پر لگاتی رہی اور 12 ستمبر 2015ء کو اپنے تین کارکنوں کی ہلاکت پر یوم سوگ اور کاروبار بند رکھنے کی کال دی، تو اسے ریاست کی جانب سے بھرپور طریقے سے ناکام بنایا گیا۔۔۔ کسی نے پھبتی کسی کہ وہ دکانیں بھی کھلوا دی گئیں، جو برسوں سے بند پڑی تھیں! اس سے قبل 12 دسمبر 2014ء کو تحریک انصاف کی ہڑتال پر شہر بھر میں چوراہوں پر دھرنے دے کر آمدورفت مفلوج کردی اور ان راستے بند کرنے والوں کی کوئی مزاحمت نہ کی گئی۔

٭پھر 22 اگست 2016ء آگئی۔۔۔

کہاں متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی آئے دن چیخ پکار کرتی تھی کہ فلاں بیان یا فلاں واقعہ اُن کے ہاں ’مائنس ون‘ کی سازش ہے، ہم یہ کسی قیمت پر نہیں ہونے دیں گے اور کہاں انہوں نے یہ سب کچھ خود کیا۔ ہوا یوں کہ ایم کیو ایم کے مظاہروں اور احتجاج کے دوران 22 اگست 2016ء کو ایم کیو ایم کی بھوک ہڑتال میں الطاف حسین نے ریاست مخالف نعرے لگا دیے اور اس کے بعد مشتعل ہجوم کی جانب سے ایک نجی چینل میں توڑ پھوڑ ہوئی، جس کے بعد مزید سخت کارروائی شروع ہوئی، ’نائن زیرو‘ سیل ہوگیا، مرکزی راہ نما گرفتار ہوئے یا روپوش۔۔۔

اگلے روز ڈاکٹر فاروق ستار اور دیگر ارکان نے رہائی کے بعد ایک ہوٹل میں ملاقاتیں کیں اور پھر اپنے ’قائد تحریک‘ سے لاتعلقی کا اعلان کردیا اور کہا کہ ہم ریاست کے خلاف کسی بات کے ساتھ کھڑے نہیں ہو سکتے، اس کے بعد کراچی میں ایم کیو ایم کے سیکڑوں دفاتر غیرقانونی قرار دے کر مسمار کردیے گئے۔۔۔ کچھ دن بعد لندن سے نئی ’رابطہ کمیٹی‘ کا اعلان ہوا۔ جس میں ڈاکٹر حسن ظفر عارف، مومن خان مومن، ساتھی اسحق، امجد اللہ کے علاوہ سابق رکن قومی اسمبلی کنور خالد یونس شامل تھے، بعد میں انہیں گرفتار کرلیا گیا۔ رہائی کے بعد حسن ظفر عارف کے سوا سب غیرفعال ہوگئے اور 14 جنوری 2018ء کی صبح وہ پراسرار طور پر ابراہیم حیدری کے علاقے میں اپنی گاڑی کی پچھلی نشست پر مردہ پائے گئے، جس کے بعد الطاف حسین سے وابستہ کوئی شخص منظرعام پر نہیں رہا۔

کراچی کے چھے ضلعوں کی انتخابی نشستیں

کراچی کے چھے اضلاع میں ووٹروں کی تعداد اور قومی اسمبلی کی نشستوں کا بٹوارا کچھ اس طرح کیا گیا ہے:

٭سب سے بڑے ضلع وسطی میں رائے دہندگان کی کُل تعداد 18 لاکھ 60 ہزار 137ہے، مگر قومی اسمبلی کے صرف چار حلقے ہیں۔

٭ضلعی غربی میں 16 لاکھ 60ہزار 57 ووٹر درج ہیں، مگر قومی اسمبلی کے سب سے زیادہ پانچ حلقے بنائے گئے۔

٭ضلع شرقی میں ووٹروں کی تعداد 14 لاکھ 36 ہزار 109 ہیں، اور قومی اسمبلی کی چار حلقے ہیں، یعنی ووٹر ضلع وسطی سے تین لاکھ کم، مگر قومی اسمبلی کی نشستیں ضلع وسطی کے مساوی!

٭ضلع کورنگی میں کُل3 1 لاکھ 18 ہزار 705 رائے دہندگان کی نمائندگی کے لیے قومی اسمبلی کے تین حلقے بنائے گئے۔

٭ضلع جنوبی 10 لاکھ 80 ہزار 652 رائے دہندگان کا حامل ہے، مگر یہاں صرف دو حلقے تشکیل دیے گئے، جب کہ تقریباً ساڑھے تین لاکھ کم ووٹروں والے ضلع ملیر میں تین حلقے بنائے گئے۔

٭کراچی کے سب سے چھوٹے ضلعے ملیر میں 7 لاکھ 51 ہزار 526 پر قومی اسمبلی کے تین حلقے بنا دیے گئے، اس ضلع کی آبادی ضلع کورنگی سے تقریباً ساڑھے پانچ لاکھ کم ہے، مگر اس کے باوجود اس کی نشستیں بھی کورنگی کے برابر یعنی تین بنائی گئیں۔

 ’’بائیکاٹ‘‘ سے ’’بائیکاٹ‘‘ تک!

1993ء کے بعد 2018ء میں الطاف حسین نے دوبارہ انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ ان 25 برسوں میں پُلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ چکا تھا، اس بار ایم کیو ایم نے اُن کے بغیر اس چناؤ میں حصہ لیا۔ اس لیے یہ تو یقینی تھا کہ اِس بائیکاٹ کا اثر اُس جیسا تو کسی صورت نہیں ہوگا، لیکن اعدادوشمار کی نظر سے دیکھیں تو 2013ء میں کراچی میں حق رائے دہی کا تناسب 55 فی صد تھا، جو 2018ء میں 40 فی صد رہا اور اس کا عام مشاہدہ بھی کیا گیا، اب اس کا سبب الطاف حسین کی اپیل کہیں یا ووٹر کی مایوسی۔ تاہم ناقدین اس کمی کا سبب جعلی ٹھپوں میں رکاوٹ بھی قرار دیتے ہیں۔

دونوں بائیکاٹ دیکھیے تو کراچی میں ایم کیو ایم کے امیدواروں نے 1990ء میں 50 ہزار سے ڈیڑھ لاکھ تک ووٹ لیے، 1993ء میں انہوں نے قومی اسمبلی کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تو کراچی کی 13 نشستوں میں سے چھے، چھے مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی اور ایک جماعت اسلامی کے حصے میں آئیں اور جیتنے والے امیدواروں کے ووٹوں کی تعداد 13 ہزار سے 38 ہزار تک رہی، جب کہ 2013ء میں کراچی کی 20 نشستوں میں سے 17 ایم کیو ایم کو ملیں، اور ان امیدواروں کو 39 ہزار سے ایک لاکھ 39 ہزار تک ووٹ ملے۔ 2018ء کے چناؤ کے موقع پر کراچی کی ایک نشست بڑھی، اور نئی حد بندیوں کے بعد یہ حلقے 236 سے 256 تک ہیں۔ اس میں تحریک انصاف کے فتح یاب امیدواروں نے 21 ہزار سے 91 ہزار تک ووٹ لیے، ایم کیو ایم کے فتح یاب امیدواروں کو 52 سے 61 ہزار کے درمیان ووٹ ملے۔ ان حلقوں میں فتح یاب امیدوار اور کُل ووٹروں کا ذکر کچھ یوں ہے:

این اے 236میں پیپلز پارٹی 66 ہزار 641ووٹ لے کر جیتی (کُل ووٹر2 لاکھ 33 ہزار 28)

این اے 237 میں تحریک انصاف 33 ہزار 522 ووٹ لے کر جیتی (کُل ووٹر2 لاکھ 83 ہزار 882)

این اے 238 پیپلزپارٹی نے 29 ہزار 606لے کر میدان مارا (کُل ووٹر2 لاکھ 34ہزار616)

این اے 239میں تحریک انصاف69 ہزار 161 ووٹ لے کر جیتی (کُل ووٹر5لاکھ 28ہزار 732)

این اے 240میں ایم کیو ایم 61 ہزار 165 ووٹ لے کر جیتی (کُل ووٹر 4 لاکھ 75 ہزار 523)

این اے 241میں تحریک انصاف 26 ہزار 714 ووٹ لے کر جیتی (کُل ووٹر 3 لاکھ 14 ہزار 450)

این اے 242میں تحریک انصاف 27 ہزار 502 ووٹ لے کر جیتی (کُل ووٹر ایک لاکھ 83ہزار 373)

این اے 243میں تحریک انصاف 91 ہزار 373 ووٹ لے کر جیتی (کُل ووٹر 4 لاکھ ایک ہزار 833)

این اے 244 میں تحریک انصاف69 ہزار 480 ووٹ لے کر جیتی (کُل ووٹر4لاکھ 7ہزار 363)

این اے 245میں تحریک انصاف56 ہزار 673 ووٹ لے کر جیتی (کُل ووٹر4لاکھ 43ہزار 540)

این اے 246 میں تحریک انصاف نے 53ہزار 29 ووٹ لے کر جیتی (کُل ووٹر5 لاکھ 36 ہزار 688 )

این اے 247میں تحریک انصاف نے 90 ہزار 907 ووٹ لے کر جیتی (کُل ووٹر5 لاکھ 43ہزار 964)

این اے 248میں پیپلزپارٹی نے 35 ہزار 76 ووٹ لے کر جیتی (کُل ووٹر3لاکھ 3ہزار 258)

این اے 249میں تحریک انصاف 35 ہزار 349 ووٹ لے کر جیتی (کُل ووٹر3لاکھ 31 ہزار 430)

این اے 250میں تحریک انصاف36ہزار 60 ووٹ لے کر جیتی (کُل ووٹر4لاکھ 675)

این اے 251میں ایم کیو ایم 56ہزار 888 ووٹ لے کر جیتی (کُل ووٹر4 لاکھ 5ہزار 652)

این اے 252میں تحریک انصاف 21ہزار 65 ووٹ لے کر جیتی (کُل ووٹر2لاکھ 19ہزار 42)

این اے 253میں ایم کیو ایم نے 52 ہزا 426 ووٹ لے کر جیتی (کُل ووٹر4لاکھ 684)

این اے 254میں تحریک انصاف  75 ہزار 702 ووٹ لے کر جیتی (کُل ووٹر5لاکھ 5ہزار 291)

این اے 255میں ایم کیو ایم 59 ہزار 781 ووٹ لے کر جیتی (کُل ووٹر4لاکھ 56ہزار 561)

این اے 256میں تحریک انصاف 89 ہزار 857 ووٹ لے کر جیتی (کُل ووٹر4لاکھ 88ہزار 482)

وزیراعظم بنانے والی پارٹی!

ہمارے تقریباً 44 فی صد ووٹروں کی عمر 35 سال سے کم ہے۔ یہ عمر بہت کچھ کر گزرنے کا عزم لیے ہوئے ہوتی ہے، اس عمر میں نئی چیزیں اور تبدیلیاں بہت زیادہ متاثر کرتی ہیں۔ آج کے نوجوان اِبلاغیات کے جدید وسائل سے آراستہ ہیں، دنیا بھر کی سیاسی تبدیلیوں نے انہیں کافی سیاسی شعور عطا کیا اور وہ اپنے حق رائے دہی کی طرف راغب ہوئے۔ ایم کیو ایم سمیت دیگر امیدوار ان کے سامنے تھے۔ ایک طرف ایم کیو ایم کے خلاف کارروائیاں، تنظیمی بحران اور ٹوٹ پھوٹ تھی تو ان کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان تھا، روایتی طور پر ایم کیو ایم کا مخالف ووٹ جماعت اسلامی کو پڑتا یا اس بار ’پی ایس پی‘ بھی اس میں حصہ وصول کرنے کے لیے کوشاں تھی، لیکن ووٹروں نے اس کے لیے ’تحریک انصاف‘ کو چُنا۔ جس میں عمران خان کو وزیراعظم بنانے کی کشش موجود تھی۔ نئی نسل ووٹ دیتے ہوئے یہ سوچتی ہے کہ اس کی جماعت کا وزیراعظم بنے گا یا نہیں۔

ایسے میں ان کے پاس تین بڑی جماعتیں رہ جاتی ہیں، جن میں سندھ میں پیپلزپارٹی سندھ میں گذشتہ10 برس سے برسراقتدار ہے، اس دوران نئی نسل نے بھی اسے بہت تفصیل سے آزما لیا۔ رہی نواز لیگ جو شاید بہت سے ووٹروں کی پیدائش سے بھی پہلے سے اقتدار میں آتی رہی ہے اور اس بار اگر اس نے خود کو کچھ مختلف کیا تو اس کا محور پنجاب ہی رہا، محض انتخابات کے نزدیک کراچی آجانا کوئی مفید عمل نہیں۔ ایسے میں مایوس ووٹروں اور نوجوانوں کا اس جانب متوجہ ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں، جو بہت کچھ تبدیل کرنے کے نعرہ بلند کرتی ہے۔

نئی حلقہ بندیوں نے بہت کچھ بدل ڈالا!

پچھلی حلقہ بندیاں پرویز مشرف کے دور میں کی گئیں، جس پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہ ایم کیوایم کے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے کی گئیں، جب کہ ایم کیو ایم اور پرویز مشرف کا رومان تو 2002ء کے انتخابات کے بعد شروع ہوا۔ 2017ء میں 19 سال بعد مردم شماری ہوئی تو اہل کراچی توقع کرتے تھے کہ قومی اسمبلی میں کراچی کی نشستیں دُگنی نہ سہی مگر 50 سے 60 فی صد تک تو بڑھ ہی جائیں گی، مگر مردم شماری کے بعد کراچی کی صرف ایک نشست بڑھائی گئی۔ شمار کریں تو رائے دہندگان کے حوالے سے سب سے بڑا ضلع وسطی، جب کہ سب سے چھوٹا ملیر ہے، دل چسپ بات یہ ہے کہ بڑھنے والی قومی اسمبلی کی نشست ملیر میں بڑھی، جب کہ ضلع وسطی کی ایک نشست کم کر دی گئی!

مردم شماری کے ذرا اعدادوشمار ہی دیکھ لیں تو ہم سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں کہ انتخابی حلقہ بندیوں کے لیے کون سی ایسی ’راکٹ سائنس‘ سے استفادہ کیا گیا ہے کہ اسی شہر میں قومی اسمبلی کا ایک حلقہ 242میں رائے دہندگان ایک لاکھ 83 ہزار 373 ہیں، جب کہ اسی شہر میں ایک حلقہ 247 بھی ہے جہاں رائے دہندگان کا شمار 5لاکھ 43 ہزار 964 ہے! یعنی قومی اسمبلی کی ایک نشست کی آبادی، اسی شہر کے دوسرے انتخابی حلقے سے تین گنا تک زیادہ ہے۔ حلقہ بندیوں میں رائے دہندگان کی تعداد کو اس طرح نظرانداز کرنا سراسر غیرجمہوری ہے۔

کراچی میں مجموعی طور پر 81 لاکھ سے زائد رائے دہندگان ہیں۔ یہاں دو لاکھ سے کم ووٹروں کی بھی ایک نشست ہے، اگر ہم دو لاکھ ووٹروں پر ایک نشست کا بھی حساب لگائیں تو کراچی کی قومی اسمبلی کی کم سے کم 40 نشستیں بنتی ہیں! اگر کراچی میں پانچ کم ترین ووٹروں والی نشستیں (این اے 236، 237، 238، 242 اور 252) کے ووٹروں کا اوسط نکال کر کُل رائے دہندگان پر تقسیم کریں، تو اس حساب سے بھی کم سے کم 35 نشستیں ہونا چاہییں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔