ایک ہی دن روزہ ایک ہی دن عید

عدنان اشرف ایڈووکیٹ  بدھ 10 جولائی 2013
advo786@yahoo.com

[email protected]

ملک بھر میں ایک ہی دن عید منانے اور ایک ہی دن سے روزہ رکھنے کی خواہش اور کوششیں کافی عرصے سے جاری تھیں۔ اس سال ملک بھر میں رمضان کا آغاز ایک ساتھ ہونے سے ملک میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ رویت ہلال کمیٹی کے قیام سے قبل ملک کے مختلف حصوں میں چاند کی رویت کے مطابق مختلف دنوں میں عیدیں منائی جاتی تھیں۔

پورے ملک میں ایک ہی دن عید منانے کی غرض سے رویت ہلال کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ لیکن گزشتہ برسوں میں ملک کے مختلف حصوں میں چاند کی رویت کا معاملہ تنازعے کی شکل اختیار کرگیا تھا۔ پچھلے چند سال سے تو یہ مسئلہ اتنا گمبھیر اور متنازعہ ہوچکا تھا کہ ملک بھر میں دو دو نہیں بلکہ تین تین عیدیں بھی منائی گئیں۔ اس تعطل و اختلاف کی وجہ سے جہاں قوم اذیت وبے یقینی کی کیفیت سے دو چار رہی وہیں بینک بھی 6 دن بند رہے جس کی وجہ سے تاجروں کے مطابق وفاق کو 26 ارب کا نقصان پہنچا تھا۔

اس بار رمضان المبارک کے آغاز سے پہلے ہی صوبہ کے پی کے کی حکومت نے مفتی شہاب الدین پوپلزئی کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ وہ مرکزی رویت ہلاک کمیٹی کے اجلاس میں شریک ہوں۔ لیکن وہ اپنی ضد پر قائم رہے، جس کے بعد صوبائی وزیر اطلاعات نے پریس کانفرنس کے دوران واضح اور دوٹوک الفاظ میں اعلان کیا کہ چاند کی رویت کا اعلان کرنے کی ذمے داری مرکزی رویت ہلال کمیٹی کی ہے اور اگر کوئی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانا چاہتا ہے تو وہ اس کی مرضی ہے۔

صوبائی حکومت کے اس دوٹوک موقف کے بعد مفتی شہاب الدین پوپلزئی بھی یہ اعلان کرنے پر مجبور ہوئے کہ چاند نظر آنے کی کوئی شہادت موصول نہیں ہوئی ۔ جبکہ گزشتہ سال اے این پی جیسی سیکولر کمیونسٹ جماعت نے مذہبی معاملے میں خواہ مخواہ ٹانگ اڑا کر خاصی بدمزگی پیدا کی تھی اور پھر ٹی وی کے ٹاک شوزمیں جس طرح اس مسئلے کو اچھال کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ ملک میں مسلکی جنگ جاری ہے اور تو اور سوشل میڈیا پر منچلوں نے جس انداز میں اس سارے تنازع کو اچھالا اور مزاحیہ انداز میں لطیفے گھڑے اس سے بھی اسلام کی تضحیک کا پہلو بھی سامنا آیا۔

گوکہ صوبہ خیبرپختونخوا میں قائم ہونے والی تحریک انصاف کی حکومت نے اس ضمن میں اے این پی کی حکومت کے مقابلے میں اپنا رول بہترانداز میں ادا کیا ہے ،لیکن اس بات کا خدشہ موجود ہے کہ عید کی رویت پر ایک بار کوئی تنازع جنم نہ لے ۔ اس سلسلے میں فعال وموثر کردار صرف مرکزی حکومت ہی ادا کرسکتی ہے۔ وہ نہ جانے کن مصلحتوں اور لاپرواہی کی بنا پر اس مسئلے کو اہمیت دینے کو تیار نہیں ہے جو ملک وملت کی وحدت ویکجہتی کو نقصان پہنچارہا ہے۔

جب تک خلافت عثمانیہ کی مرکزیت قائم تھی پوری امت میں بھی مرکزیت تھی۔ ایک ہی دن روزہ اور ایک ہی دن عید ہوتی تھی۔ عرب اور ہندوستان میں چاند کی تاریخیں ایک ساتھ چلتی تھیں۔ آج ملک کے چپہ چپہ میں کمیونی کیشن کی بہترین ارزاں اور عام سہولیات ہیں۔ ڈی سی اوز، مجسٹریٹ، عدالتیں، دارالعلوم قریہ قریہ موجود ہیں۔ جن کے ذریعے رویت ہلال سے متعلق شہادتوں کی شرعی وقانونی قبولیت اور تصدیق اور چاند نظر آنے یا نہ آنے کا اعلان مرحلہ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کی بات ہے۔ جس کے لیے نیک نیتی، مستعدی اور اخلاص شرط ہے۔

رویت ہلال کے مسئلے کو ہمیشہ کے لیے طے کرنے کے لیے مندرجہ ذیل عوامل پر غور وخوض کرنا چاہیے کہ (1) پورے ملک میں ایک ہی دن عید منانے کی شرعی ضرورت یا حیثیت کیا ہے؟ (2) اس سلسلے میں ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی شرعی یا تکنیکی حیثیت یا جواز کیا ہے؟ جب کہ خلافت عثمانیہ میں پوری امت ایک ساتھ عید مناتی تھی اور رویت ہلال کمیٹی کے قیام سے قبل بھی ملک کے مختلف حصوں میں مختلف محل وقوع اور موسموں کے فرق کی وجہ سے نماز، افطار، سحر کے علاوہ عید کے دنوں میں بھی فرق پایاجاتاتھا۔ اس پر کسی کو ایک دوسرے سے اختلاف بھی نہیں ہوتاتھا۔ (3) پوری قوم کے ایک دن عید منانے کے مقابلہ میں یہ دلیل بھی وزن رکھتی ہے کہ اسلام میں نظریہ قوم نہیں بلکہ نظریہ ملت ہے تو پھر پوری ملت ایک ہی دن عید کیوں نہ منائے اور کیا یہ ممکن ہے؟

(4) رویت ہلال سے متعلق اگر دائمی کلینڈر مرتب کرلیاجائے تو اس کی شرعی حیثیت کیا ہوگی؟ (5) اس سلسلہ میں ایک تجویز یہ بھی دی جاتی ہے کہ رویت ہلال کے مسئلہ پر سعودی عرب کی پیروی کی جائے تو اس کی شرعی حیثیت کا بھی جائزہ لینا چاہیے۔ (6) چاند کی رویت اور عمر سے متعلق ماہرین فلکیات اور موسمیات کی رائے کے مستعد ومعتبر ہونے اور اس کے شرعی طورپر قبولیت اور استفادہ کے لیے بھی غور کیا جانا چاہیے۔ اگر یہ معتبر ہے تو ایسے علاقوں کو کمیٹی کے اجلاس سے قبل ہی غیر معتبر قرار دے کر خارج کردیا جائے۔ جہاں چاند پیدا نہ ہونے یا اس کے نظرنہ آنے کی رائے دی گئی ہو تاکہ بعد میں بدمزگی نہ ہو۔

حدیث میں ہے کہ ’’چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر چھوڑدو اگر بادل چھائے ہوں تو شعبان کی گنتی پوری کرو‘‘ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’انصاف پر قائم رہو، سچی گواہی دو، خواہش نفس کے پیچھے چل کر عدل نہ چھوڑدینا اگر تم پیچ دار شہادت دوگے یا شہادت سے بچنا چاہو گے تو اﷲ خوب واقف ہے‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔