سانحہ ساہیوال؛ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کی جوڈیشل انکوائری کی پیشکش

ویب ڈیسک  جمعرات 7 فروری 2019
عدالت کا سانحہ ساہیوال کے چشم دید گواہ بچے کا بیان ریکارڈ کرانے کا حکم فوٹو:فائل

عدالت کا سانحہ ساہیوال کے چشم دید گواہ بچے کا بیان ریکارڈ کرانے کا حکم فوٹو:فائل

 لاہور: چیف جسٹس ہائی کورٹ نے سانحہ ساہیوال کے متاثرین کو واقعے کی جوڈیشل تحقیقات کرانے کی پیشکش کردی۔

لاہور ہائیکورٹ میں سانحہ ساہیوال کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنانے کی درخواستوں کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے سماعت کی۔

جاں بحق خلیل کے بھائی جلیل نے درخواست میں کہا کہ پنجاب حکومت کی بنائی گئی جے آئی ٹی کو کالعدم قرار دیا جائے اور جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے۔

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے درخواست گزار کو جوڈیشل کمیشن کی بجائے جوڈیشل انکوائری کروانے کی پیشکش کردی تو جلیل نے پیش کش پر غور کرنے کےلیے مہلت طلب کی۔ جس پر عدالت نے مہلت دینے کی استدعا منظور کرلی۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ ساہیوال متاثرین نے جے آئی ٹی لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کردی

چیف جسٹس نے جلیل کے وکیل بیرسٹر احتشام سے کہا کہ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کو آپ کیس کا حصہ نہیں بنا سکیں گے، بلکہ اگر مجسٹریٹ سے جوڈیشل انکوائری کی جائے تو وہ کیس کا حصہ بن سکے گا۔

ذیشان کی والدہ کے وکیل سید فرہاد علی شاہ نے موقع کے گواہان ڈاکٹر ندیم، میاں عامر، رشید کی فہرست پیش کی۔

لاہور ہائیکورٹ نے جے آئی ٹی کو حکم دیا کہ عینی شاہدین کو فون کرکے بلائے اور ان کے بیانات ریکارڈ کرے جبکہ وفاقی حکومت سے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل سے متعلق ایک ہفتے میں جواب طلب کرلیا۔

چیف جسٹس نے مدعی جلیل کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کا کوئی گواہ موجود ہے؟۔ بیرسٹر احتشام نے جواب دیا کہ جاں بحق خلیل کا بیٹا عمیر خلیل ہمارا اہم گواہ ہے اور ابھی اس کا بیان جمع کروا رہے ہیں۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے آج ہی عمیر کا بیان ریکارڈ کرانے کا حکم دیا۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ ساہیوال، جوڈیشل کمیشن تشکیل نہ دینے کا اقدام ہائیکورٹ میں چیلنج

وفاقی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے پیش ہوکر کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے پنجاب حکومت سے سانحہ پر رپورٹ مانگ لی ہے جبکہ متاثرہ فریقین نے وزیراعظم سے جوڈیشل کمیشن بنانے کیلئے کوئی استدعا نہیں کی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ تو بتائیں یہ ضروری ہے کہ کوئی متاثرہ فریق ہی درخواست دے؟۔ اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ یہ ضروری نہیں۔

کیس کی مزید سماعت ملتوی کردی گئی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔