یہ آپ کا حق ہے!

نادیہ حسین  منگل 26 فروری 2019
نان نفقہ اور اس سے متعلق دیگر باتیں طے کرلیں۔ فوٹو: فائل

نان نفقہ اور اس سے متعلق دیگر باتیں طے کرلیں۔ فوٹو: فائل

ہمارے ہاں کوئی بھی تقریب ہو، دکھاوے اور نمائش سے خالی نہیں ہوتی اور جب بات ہو شادی کی تو پھر خوب اہتمام اور شان دار انتظام تو جیسے ہماری انا کا مسئلہ بن جاتا ہے۔

’’دیکھو انتظام بہترین ہونا چاہیے، کوئی کمی نہ رہ جائے، ناک نہ کٹوا دینا، ان سے بڑھ کر کرنا ہے‘‘ اور اسی قسم کے دوسرے جملے اور باتیں سننے کو ملتی ہیں، لیکن حیران کن امر یہ ہے کہ ان معاملات پر گفتگو سے دانستہ گریز کیا جاتا ہے جن کا تعلق نہ صرف نئے جوڑے کی ازدواجی زندگی سے ہوتا ہے بلکہ ان کا براہ راست اثر اُس خاندان اور آنے والی نسلوں پر بھی پڑتا ہے۔

سب سے پہلے تو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ شادی صرف ایک رسم اور فریضہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسا معاہدہ ہے جس کا مرد اور عورت کی انفرادی زندگیوں اور ان کے خاندانوں سے گہرا تعلق ہے۔ اس کے تحت مرد و عورت ذمہ داری کے ساتھ ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔ شادی کی صورت میں انہیں ایک دوسرے پر کچھ حقوق حاصل ہو جاتے ہیں۔ اگر کوئی فریق یہ حقوق ادا نہ کرے اور اس معاہدے کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری نہ کرے تو دوسرے کو حق حاصل ہے کہ وہ اس معاہدے کو ختم کر دے۔

نان نفقہ کی ادائی بھی ایک ایسا فریضہ ہے جس میں شوہر کی جانب سے اگر غفلت برتی جائے تو بیوی کو یہ حق حاصل ہے وہ اس بنیاد پر شوہر سے خلع کا مطالبہ کرے۔ واضح رہے کہ نکاح اور نان و نفقہ کے حوالے سے جہاں اللہ اور اس کے رسول کے بتائے گئے احکامات اور اسلامی قوانین کو اولیت اور اہمیت دی جاتی ہے، وہیں سماجی اور عائلی زندگی کو بھی پیشِ نظر رکھا جاتا ہے اور اس کی روشنی میں دو گھرانوں کے درمیان ایسے معاملات طے کیے جاسکتے ہیں۔

نان و نفقہ کی اصطلاح میں اس کی بنیادی شرائط کے ساتھ مرد کی مالی حیثیت کے مطابق لڑکی کی جائز خواہشات اور ضروریات کے لیے کوئی معاہدہ فریقین کی رضامندی اور اتفاق کے ساتھ کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے یہاں عدالتوں میں زیادہ تر کیس نان و نفقہ اور مالی ضروریات سے متعلق ہوتے ہیں۔ شادی شدہ خواتین کی اکثریت یہی شکایت لے کر آتی ہے کہ شوہر انہیں ان کے ذاتی اخراجات کے لیے مخصوص رقم یا جیب خرچ نہیں دیتے۔ اس کی وجوہ کچھ بھی ہوں، بہرحال یہ عورت کا حق ہے جو بعض صورتوں میں رشتہ اور تعلق پر انتہائی منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔

نان و نفقہ کے متعلق ایک بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اس سے مراد صرف روٹی، کپڑا اور رہائش ہی نہیں ہے بلکہ یہ بیوی کی ضرورت اور استعمال کی ہر چیز کا نام ہے۔ عدالت جب کسی عورت کی شکایت پر اس کے شوہر سے اس بابت پوچھتی ہے تو اکثر یہی جواب دیتے ہیں کہ ہم نے رہنے کو گھر دیا ہوا ہے، کھانا پینا اور کپڑے بنوا کر دیتے ہیں۔ یہ بات یکسر نظر انداز کر دی جاتی ہے کہ دو وقت کا کھانا، اوڑھنے پہننے کی ضروریات اور رہائش تو بنیادی چیزیں ہیں۔

اس کے علاوہ دیگر ضروریات جو ہر دور کے لحاظ سے بدلتی رہتی ہیں وہ رقم سے پوری ہوتی ہیں اور مرد اپنی مالی حیثیت کے مطابق اسے پوری کرنے کا پابند ہے۔ دینِ اسلام کی یہ امتیازی خصوصیت ہے کہ اس نے عورت اور کنبے کی کفالت کی ذمہ داری مرد پر ڈالی ہے۔ عورت اپنے والدین کے گھر ہو تو اس کا کفیل باپ ہے۔ باپ نہ ہو تو بھائی ہے۔ شادی کے بعد شوہر کے گھر آجائے تو یہاں اس کے تمام اخراجات اور ضروریات کو پورا کرنا اسی کی ذمہ داری ہے۔

بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایک سوچ یہ بھی ہے کہ اگر شوہر نان و نفقہ کے نام پر کھانے پینے، تن ڈھانپنے اور رہائش کی ضروریات پوری کر رہا ہے تو گویا یہ اس کا احسان ہے اور اس کے بدلے میں عورت ہر طرح سے اس کی تابع دار اور ممنون رہے۔ ناخواندہ یا کم پڑھے لکھے لوگ ہی نہیں بلکہ اکثر تعلیم یافتہ مرد بھی ڈھٹائی اور بے شرمی سے کہہ دیتے ہیں کہ اگر گزارہ نہیں ہوتا تو اپنے ماں باپ یا بھائیوں سے مانگو، میں نے روٹی، کپڑا اور رہائش دے رکھی ہے، یہی کافی ہے۔

شادی سے پہلے مرد اور عورت ایک دوسرے کی مالی اور سماجی حیثیت سے واقف ہوتے ہیں۔ شوہر کی اسی حیثیت کے مطابق کوئی عورت اپنے سماجی مرتبے کا تعین کرتی ہے اور جب وہ استعداد اور اہلیت رکھنے کے باوجود ماہانہ خرچ یا مخصوص ضروریات پوری کرنے سے ہاتھ کھینچتا ہے تو اس کی عزت نفس متاثر ہوتی ہے۔ میاں بیوی کے درمیان گفتگو اور بات چیت سے اگر یہ معاملہ حل نہ ہو تو اکثر معاملہ طلاق تک پہنچ جاتا ہے۔

ہماری بدقسمتی ہے کہ آج بھی مرد اپنی بیویوں سے بہت زیادہ قربانی، ایثار اور گھر کے ہر کام انجام دینے کی توقع رکھتے ہیں، لیکن مالی حیثیت کے مطابق اکثریت اب بھی عورتوں کے نان و نفقہ کو محدود کردیتی ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ عورت اپنے شوہر کے دکھ سکھ میں اس کا ساتھ دینے کے ساتھ ساتھ اس کے مالی وسائل اور بساط کے مطابق ہی اپنی ضروریات اور خواہشات کا اظہار کرے اور اس پر بوجھ نہ ڈالے۔

ایک اچھا جیون ساتھی وہی ہوتا ہے جو اپنے گھر کے سکون، خوشیوں کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار ہو اور مشکل وقت میں اپنے پارٹنر کے ساتھ کھڑا ہو۔ تاہم مردوں کو بھی حق تلفی، نامناسب سلوک اور تکلیف دہ رویہ نہیں اپنانا چاہیے اور بہ رضا و رغبت نان و نفقہ اور اس سے متعلق طے شدہ باتوں پر عمل کرنا چاہیے۔

سماجی نقطۂ نگاہ سے اس مسئلے یا ایسے جھگڑوں سے بچنے کا واحد حل یہی ہے کہ جس وقت شادی کے دیگر معاملات طے ہو رہے ہوں اسی وقت یہ بھی طے کر لیا جائے کہ شوہر کی جانب سے ہر ماہ کتنی رقم بیوی کو جیب خرچ کی مد میں ادا کی جاے گی۔ رقم کا تعین مرد کی مالی حیثیت اور آمدن کے مطابق کیا جائے تاکہ وہ سہولت سے ہر ماہ یہ رقم ادا کر سکے۔

اسی موقع پر لڑکی کو بھی پابند کیا جائے کہ وہ اپنے شوہر کی مالی حالت دیکھ کر ضروریات اور خواہشات کا اظہار کرے گی۔ شادی سے پہلے اس حوالے سے بات چیت اور اتفاقِ رائے کو تحریر کی شکل میں محفوظ کر لینا بھی اچھی بات ہے جس سے اس معاملے پر مستقبل میں کسی جھگڑے کا امکان کم سے کم ہو گا۔

عام طور پر تو بنیادی مالی ضروریات پوری کرنے میں شوہر غفلت نہیں برتتے، مگر اس پر بعض مختلف صورتیں اثر انداز ہوسکتی ہیں جن کی وجہ سے میاں بیوی کے تعلقات  کشیدہ ہو سکتے ہیں اور یہ آئے روز کے جھگڑے کا سبب بن سکتی ہیں۔

مثال کے طور پر شادی کے بعد لڑکے کے ماں باپ یا بہنوں کی جانب سے کسی وجہ سے دباؤ اور گھریلو نااتفاقیوں کے بعد یہ کہنا کہ کیا ضرورت ہے بیوی پر پیسا لٹانے کی اور اس طرح مرد کو اپنی بیوی کی ضروریات پر رقم خرچ کرنے سے روکنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ اس کے لیے زور زبردستی کے علاوہ جذباتی دباؤ بھی ڈالا جاسکتا ہے۔

ماں یا بہنوں کی جانب سے مسلسل طعنے اور بیوی کا ساتھ دینے پر جذباتی طور پر بیٹے یا بھائی کو دباؤ میں لینے کی کوشش کام یاب بھی ہوسکتی ہے جس کے نتیجے میں ایک جوڑے کی ازدواجی زندگی مشکلات کا شکار ہو جاتی ہے۔ اس لیے اس طرف سے کوتاہی نہیں برتنا چاہیے اور باہمی رضامندی سے ایسے معاملات طے کر لینا ہی بہتر ہے۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ سب سے بہتر مال وہ ہے جو تم میں سے کوئی اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتا ہے۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مرد کے لیے بیوی، بچوں کی کفالت اور ان کی ذمہ داریاں پوری کرنا نہ صرف دنیاوی اعتبار سے ضروری ہے بلکہ مذہب بھی اسے بہترین عمل بتاتا ہے اور اس پر زور دیتا ہے۔

دوسری طرف یہ بھی ضروری ہے کہ لڑکی اس بندھن کے وقت اپنے فرائض، ذمہ داریوں کے ساتھ اپنے حقوق سے بھی آگاہ ہو۔ وہ نان و نفقہ اور شوہر پر اپنے حقوق سے متعلق دین کی تعلیمات، سماجی ضابطوں اور قوانین کی سمجھ بوجھ رکھتی ہو تو نہ صرف اس کا مستقبل زیادہ محفوظ ہو گا بلکہ یہ خوب صورت تعلق خوش گوار اور بہت مضبوط ثابت ہو سکتا ہے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔