دہشت گردوں کی دہشت گردی

ایک ارب سے زیادہ انسان برصغیر میں رہتے ہیں جو روٹی سمیت زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے محروم ہیں


Zaheer Akhter Bedari March 12, 2019
[email protected]

ایک ارب سے زیادہ انسان برصغیر میں رہتے ہیں جو روٹی سمیت زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے محروم ہیں۔ صبح سے شام تک روٹی روزی کے چکر میں مصروف عوام کو جنگوں کے ماحول میں گھیسٹا جا رہا ہے، عوام نہ جنگ چاہتے ہیں نہ جنگوں کے خطرات کی زد میں رہنا چاہتے ہیں لیکن ان کی یہ جائز اور برحق خواہش پوری ہوتی نظر نہیں آتی۔ ابھی بھی ایک مختصر سی جنگ سے برصغیرکے عوام فارغ بھی نہیں ہو پائے تھے کہ ہمارے پڑوسی ملک نے دوبارہ جنگی ماحول پیدا کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔ اور یہ سب اس لیے ہو رہا ہے کہ بھارت پاکستان سے کچھ زیادہ طاقتور ملک ہے۔

بھارت کو سب سے بڑی شکایت یہ ہے کہ دہشت گردوں کے تعلقات پاکستان سے ہیں۔ اگر ہم پاکستان پر لگائے جانے والے ان الزامات کو درست بھی مان لیں تو کیا اس حقیقت سے انکار کیا جاسکتا ہے کہ بھارت میں ہزاروں نہیں لاکھوں مذہبی انتہا پسند موجود ہیں اور جب بھی کوئی پاکستانی فنکار بھارت جاتا ہے، اسے ہراساں کرتے ہیں اس کی تذلیل کرتے ہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ پچھلے انتخابات میں بھارتی عوام نے اس انتہا پسند مذہبی جماعت کو ووٹ دے کر قانون ساز اداروں میں پہنچایا۔ کیا یہ انتہا پسندی پاکستانی عوام کی انتہا پسندی سے زیادہ بڑی اور گہری ہے؟ بھارت کے انتہا پسندوں کا یہ حال ہے کہ گائے ماتا کی حرمت کے تحفظ میں اب تک کئی مسلمانوں کو انتہائی بے رحمی سے قتل کردیا۔ جہالت کی یہ ایسی انتہا ہے جس نے جانور کو انسان سے مقدس بناکر رکھ دیا ہے اور افسوس یہ ہے کہ بھارتی وزیر اعظم اسی انتہا پسند کلاس سے تعلق رکھتے ہیں۔

بھارتی حکمرانوں کا یہ دیرینہ مطالبہ تھا کہ پاکستان انتہا پسند مذہبی تنظیموں پر پابندی لگا دے سو بھارت کے اس مطالبے پر بھی پاکستانی حکومت نے عملدرآمد کردیا، یعنی جماعت الدعوۃ، فلاح انسانیت فاؤنڈیشن پر پابندی ہی نہیں لگا دی بلکہ مسعود اظہرکے بیٹے، بہنوئی سمیت 44 افراد کو حراست میں لے لیا ۔ اصل میں مسئلہ نہ انتہا پسندی کا ہے نہ دہشت گردی کا، حکمران طبقہ اپنے طبقاتی مفادات کے تحفظ کی خاطر اور عوام کو تقسیم رکھنے کی خاطر یہ ڈرامے بڑی مہارت سے چلاتے ہیں ۔ ایک انتہا پسندی مذہبی ہوتی ہے، ایک انتہا پسندی ریاستی ہوتی ہے۔ مذہبی انتہا پسندی سے 10 انسان مارے جاتے ہیں تو ریاستی انتہا پسندی سے تین ہزار جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور ریاست بڑی آسانی سے ریاستی انتہا پسندی کی پردہ پوشی کرلیتی ہے۔ بنیادی طور پر دونوں ہی دہشت گردیاں بنی نوع انسان کے لیے تباہ کن ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلمان ایک ہزار سال تک ہندوستان پر حکومت کرتے رہے اس طویل ترین دورانیے میں نہ مذہبی انتہا پسندی کا وہ کلچر تھا جو آج ہے نہ مذہب کے نام پر قتل و غارت کا وہ عالم تھا جس کا مظاہرہ ہم آج کے جمہوری دور میں دیکھ رہے ہیں۔ دو تین یا ایک ہزار سال کا دور بڑا طویل دور ہوتا ہے اس طویل دورانیے میں انسانوں کا خون اتنا نہیں بہا جتنا جمہوریت کے70 سالہ دور میں بہایا گیا۔ ایسا کیوں؟ یہ سوال فطری طور پر اٹھایا جاسکتا ہے کہ شخصی حکومتوں کے دوران 12 فیصد مسلم اقلیت 88 فیصد ہندو اکثریت کے لیے اتنی قاتل ثابت نہیں ہوتی تھی جتنا جدید جمہوری نظام ثابت ہو رہا ہے یہ ایسے تلخ حقائق ہیں جن پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

بھارت کا حکمران طبقہ بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہتا ہے۔ جمہوریت میں اقلیتوں کے تحفظ کی ذمے داری حکومتوں پر عائد ہوتی ہے لیکن یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ آج کی ترقی یافتہ دنیا میں اقلیتیں اس قدر غیر محفوظ نہیں تھیں جتنی شخصی حکمرانوں کے دور میں محفوظ تھیں۔ شخصی اور خاندانی حکمرانی کو بہت برا اور جمہوری نظام کو مثالی کہا جاتا ہے۔ پاکستان اور پاکستان جیسے پسماندہ ملکوں میں جو نام نہاد جمہوریت رائج ہے کیا وہ ماضی کی شخصی اور خاندانی حکومتوں سے بہتر ہے؟ یہ سوال ہم اس لیے نہیں کر رہے کہ خاندانی حکومتوں کو جمہوری حکومتوں پر ترجیح دیں بلکہ اس لیے کر رہے ہیں کہ اس نام نہاد جمہوریت کو برہنہ کریں جو اپنی اصل میں بدترین آمریتوں سے زیادہ بدتر ہیں۔

ایسی بات نہیں کہ جمہوری حکمران جمہوریت کی حقیقت سے واقف نہ ہوں جمہوری حکمران سب سے زیادہ جمہوریت کی اصل سے واقف ہیں کیونکہ یہ عوام کو تقسیم کرکے ان کی طاقت کو بکھیرنے کے لیے کام کرتے ہیں۔ آج جمہوری ملکوں خصوصاً پسماندہ ملکوں پر نظر ڈالیں عوام کی اجتماعی طاقت کو توڑنے کے لیے کیا کیا طریقے ایجاد نہیں کیے گئے کیونکہ عوام متحد ہوجاتے ہیں تو جمہوری حکمرانوں کا کریا کرم ہوجاتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کا یہ وہ زہر ہے جو شہد میں ملاکر عوام کو کھلایا جا رہا ہے۔ ہندوستان کا حکمران طبقہ بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہتا ہے اور ہندوستانی عوام کا یہ حال ہے کہ وہ بیسیوں حوالوں سے تقسیم کا شکار ہیں۔

ہندوستان کو یہ شکایت ہے کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر میں دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہا ہے۔ اس حوالے سے اگر بھارت سے یہ سوال کیا جائے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں کس قسم کی کارروائیاں کر رہا ہے تو جواب ملے گا۔ بھارت کشمیر میں دہشت گردی کی کارروائیاں نہیں کر رہا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کشمیر میں اب تک جو لاکھوں کشمیری مارے گئے ہیں کیا وہ دہشت گردی کی تعریف میں نہیں آتے؟ اور کشمیر میں جو لاکھوں کشمیری اب تک مارے جاچکے ہیں وہ عام دہشت گردوں سے زیادہ شدید دہشت گردی میں آتے ہیں؟ کیونکہ کشمیریوں کے خلاف بھارت کی مسلح فوجوں کی دہشت گردی زیادہ سخت اور بے رحمانہ ہے۔ 90 سال سے یہ دہشت گردی جاری ہے اور اس میں اب تک لاکھوں کشمیری جان بحق ہوچکے ہیں لیکن دنیا اس فوجی دہشت گردی کا نوٹس نہیں لیتی۔ یہ کام صرف دہشت گرد نہیں کر رہے ہیں بلکہ بھارت کی فوج بھی دہشت گردی کو ختم کرنے کے بہانے کر رہی ہے۔

اقوام متحدہ نے بھارت کی شکایت پر بہت واضح طور پر کہا کہ کشمیر کے مسئلے کا حل کشمیر میں رائے شماری ہے۔ مشکل یہ ہے کہ اگر بھارت جیسے طاقتور ملک کے بجائے یہ ریاستی دہشت گردی پاکستان کرتا تو بھارت آسمان سر پر اٹھا لیتا۔ بھارت کشمیر میں اپنی فوج کے ذریعے کشمیریوں کا قتل عام کر رہا ہے کہ دنیا کے بڑے ملک کشمیریوں کے قتل عام کو اقوام متحدہ اور دنیا بھارتی فوجوں کے خلاف چھاپہ مار جنگ یا دہشت گردی کہتے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ بھارت مذاکرات سے گریزاں ہے حالانکہ دنیا کہہ رہی ہے کہ کشمیر کا حل مذاکرات ہیں۔

مقبول خبریں