ٹھیکیداری نظام

ٹھیکیداری نظام غالباً پاکستانی صنعتکاروں کی ایجاد ہے۔


Zaheer Akhter Bedari March 19, 2019
[email protected]

ٹریڈ یونین میں کام کرنے والے بعض کارکنوں کا کہنا ہے کہ صنعتی علاقوں سے آزاد ٹریڈ یونینزکا صفایا ہوچکا ہے جو ٹریڈ یونین موجود ہیں وہ پاکٹ ٹریڈ یونین ہیں ، جو عموماً مالکان سے مل کر اپنا کام چلاتے ہیں ۔ مزدوروں کی آزاد ٹریڈ یونینز ملوں کارخانوں سے غائب ہوگئی ہیں۔ اس پر قیامت یہ ہے کہ ٹھیکیداری نظام نے مزدوروں کو غلام بناکر رکھ دیا ہے۔ ٹھیکیداری نظام غالباً پاکستانی صنعتکاروں کی ایجاد ہے۔

پاکستان میں تین چوتھائی سے زیادہ عرصہ پاکٹ یونینوں پر مشتمل رہا ہے، جس کے نتیجے میں مزدور عملاً غلاموں کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ملوں کارخانوں میں خوف و ہراس کا عالم یہ ہے کہ جو مزدور ٹریڈ یونین کا نام لیتا ہے، اسے گیٹ سے باہرکردیا جاتا ہے۔ ٹھیکیداری نظام نافذ کرکے مالکان نے اپنی تمام ذمے داریاں ٹھیکیداروں کے حوالے کردی ہیں، کسی مزدور کی یہ مجال نہیں کہ وہ ٹھیکیدار کے حکم کی تعمیل نہ کرے۔

اس حوالے سے تمام متعلقہ ادارے مزدوروں کے استحصال میں شامل ہیں، خاص طور پر لیبر ڈیپارٹمنٹ مالکان کے ملازموں جیسا فریضہ انجام دے رہے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ مزدور غلاموں کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اس قسم کے حالات کا پیدا ہوناسرمایہ دارانہ نظام میں کوئی حیرت کی بات نہیں۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ہمارے لیبر منسٹر اس قدر مصروف ہیں کہ انھیں مزدوروں کے شب وروز کا اندازہ نہیں۔ صنعتکاروں کی دوست ٹریڈ یونینوں کی وجہ سے مزدوروں کے جائز مطالبات بھی سردخانوں میں چلے جاتے ہیں اور مزدور اپنے جائز مطالبات کی منظوری سے بھی محروم رہ جاتا ہے۔

اس قسم کی صورتحال 1789 میں فرانس میں بھی پیدا ہوئی تھی۔ ٹریڈ یونین نام کی کوئی چیز فرانس میں نہیں تھی، مالکان اپنی مرضی کے مالک تھے، سرکار دربارکے روزینہ مقرر تھے، وہ اپنا حق وصول کرکے ایک طرف ہوجاتے تھے،انتظامیہ نے غنڈے پال رکھے تھے جو مزدوروں کو سر اٹھانے نہیں دیتے تھے۔ سارا ملک شاہانہ شکنجے میں جکڑا ہوا تھا۔ رعایا میں کسی کی مجال نہ تھی کہ بادشاہ وقت کے خلاف زبان کھولے، ملک میں بدنظمی کا حال یہ تھا کہ ججزکے عہدے خریدے اور بیچے جاتے تھے ،اس کلچر کا نتیجہ یہ تھا کہ پورا ملک گھٹن کا شکار تھا ،کوئی کسی مظلوم کی داد رسی کرنے والا نہ تھا۔ اس صورتحال کی وجہ یہ تھی کہ عدالتوں کے ججوں کے عہدے بیچے اور خریدے جاتے تھے، عوام بدحالی کے شکار تھے، ہر طرف خوف اور گھٹن کا دور دورہ تھا۔

اس دوران یکم مئی کا دن آیا، بپھرے ہوئے مزدور سڑکوں پر نکل آئے اور اپنے حقوق کے حصول کے لیے سڑکوں پر مظاہرے کرنے لگے۔ سرکار کے باوردی غلاموں نے مظاہرین کو روکنا چاہا لیکن بپھرے ہوئے مظاہرین نے سرکاری غلاموں کی بات ماننے سے انکار کردیا۔ سرکاری غلاموں کو مزدوروں کی اس گستاخی پر غصہ آگیا اور انھوں نے نہتے مزدوروں پرگولیوں کی بوچھاڑ کردی ۔ ہر طرف مزدوروں کی لاشیں ہی لاشیں بکھر گئیں ، پیرس کی گلیوں میں نالیوں میں مزدوروں کا خون بہنے لگا۔ لیکن سرکاری اہلکاروں کے ہاتھ نہیں رکے۔ اس طرح یکم مئی مزدور تاریخ کا سیاہ باب بن گیا ۔کئی مزدوروں کو پھانسیاں دی گئیں، یہ مزدور تاریخ کا سیاہ دن تھا، مزدوروں نے اپنے قمیصوں کو نالیوں میں بہتے ہوئے مزدوروں کے خون میں رنگ لیا۔ اس سانحے کے بعد مزدوروں نے اپنے کپڑے مزدوروں کے خون میں رنگ لیے، یوں ساری دنیا میں سرخ پرچم مزدوروں کی پہچان بن گیا۔

اس کے بعد سے یکم مئی کو مزدوروں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی بڑی دھواں دھار مزدور تحریکیں چلائی گئیں۔ 1963 کی مزدور تحریک کے بعد بھٹو دور میں کراچی میں دو معروف مزدور تنظیمیں قائم ہوئیں۔ ایک متحدہ مزدور فیڈریشن دوسری لیبرآرگنائزنگ کمیٹی تھی، سائٹ میں متحدہ مزدور فیڈریشن قائم کی گئی اور لانڈھی کورنگی کے صنعتی علاقوں میں لیبر آگنائزنگ کمیٹی قائم کی گئی، یہ دونوں مزدور تنظیمیں بہت لڑاکا تھیں، ان تنظیموں کے ساتھ کراچی کی ٹریڈ یونین تیزی سے جڑنے لگیں اور یہ اپنے وقت کی مشہور لڑاکا تنظیموں کی حیثیت سے جانی جانے لگیں۔ ہزاروں نہیں لاکھوں مزدور ان دونوں تنظیموں سے جڑ گئے۔

صنعتی انتظامیہ نے ایوب خان کے زمانے سے بھٹو کے دور تک مزدوروں پر جو مظالم ڈھائے اس کا نتیجہ یہ تھا کہ مزدور بہت مشتعل تھے لیکن مزدوروں کی قیادت نے انھیں قابو میں رکھا ورنہ ماضی کے مظالم کا ردعمل بڑا شدید ہوتا تھا۔ یحییٰ خان اور بھٹو کے ابتدائی دور میں مزدور بہت مشتعل تھے لیکن سمجھدار اور دور اندیش قیادت نے انھیں آؤٹ آف کنٹرول ہونے نہیں دیا، یوں کراچی کے صنعتی علاقوں میں امن قائم رہا جس کریڈٹ متحدہ مزدور فیڈریشن اور لیبر آرگنائزنگ کمیٹی کی اعلیٰ تعلیم یافتہ قیادت کو جاتا ہے۔

آج ہم جام صادق پل سے گزر رہے تھے کہ ایک مزدور کو لنگڑاتے ہوئے دیکھ کر ہمارا ماتھا ٹھنکا، شکل پہچانی سی لگتی تھی، نام ذہن میں نہیں آرہا تھا لیکن اتنا یاد آرہا تھا کہ وہ دوست کسی یونین کا متحرک عہدیدار تھا۔ میں اس سے مل کر بات کرنا چاہتا تھا لیکن وہ دیکھتے دیکھتے ٹریفک میں گم ہوگیا۔ 1972 میں درجنوں مزدور ہڑتال کے جرم میں پولیس کی گولیوں میں گم ہوگئے تھے، آج 50 سال بعد ایک پرانا دوست ٹریفک کی بھیڑ میں گم ہوگیا۔

1969 میں یحییٰ خان کے دور میں سیکڑوں مزدوروں اور طالب علموں کو گرفتار کرکے جیلوں میں ٹھونس دیا گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو لوگ (مزدور) زندگی کی ضرورتوں کی ہر چیز اپنی محنت سے تیار کرتے ہیں، وہ اور ان کے بچوں کو دو وقت کی روٹی کے لیے دن بھر محنت کرنا پڑتی ہے اور آبادی دولت اور بینکوں سے لون لے کر فیکٹریاں لگانے والے ہر سال دو سال میں ایک اور فیکٹری کھڑی کرلیتے ہیں۔ کیا یہ انصاف ہے یا ظلم اگر ظلم ہے تو ظالموں کے خلاف کیا کوئی ادارہ کوئی ایکشن لے رہا ہے؟

70 سال تک ملک بدترین اشرافیہ کے پنجوں میں پھنسے رہنے کے بعد اب پہلی بار ایک مڈل کلاسر کی قیادت میں آیا ہے۔ مزدور اور کسان ملک و قوم کی ریڑھ کی ہڈی ہیں ملکی ضرورتوں کو اپنی محنت سے پورا کر رہے ہیں اور ان کا حال یہ ہے کہ وہ ٹھیکیداروں کے غلام بنے ہوئے ہیں عمران خان کیا اتنا نہیں کرسکتے کہ مزدوروں کو ٹھیکیداری نظام سے نجات دلائیں اور پاکٹ یونینز کو ختم کریں مزدوروں کی نمایندہ یونینوں کو کام کرنے دیں۔

مقبول خبریں