مہمان، بارش اور بیٹی!

شیریں حیدر  اتوار 7 جولائی 2019
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

’’ بیوی بات ہو سکتی ہے آپ سے ؟ ‘‘ صاحب کی آواز پر میں نے اپنی کتاب کے مسودے کی پروف ریڈنگ کرتے ہوئے سر اٹھا کر انھیں سوالیہ نظر سے دیکھا۔ دماغ میں فوراً صبح سے لے کر اس وقت تک کے واقعات ناچ ناچ کر نظروں کے سامنے سے گزرنے لگے مگر کوئی قابل گرفت چیز یاد نہ آئی۔ صاحب کے اس فقرے کا مطلب ہوتا ہے کہ کوئی غلطی ہوئی ہے اور اب اس پر چینی چڑھا کر ڈانٹ پڑنے والی ہے۔

میرا فقرہ، ’’ بات سنیں صاحب ! ‘‘ کا مطلب ہوتا ہے کہ کوئی تمہید باندھ کر مالی امداد مانگنا مطلوب ہوتی ہے مگر صاحب کے اس فقرے میں موضوعات کی وسعت ہے کہ میرے لیے گھر چلانے والے معاملات کا ایک وسیع ذخیرہ ہے اوراس میںسے کسی بھی بات میں غلطی کا امکان تھا۔

’’ جی؟؟‘‘ میں نے پنسل اور کاغذات کا پلندہ ہاتھ سے رکھ دیا۔

’’ کل آپ نے… ‘‘ آغاز ہوا تو میں اور بھی پریشان ہو گئی کہ کل سے جو کچھ پک رہا تھا اس کا مواد تو اور زیادہ ہو گا اور مسئلہ کوئی اتنا گھمبیر ہے کہ کل سے سوچا جا رہا تھا کہ بات کی جائے یا نہیں، میرے چہرے پر سوالیہ کے ساتھ تفکر کے تاثرات بھی شامل ہو گئے۔

’’ جانتی ہیں نا آپ کہ مہمان رحمت ہوتے ہیں… آپ نے ان کی خاطر مدارات بھی کر دی مگر ساتھ ہی انھیں جتلا بھی دیا کہ…اللہ تعالی کو یہ بات کتنی بری لگی ہو گی! ‘‘

’’ معذرت خواہ ہوں کہ آپ کو میرا رویہ اتنا برا لگا کہ آپ نے رات بھر اس کی پرورش کی مگر آپ کہہ چکے ہوں تو میں بھی کچھ وضاحت کردوں ؟ ‘‘ میں نے اسی لہجے میں کہا جس لہجے میں درباری کہتے ہیں ، ’’ جان کی امان پاؤں تو عرض کروں ! ‘‘

’’ جب آپ نے ان کے لیے کھانا بھی جلد ازجلد تیار کر لیا اور اچھا خاصا کر لیا تو کھانے کے بعد بطور سویٹ ڈش آپ وہ فقرہ نہ کہتیں تو اچھا ہوتا ! ‘‘ نرم لہجے کی ڈانٹ کی اپنی ’’ تاثیر ‘‘ ہوتی ہے اور اسے شوہروں سے بہتر اور کوئی نہیں جانتا۔

’’ صاحب درجنوں سالوں کا ساتھ اور آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ مہمان کو کبھی زحمت نہیں سمجھا کہ ہمارے مذہب میں مہمان ، بارش اور بیٹی کو رحمت کہا گیا ہے مگرجب حالات نارمل نہ ہوں ، کسی پر مشکل وقت ہو تو مہمانوں کو بھی چاہیے کہ وہ اس بات کا خیال رکھیں ۔ میں نے کسی کو گالی دی نہ ماتھے پر بل ڈالے نہ لوٹ جانے کا کہا، ایک فقرہ جو آپ کو نا مناسب بلکہ برا لگا وہ یہی تھانا کہ وہ کم از کم اپنے گاؤں سے نکلتے ہوئے، تب نہ سہی تو دو گھنٹے پہلے اور وہ بھی نہ سہی تو میری والدہ کو اسپتال سے دیکھ کر نکلتے ہوئے جب ان کا ارادہ بنا کہ وہ ہماری طرف آئیں تو اس وقت وہ ایک فون کال کر دیتے… ‘‘ کون نہیں جانتا کہ اس وقت ہم کن حالات میں ہیں، کس نوعیت کی مشکل ہے اور کسی کا اس وقت آنا جب کہ میں تیار ہو کر والدہ کے لیے مائع خوراک لے کر اسپتال جانے والی تھی، عین اس وقت، جب میں نے بیرونی دروازے کا رخ کیا تو وہ ملازم کے ساتھ اندر آ رہے تھے۔

دن کے پونے دو بجے اگر آپ کے ہاں تین چار گھنٹے کی مسافت والے گاؤں سے پانچ مرد مہمان آ جائیں ، یہ بھی معلوم ہو کہ وہ اسپتال سے ہو کر آئے ہیں اور انھوں نے کھانا نہیں کھایا ہو گا۔ میں نکل رہی تھی، رک گئی، ذہن میں گھوڑے دوڑائے کہ کیا کیاجائے کہ ہم دن میں دو میاں بیوی گھر پر ہوتے ہیں، میرا نفلی روزہ تھا، یوں بھی معمول میں ہمارے ہاں دوپہر کے کھانے کا کوئی تصور نہیں ہے ۔ ان کے آتے ہی میں نے فرج چیک کیا اور روشنی کی رفتار سے گوشت کا سالن بنایا، انھیں کھانا پیش کیا۔ والدہ کا کھانا لیجانے میں تاخیر نہ ہو اس کے لیے اسی بھائی کو بلوا کر دوبارہ اسپتال بھیجا جو اسی وقت اپنی ڈیوٹی پوری کر کے واپس لوٹا تھا۔ صرف ان سے اتنا کہہ دینا کہ ایک فون کال کر دیتے تو بہتر ہوتا۔ ان میں سے چند باہر کے ملکوں میں برس ہا برس سے رہ رہے ہیں ، ایک ایسے ہیں جو اپنا اسکول چلاتے ہوئے قوم کے مستقبل کی ایسی تعمیر کر رہے ہیں ۔

برا تو آپ کو اور ان کو تب لگتا جب میں اپنے معمول میں مداخلت پر احتجاج کرتے ہوئے کھانا لے کر اسپتال چلی جاتی اور سوچتی کہ کون سا وہ بتا کر آئے ہیں، یا پھر ایک دن پہلے کی بنی ہوئی سبزی اور دال ان کے سامنے رکھ دیتی اور بعد میں آپ اس بات پر ڈانٹتے کہ ان کے سامنے گوشت کیوںنہیں رکھا کہ ہمارے ہاں تواضع کا مطلب فقط گوشت کھلانا ہوتا ہے ۔ میں نے روزے کی حالت میں ، شکر دوپہر میں ایمرجنسی میں نہ صرف ان کے لیے تازہ سالن بنایا ، اپنی ماں سے ملنے بھی نہ جا سکی تھی اس روز، انھیں انتہائی نرمی اور تمیز سے یہ کہنا کہ وہ ایک فون کال کر کے اطلاع کر دیتے ، اس لیے تھا کہ آیندہ وہ اس بات کا خیال رکھیں گے!! ‘‘

’’ ہاں جیسے آپ کے کہہ دینے سے وہ اپنی روش بدل دیں گے!! ‘‘

’’ چلیں اگر وہ اپنی روش نہیں بدلیں گے تو میں اپنی روش کیوں بدلوں، مجھے معاشرے کی اصلاح کا جنون ہے سو اس کے لیے مجھ سے جو ہو سکتا ہے وہ میں کرتی رہوں گی!! ‘‘

’’ پھر بھی مہمان… ‘‘ وہ گویا ہوئے۔

’’ رحمت ہوتے ہیں!! ‘‘ میں نے ان کا فقرہ اچکا، ’’ مجھے پورا یقین ہے اس بات پر کہ مہمان ، بارش اور بیٹی اللہ کی رحمت ہوتے ہیں ۔ بارش جیسی رحمت بھیجتے ہوئے بھی اللہ تعالی ہمیں پہلے سے اطلاع کرتا ہے کہ ہم اپنی تیاری کر لیں ۔ کسی نے کہیں جانا ہے تو چھتری ساتھ لے لے، کپڑے دھو کر دھوپ میں پھیلانے ہیں کہ نہیں، کوئی گندم یا دالیں دھو کر سکھاتا ہے کوئی مسالہ جات، کسی نے بستروں اور بے موسم کے کپڑوں کو دھوپ لگوانا ہے تو وہ ایک نظر آسمان کو دیکھ لے۔ اب تو موسم کی apps ہمیں الرٹ کر دیتی ہیں مگر جب یہ سب کچھ نہیں تھا تو انسان اپنی عام نظر سے دیکھ کر مطلع صاف یا ابر آلود ہونے پر فیصلہ کر لیتا تھا ۔ بارش سے پہلے بادل آتے ہیں، بادل جمع ہونے میں کافی وقت لیتے ہیں، گرج چمک سے اطلاع ہو جاتی ہے کہ بارش کافی ہو گی تو اسی حساب سے ہم اپنے گھروں کی کھڑکیاں ، دروازے، نالیاں اور پرنالے چیک کرلیتے ہیں۔ جتنی بھی تیز رفتاری سے بارش آئے مگر کبھی بے بادل نہیں برستی۔

بیٹی جسے دنیا کی سب سے بڑی رحمت کہا جاتا ہے، یا بیٹا جسے نعمت کہا جاتا ہے… یعنی کوئی بھی اولاد دیتے وقت اللہ تعالی ہمیں کم از کم دو سو ستر دن پہلے بتا دیتا ہے کہ ہم اس کے لیے تیار ہو جائیں ۔ رزق اس کی نعمت ہے، فصلوں اور پھلوں جیسی اپنی ساری نعمتیں وہ ہمیں پہلے سے بتا کر دیتا ہے۔

مہمان بھی اس کی رحمت ہیں ، اس میں کسے شک نہیں مگر ظاہر ہے کہ اس نے ہمیں شعور دیا ہے کہ ہم جب کہیں مہمان ہونا چاہیں تو اس سے متعلقہ ہمارے کچھ فرائض ہیں۔ اللہ تعالی نے ہمیں ذہن دیا ہے ، مہمانوں کی اطلاع دینے کے لیے کوئی صور اسرافیل جیسا نظام نہیں رکھا ہے بلکہ مہمان پر ہی لازم ہے کہ وہ میزبان کے حقوق کا خیال رکھے اور میزبان کے حقوق ہیں کہ

… اسے آنے والا پیشگی اطلاع دے کر آئے۔

… اس کی مصروفیت کے بارے میں دریافت کرے کہ اسے کوئی ذاتی مصروفیت تو نہیں ۔

… اگر آپ فون کریں اور کوئی فون کا جواب نہ دے تو اسے اس بات پر ہرگز محمول نہ کریں کہ آپ کی طرف سے سمجھو اطلاع ہو گئی ہے۔ یہ اسی طرح ہے کہ جس طریقے کی سنت میں وضاحت کی گئی کہ اگر تم کسی کے گھر جا کر دستک دو اور تین بار دستک دینے پرکوئی جواب نہ آئے تو واپس لوٹ جاؤ۔ یہ نہیں کہ فون کال یا پیغام کا جواب نہیں آیا تو اس کا مطلب ہے کہ آپ نے پھر بھی ضرور جانا ہے۔

… کسی کے گھر کے قریب جا کراچانک خیال آ جائے کہ چلو گزرتے ہوئے ہوتے چلتے ہیں تو بھی انھیں کال کر کے چیک کرلیں کہ وہ گھر پر ہیں کہ نہیں، فارغ ہیں کہ نہیں اور یہ کہ آپ ان کے کسی پروگرام میں مخل تو نہیں ہو رہے ہیں۔ اگر وہ موجود ہوں اور آپ کو خوش آمدید کہہ رہے ہوں تو بھی یوں ہی باہر وقت گزار لیں اور انھیں تھوڑا وقت دے دیں کہ وہ آپ کی میزبانی کے لیے تیار ہو سکیں۔

کوئی کتنا اچھا میزبان ہے، اس کاانحصار اس بات پر ہے کہ آپ کتنے اچھے مہمان ہیں۔ اللہ نے اگر مہمان کو رحمت کہا ہے تو اسے رحمت ہی رہنے دیں ، اس کی ’’ ر ‘‘ میں ایک نقطے کا اضافہ نہ کریں ۔ شکریہ!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔