تقسیم آب کا ابتر نظام : کراچی ضرورت کے مطابق پانی سے محروم

سید اشرف علی  پير 29 جولائی 2019
سندھ حکومت اور واٹر بورڈ کی غفلت، فراہمی آب کا نظام13سال سے اپ گریڈ کیا گیا اورنہ ہی اضافی پانی کی کوئی اسکیم مکمل کی جاسکی
 فوٹو :فائل

سندھ حکومت اور واٹر بورڈ کی غفلت، فراہمی آب کا نظام13سال سے اپ گریڈ کیا گیا اورنہ ہی اضافی پانی کی کوئی اسکیم مکمل کی جاسکی فوٹو :فائل

کراچی:  تقسیم آب کے ابترنظام کے باعث کراچی ضرورت کے مطابق پانی سے محروم ہے، ضرورت918ایم جی ڈی ہے جبکہ سپلائی صرف406ایم جی ڈی ہے، پمپ ہاؤسز تک 580ایم جی ڈی پانی پہنچتا ہے،30فیصدپانی ضائع ہوجاتاہے، سندھ حکومت اور واٹر بورڈ کی غفلت کے باعث فراہمی آب کا نظام13سال سے اپ گریڈ کیا گیا اورنہ ہی اضافی پانی کی کوئی اسکیم مکمل کی جاسکی، ایم ڈی واٹر بورڈ کاکہناہے کہ شارٹ فال512ایم جی ڈی ہے۔

کراچی کے شہری گذشتہ کئی سال سے اپنے جائز منظور کردہ پانی کے شیئر سے محروم ہیں اور ایک عشرے سے پانی کے بدترین بحران کا شکار ہیں۔ دریائے سندھ اور حب ڈیم سے کراچی کو مجموعی طور پر 750ملین گیلن پانی یومیہ فراہم ہونا چاہیے تاہم واٹر بورڈ کے نہری نظام میں گنجائش نہ ہونے، دھابے جی پمپمنگ اسٹیشن کے پمپس میں استعداد کی کمی کی وجہ سے کراچی کے پمپ ہاؤسز تک صرف580ایم جی ڈی (million galon per day)پانی پہنچتا ہے۔ واٹر ڈسٹری بیوشن سسٹم میں30فیصد پانی کے زیاںکی وجہ سے 174ایم جی ڈی پانی کراچی کو نہیں مل پاتا جس کے سبب صرف406 ایم جی ڈی واٹر بورڈکے سسٹم میں باقی رہ جاتا ہے۔

سندھ حکومت اور واٹر بورڈ کی غفلت کی وجہ سے فراہمی آب کا نظام 13سال سے اپ گریڈ کیا گیا اورنہ ہی اضافی پانی کی کوئی اسکیم مکمل کی جاسکی ہے۔ واٹر بورڈ انتظامیہ اپنے کمزور ڈسٹری بیوشن سسٹم کے ذریعے2کروڑ سے زائد آبادی والے شہر میں پانی کی یہ معمولی مقدار گھریلو، کمرشل و انڈسٹریل صارفین میں تقسیم کرتی ہے جس کی اگرچہ کوئی جامع و مستند رپورٹ نہیں بنائی گئی ہے تاہم پانی کی فراہمی بیشتر بلک کنزیومرز کو میٹرز نصب کرکے اور 6 اضلاع کے تمام رہائشی علاقوں یعنی ریٹیل کنزیومر کو بغیر میٹر کی جاتی ہے، کچھ بلک کنزیومر کوبھی بغیر میٹر پانی کی فراہمی کی جاتی ہے، وہ رہائشی و کمرشل علاقے جہاں بغیر میٹر پانی کی فراہمی کی جاتی ہے وہاں پانی کی مقدار معلوم کرنے کے لیے پائپ کے سائز، پانی کی رفتار اور ٹائمنگ کا فارمولا استعمال کیا جاتا ہے، ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت واٹر بورڈ کے پائپ لائن سسٹم سے کراچی کے صنعتی و کمرشل کنزیومرز کو 32.5ایم جی ڈی اور کراچی کے شہریوں کو355.5ایم جی ڈی پانی فراہم ہورہا ہے۔

شہر میں ٹینکرز سروسز کے ذریعے 18ایم جی ڈی پانی رہائشی علاقوں اور کمرشل مقامات کے لیے فراہم ہوتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ٹینکرز سروسز کے ذریعے رہائشیوں کو صرف8ایم جی ڈی پانی فروخت کیا جاتا ہے جبکہ بقیہ10ایم جی ڈی پانی کمرشل کنزیومرز کو فروخت ہوتا ہے۔ اس طرح کراچی کے شہریوں کو مجموعی طور پر 363.5ایم جی ڈی پانی گھریلو استعمال کے لے فراہم کیا جارہا ہے اور کمرشل و انڈسٹریز کو42.5ایم جی ڈی پانی فراہم ہورہا ہے۔ واٹربورڈکے ایک انجینئر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ واٹر بورڈ کا فراہمی آب کا پورا نظام میٹر کے تحت نہیں ہے اس لیے بالکل درست اعداد وشمار کا تعین مشکل ہے میٹرزbaseبلک کنزیومرز میں کمرشل و انڈسٹریز، وفاقی و صوبائی سرکاری ادارے، رہائشی علاقے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی، کنٹونمنٹ بورڈز، پرائیویٹ سوسائٹیز، ہائی رائز بلڈنگز، سرکاری رہائشی کالونیاں وغیرہ شامل ہیں، ان بلک کنزیومرز کو پائپ لائن سسٹم سے126ایم جی ڈی پانی فراہم کیا جارہا ہے اور6اضلاع کے18ٹاؤن کے رہائشیوں کو پائپ لائن سسٹم سے262ایم جی ڈی پانی فراہم کیا جارہا ہے۔

ان18ٹاؤن میںکہیں بھی میٹرز نصب نہیں ہیں، بلک کنزیومرزکوکمرشل اور رہائشی میں اگر مزید تقسیم کیا جائے تو کمرشل و انڈسٹریز کو 32.5ایم جی ڈی اور رہائشیوں علاقوں کو93.5ایم جی ڈی پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ گذشتہ دنوں وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے کراچی میں پانی کے بحران کے حوالے سے تمام اسٹیک ہولڈرز کی کانفرنس طلب کی تھی جس میں فراہمی آب کے جو اعداد وشمار پیش کیے گئے ہیں اس کے تحت 406ایم جی ڈی پانی فراہم ہورہا ہے تاہم اس کانفرنس میں سندھ حکومت نے یہ بتانے کی زحمت نہیں کی کہ پانی کے اس بحران کا ذمے دار کون ہے۔

اتنا عرصہ گذر جانے کے باوجود فراہمی آب کا نظام بہتر کیوں نہیں کیا جارہا، سابق صدر جنرل پرویزمشرف کے دور میں وفاقی حکومت کی معاونت سے سابق ناظم مصطفیٰ کمال کی زیرنگرانی فراہمی آب کا عظیم منصوبہK-III تقریباً13سال قبل مکمل کیا گیا جس کی بدولت100ایم جی ڈی پانی کراچی کو فراہم کیا جارہا ہے، اس کے بعد فراہمی آب کا کوئی منصوبہ ابھی تک مکمل نہیں کیا گیا، 65ایم جی ڈی فراہمی کا منصوبہ ، دھابے جی پر نئے پمپ ہاؤس کا منصوبہ2سال سے سست روی کا شکار ہے، حب کینال کی تعمیر ومرمت کا کام آج تک شروع نہیں ہوسکا، کینجھر جھیل سے پانی کی مقدار بڑھانے کے لیے سائفن ون سے دھابے جی پمپ ہاؤس تک 13کلومیٹر کی لائن کی تنصیب کرنی ہے۔

اس پر ابھی تک پی سی ون ہی تشکیل نہیں دیاجاسکا، پانی چوری اور لائنوں میں رساؤ کو ختم کرنے کے لیے بھی کوئی قابل ذکر اقدام نہیں کیا جارہا۔ پیپلزپارٹی نے وفاق میں 5 سال حکومت کی اور سندھ میں11سال سے حکومت کررہی ہے اس دوران کراچی کے لیے ایک قطرہ پانی کا اضافہ نہیں ہوسکا۔واٹر بورڈ سے ملنے والے دستاویزات اور متعلقہ انجیئنرز کے مطابق کینجھر جھیل کے ذریعے واٹر بورڈ کا منظور کردہ کوٹا650ایم جی ڈی ہے تاہم نہری نظام میں گنجائش نہ ہونے اور دھابے جی اسٹیشن میں پمپس میں استعداد کی کمی کی وجہ سے کراچی کے گیٹ وے تک صرف494ایم جی ڈی پانی فراہم ہورہا ہے جس میں دھابے جی پمپنگ اسٹیشن کو 450ایم جی ڈی ، گھارو پمپنگ اسٹیشن کو30ایم جی ڈی، نہری نظام کے ذریعے براہ راست پاکستان اسٹیل مل کو 9ایم جی ڈی اور پورٹ قاسم اتھارٹی کو5ایم جی ڈی پانی فراہم کیا جا رہا ہے، گذشتہ مہینوں بلوچستان میں بارشوں کے سبب حب ڈیم کا لیول300فٹ تک بڑھ گیا ہے ، اس ذخیرے کی وجہ سے تقریباً 4سال کے بعد حب ڈیم سے کراچی کے لیے100ایم جی ڈی پانی فراہم کیا جارہا ہے لیکن حب کینال کی خستہ حالی اور ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے بڑی مقدار میں پانی ضائع ہوجاتا ہے۔

ایم ڈی واٹر بورڈ اسد اللہ خان نے پانی کے بحران کے حوالے سے ایکسپریس کو بتایاکہ واٹر بورڈشہر سے پانی کا بحران ختم کرنے میں سنجیدہ ہے،کراچی کے لیے پانی کی ضرورت 918ایم جی ڈی ہے اور شارٹ فال512ایم جی ڈی ہے۔ ایم ڈی واٹر بورڈ نے کہاکہ دھابے جی پمپ ہاؤس کی استعداد بڑھانے کے منصوبے پر ترقیاتی کام تیزی سے جاری ہے، یہ منصوبہ رواں سال ستمبر میں مکمل کرلیا جائے گا جس کے بعد 40ایم جی ڈی پانی کی فراہمی میں بہتری آئے گی، 65ایم جی ڈی منصوبے کے2ترقیاتی پیکجز پر کام جاری ہے اور نظرثانی شدہ پی سی ون سندھ حکومت کو منظوری کے لیے بھیجی جاچکی ہے جیسے ہی منظوری ملتی ہے بقیہ پیکیجز پر بھی ترقیاتی کام شروع کردیا جائے گا اور کوشش کی جائے گی کہ جلد یہ منصوبہ مکمل کرلیا جائے۔

اسد اللہ خان کا کہنا ہے کہ وزیر بلدیات سعید غنی فراہمی آب کے منصوبوں کی تکمیل کے لیے خصوصی دلچسپی لے رہے ہیں بالخصوص ان کی ہدایت پر کینجھر جھیل سے ملنے والے پانی کی مقدار کو بڑھانے کے لیے سائفن ون سے دھابے جی پمپنگ اسٹیشن تک13کلومیٹرٹرانسمیشن لائن کی تنصیب کے لیے پی سی ون بنایا جارہا ہے جسے30جولائی تک سندھ حکومت کو بھجوادیا جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔