دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑنا ہو گا

پشاور میں چرچ کے اندر 2 خود کش دھماکوں میں 81 افراد کی ہلاکت اور 150 سے زائد کے زخمی ہونے کے بعد پورے ملک کی فضا...


Editorial September 23, 2013
پاکستان دشمن قوتیں امن کے موہوم سے امکان کی لَو بھی گُل کردینا چاہتی ہیں۔ فوٹو: فائل

پشاور میں چرچ کے اندر 2 خود کش دھماکوں میں 81 افراد کی ہلاکت اور 150 سے زائد کے زخمی ہونے کے بعد پورے ملک کی فضا سوگوار ہو گئی ہے۔

اس سانحے کے خلاف وفاقی حکومت اور خیبر پختونخوا حکومت نے تین روزہ سوگ اور بشپ آف چرچ نے ملک بھر میں مشنری اسکولز اور چرچ تین روز کے لیے بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ بشپ نے سانحہ پشاور کی مذمت کرتے ہوئے ہدایت کی کہ ہر شہر میں گرجا گھر اپنی سیکیورٹی کا خود ذمے دار ہو گا۔ سانحہ پشاور پر مسیحی برادری نے ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے کیے اور دہشت گردوں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔اس موقع پر صدر بشپ چرچ آف پاکستان نے کہا کہ پرامن احتجاج ہمارا حق ہے۔انھوں نے مظاہرین سے اپیل کی کہ وہ توڑ پھوڑ نہ کریں۔

حیرت انگیز امر ہے کہ حکومت کی طرف سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا اعلان ہوتے ہی دہشت گردوں نے اپنی مذموم کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔ انھوں نے اپر دیر میں ایک بارودی سرنگ دھماکے میں اعلیٰ فوجی افسروں کو شہید کرکے مذاکرات کے عمل کو شروع ہونے سے قبل ہی سبوتاژ کرنے کی کوشش کی۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق پشاور کے چرچ میں دھماکا کر کے دہشت گردوں نے حکومت کے خلاف طبل جنگ بجا دیا ہے اور یہ قیام امن کے لیے کی جانے والی کوششوں کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی ہے۔

جندل الحفصہ نامی ایک تنظیم نے سانحہ پشاور کی ذمے داری قبول کی ہے البتہ کالعدم تحریک طالبان نے اس دھماکے سے لا تعلقی کا اظہار کیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق طالبان ذرایع کا کہنا ہے کہ پشاور میںچرچ پر حملہ حکومت اور طالبان مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی سازش ہے۔ چرچ حملے سے تحریک طالبان کے لاتعلقی کے اظہار کے بعد اس امکان کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ یہ سازش کسی اور گروہ نے تیار کی جو پاکستان میں نفرت اور تشدد کو ہوا دے کر یہاں حالات خراب کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان میں مسیحی برادری ہمیشہ پر امن رہی ہے اور کبھی پرتشدد کارروائیوں میں شریک نہیں ہوئی۔ ایسے میں اس پرامن برادری کے خلاف خود کش دھماکا کرکے سازشی عناصر کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ پاکستان میں امن و امان کے حوالے سے گہری سازش ہے، سازشی عناصر نہیں چاہتے کہ حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات ہوں اور پاکستان میں دہشت گردی کا خاتمہ ہو' وہ پورے پاکستان کو جنگ کا میدان بنانا چاہتے ہیں۔ اگر حکومت نے اس سازشی گروہ پر قابو نہ پایا اور یہ گروہ اپنی مزید کارروائیاں جاری رکھنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو پاکستان میں شام اور عراق جیسے حالات پیدا ہو سکتے ہیں۔ جس کے آثار واضح ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ ایک جانب پاکستان کو ڈرون حملوں کا سامنا ہے یا حکومت کے بار بار مطالبے کے باوجود امریکا ڈرون حملے بند کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ان حملوں سے پاکستان میں دہشت گردی کو مزید ہوا مل رہی ہے جس سے حکومت کی مشکلات روز بروز بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔

کراچی جو ملک کا سب سے بڑا تجارتی شہر ہے آج زخموں سے چور چور ہے۔ سیکیورٹی ادارے آج کراچی میں دہشت گردوں' بھتہ خوروں اور ٹارگٹ کلرز کے خلاف نبرد آزما ہیں۔ بلوچستان میں آئے روز بم دھماکوں اور دہشت گردی کی کارروائیوں نے الگ سے مسائل پیدا کر رکھے ہیں۔ خیبر پختون خوا میں بم دھماکے معمول بن چکے ہیں۔ اس طرح ملک بھر میں حکومت امن و امان برقرار رکھنے کے لیے خطیر رقم خرچ کرنے پر مجبور ہو چکی ہے جو ملکی خزانے پر بہت بڑا بوجھ ہے اور اس بوجھ میں کمی کے بجائے روز بروز اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔

پشاور کے چرچ میں خود کش حملے کے فوری بعد وفاقی وزارت داخلہ کی ہدایت پر اسلام آباد سمیت ملک بھر میں مسیحی عبادت گاہوں کی سیکیورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی ہے۔ ذرایع کے مطابق محکمہ داخلہ پنجاب نے بھی صوبہ بھر کے تمام ڈویژن ہیڈ کوارٹرز کو حساس قرار دیتے ہوئے سرکاری املاک' اہم سیاسی و دینی شخصیات' سرکاری ٹرانسپورٹ' مزارات' مساجد' مدارس اور غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کے سیکیورٹی انتظامات کو روزانہ کی بنیاد پر اپ گریڈ کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔ دہشت گردی سے بچنے کے لیے حکومت ملک بھر میں سیکیورٹی کے نام پر جتنے انتظامات کرتی چلی جائے گی اس کے اخراجات میں اتنا ہی اضافہ ہوتا چلا جائے گا جس سے حکومت کے دیگر ترقیاتی منصوبے متاثر ہوں گے۔ دہشت گردی سے بچنا مسئلے کا حل نہیں بلکہ اس سے نمٹنا ہی مسئلے کا حل ہے۔

حکومت کو دہشت گردوں کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن کرنا پڑے گا۔ دہشت گردوں کو کسی بھی قیمت پر آزاد نہیں چھوڑا جا سکتا' ورنہ وہ اپنی کارروائیاں جاری رکھیں گے اور امن و امان کا مسئلہ پیدا کرتے رہیں گے۔ آخر حکومت کب تک سیکیورٹی انتظامات کر کے ان سے بچتی رہے گی۔ دہشت گردوں نے ایک پرامن برادری کو نشانہ بنا کر ملکی حالات کو بگاڑنے اور پوری دنیا میں پاکستان کا امیج متاثر کرنے کی سازش کی ہے۔ سازشی گروہ نے منصوبہ بندی کے تحت پشاور کے چرچ میں دھماکے کے لیے بھی ایسے وقت کا انتخاب کیا ہے جب وزیراعظم نواز شریف جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے امریکا روانہ ہو چکے ہیں۔

اس حملے سے وزیراعظم کے لیے عالمی رہنماؤں کو طالبان سے مذاکرات کے بارے میں اپنے موقف پر قائل کرنے میں مشکلات درپیش آ سکتی ہیں اور عالمی برادری ان پر طالبان کے خلاف آپریشن کے لیے دباؤ بڑھا سکتی ہے جس سے مذاکرات کے لیے حکومتی کوششوں کو دھچکا پہنچ سکتا ہے۔ لندن پہنچنے پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف نے بھی اسی امر کا اظہار کیا کہ پشاور دھماکے ایسے واقعات مذاکرات کے لیے نیک شگون نہیں' اے پی سی میں جو حکومت کی سوچ تھی' اس پر آگے بڑھنے سے قاصر ہیں۔

وزیراعظم نے واضح طور پر کہا کہ دہشت گرد پاکستان کا عزم کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ دہشت گردی کے ایسے واقعات سے مذاکرات کا عمل متاثر ہو سکتا ہے اور حکومت بالآخر آپریشن پر مجبور ہو سکتی ہے۔ وزیراعظم نے اس امر کا اظہار کیا کہ شدت پسندوں کے خلاف کارروائی سے متعلق فیصلہ مشاورت سے کیا جائے گا۔ وہ جماعتیں جو انتہا پسندوں کے بارے میں ہمدردی رکھتی ہیں انھیں بھی اب یہ جان لینا چاہیے کہ دہشت گرد امن کے دشمن ہیں اور وہ ملکی سلامتی کے بارے میں کبھی خیر خواہاں نہیں ہو سکتے۔ دہشت گردی حکومت کے لیے بڑا امتحان بن چکی ہے۔ وطن کی سلامتی اور بقا کے لیے تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کو ہر قسم کے اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے حکومت کے شانہ بشانہ چلنا ہو گا تاکہ دہشت گردی کے ناسور کو اس کی جڑ سے ختم کیا جا سکے۔

مقبول خبریں