نجکاری نئی ترجیحات اور معاشی ثمرات

ہ اقتصادی اہداف کے حصول کے لیے بڑے پیمانے پر نجکاری کا عمل شروع کیا جارہاہے، اسحاق ڈار


Editorial September 23, 2013
ہ اقتصادی اہداف کے حصول کے لیے بڑے پیمانے پر نجکاری کا عمل شروع کیا جارہاہے، اسحاق ڈار. اے ایف پی/فائل

وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے کہاہے کہ اقتصادی اہداف کے حصول کے لیے بڑے پیمانے پر نجکاری کا عمل شروع کیا جارہاہے۔ ایک انٹرویو میں وزیر خزانہ نے کہا کہ نئی حکومت کومعاشی بدحالی ورثے میں ملی، گزشتہ حکومت نے معاشی ترقی کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے جس کے باعث سرمایہ کاری گھٹ گئی، مالی خسارہ جی ڈی پی کے8 فیصدتک پہنچ گیا اورحکومتی قرضوں میں کئی گنااضافہ ہوا جب کہ زرمبادلہ کے ذخائر صرف خطرناک حد تک گرنے کے باعث ملک دیوالیہ کے قریب پہنچ گیا۔

اس امر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ نج کاری کا معاملہ قومی معیشت کے استحکام کے حوالے سے اقتصادی ماہرین اور اپوزیشن پارٹیز کے لیے سیاسی اور معاشی بحث و مباحثہ کے لیے ہمیشہ زرخیز رہا ہے جب کہ ملکی اقتصادیات کے نشیب وفراز پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کے دو نکتہ ہائے نظر تواتر سے نجکاری کے حق اور اس کی مخالفت میں دلائل دیتے رہے نظر آئے ہیں ۔ یہ تلخؒ سی حقیقت لیکن ملکی اقتصادیات کی تاریخ کا ایک الم ناک پہلو ہے کہ نجکاری سے لے کر خود انحصاری ، معاشی آزادی اور کشکول توڑنے کے اعلانات تک قومی اقتصادی امور کا سفینہ مالیاتی اداروں سے قرضوں کے حصول کی موجوں سے ہی لڑتا رہا ، کشکول توڑنے اور خود کفالت کی منزل تک پہنچنے کے لیے قوم ایک طویل عرصہ سے انتظار میں ہے ۔ آج بھی نجکاری کے معاملے میں حکومت سخت ترین فیصلوں کے بغیر اس اہم اقدام کو نتیجہ خیز نہیں بنا سکتی۔

اس ضمن میں پی آئی اے کے 26 فیصد شیئر بیچ کر اسے منافع بخش بنانے کا عزم خوش آیند ہے، وزیراطلاعات پرویز رشید کے مطابق قومی ایئر لائن سے کسی کو فارغ نہیں کیا جائے گا ۔ بہر حال اصل ہدف عوام کی فلاح وبہبود ہونا چاہیے تاکہ جمہوریت کے معاشی ثمرات ہر شہری کو اس کی دہلیز پر ملیں۔ اقتصادی ترقی عوام کی زندگیوں میں بنیادی تبدیلی کی نوید بنے ۔ نجکاری کا عمل بھی بلاشبہ اس تناظر میں ایک بولڈ قدم ہے کہ ماضی میں کئی ادارے قومیانے کے عمل سے حیات نو پانے کے بجائے بیمار یونٹوں کی شکل اختیار کرکے قومی خزانے پر بوجھ بن گئے ۔

اسحاق ڈار نے کہاکہ رواں مالی سال حکومت عالمی مالیاتی فنڈ کو3ارب ڈالر قرضہ واپس کرے گی،معاشی بحالی کے لیے حکومت کو بعض مشکل فیصلے کرنا پڑ رہے ہیں جس کے تحت اکتوبر سے بجلی کی قیمت میں اضافہ کیاجارہاہے،زرمبادلہ کے ذخائرمیں استحکام اور توازن ادائیگی میں بہتری کے لیے آئی ایم ایف نے6ارب60کروڑ ڈالر قرضہ دیا ہے جو حکومت کے اقتصادی اقدامات پر اطمینان کا مظہر ہے۔ بلاشبہ موجودہ حکومت کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے گردشی قرضوں سے جان چھڑائی، معاشی ترجیحات اور اہداف پر نظر ثانی کی ۔

غیر ملکی قرضوں کی ناگزیریت اپنی جگہ ، ایسے منصوبوں پر عملدرآمد کا روڈ میپ تیار ہو جس سے غیر ملکی سرمایہ کاری بڑھے اور لوگوں کو روزگار ملنے کے مواقع دسیتیاب ہوں ، قرض فری معیشت ہو، نجکاری کا تشویش ناک پہلو سرکاری ، خود مختار و نیم خود مختار اداروں اور محکموں سے وابستہ محنت کشوں اور افسران کی چھانٹی یا رائٹ سائزنگ کا خطرہ ہے۔

اس لیے بیروزگاری کے سنگین اور اعصاب شکن مسئلے سے نمٹنے کے لیے نجکاری کی بنیاد نہ صرف شفاف ہو بلکہ اس سے مزدور طبقہ کم سے کم متاثرہو، جو ادارے واقعی سفید ہاتھی بن چکے ہیں ان کومنافع بخش یونٹوںمیں تبدیل کرنے کا کوئی امکان نہیں ہے تو ان سے جان چھرائی جائے مگر بظاہر ان غیر منافع بخش اداروں کے کوڑیوں کے مول بکنے کا ہر راستہ بند ہونا چاہیے ۔نجکاری شفاف ہوگی تو ملکی و غیر ملکی سرمایہ کار آگے آئیں گے اور ادارہ جاتی تنظیم نو کے ذریعے قومی معیشت کے استحکام ، توسیع اوراحیا کا کام شروع کیا جاسکے گا۔

مقبول خبریں