خدمات پنشن یعنی وہاٹ؟

سعد اللہ جان برق  جمعـء 6 ستمبر 2019
barq@email.com

[email protected]

کیاآپ کو پتہ ہے دنیا کا سب سی میٹھا لفظ کون سا ہے، مٹھائی؟جی نہیں۔شیرینی؟ یہ بھی نہیں۔ شیروشکر؟یہ تو بالکل نہیں تو کیاحلوہ؟ حلوہ بھی نہیں تو سویٹ۔اس کا تو نام بھی مت لیجیے۔تو کیا شہد؟نہیں اس سے بھی زیادہ۔تو پھر کیاہے؟ پنشن۔ جی ہاں، پنشن وہ لفظ ہے جو زبان پر آتے ہی لگتاہے جیسے منہ میں بتاشہ سا گھلنے لگاہو بلکہ شاید پرانے زمانے میں اسے ’’تجمل حسین خان‘‘کہتے ہوں گے جس کے لیے غالب نے کہاتھا

زباں پہ بار خدایا یہ کس کا نام آیا

کہ میرے نطق نے بوسے مری زباں کے لیے

انگریزوں یعنی اس’’تجمل حسین خان‘‘ کے والدین نے تو اس کا نام صحیح رکھاتھا کہ سرکاری محکموں میں ’’خدمات‘‘ سرانجام دینے والوں کے بڑھاپے کا سہاراہو لیکن ان کے جانے کے بعد جس طرح ان کی دوسری ایجادوں کی مٹی پلید کی گئی اسی طرح ’’پنشن‘‘ کی بھی کردی گئی۔ اب اسے ’’خدمات‘‘ کے بدلے نہیں بلکہ ’’کام نہ کرنے‘‘کے عوض دیاجاتاہے کہ شاباش تم نے فلاں محکمے میں کام نہ کرکے ملک وقوم کا جو بیڑا غرق کردیاہوا ہے، یہ اس کی شاباشی بلکہ ایک اور فرق بھی ہے کہ اس زمانے میں نہ صرف لوگ ’’خدمات‘‘ سرانجام دیتے تھے اور’’کام‘‘بھی کرتے تھے اور ساتھ ہی صرف ’’تنخواہ‘‘لیاکرتے تھے۔آج کی طرح نہیں کہ خدمات (کام نہ کرکے)سرانجام دینے والوں کو تنخواہ یاد بھی نہیں رہتی کہ

کبھی فتراک میں میرے کوئی نخچیر بھی تھا

چنانچہ کام نہ کرنے کی ’’سلورجوبلی‘‘پوری کرنے کے بعد ان کے سر پرایک بڑا سا گٹھٹر کاغذ اعظم کا بھی لاددیا جاتا ہے، اس کی جگہ پر اس کی دوسری تیسری یا چوتھی نسل کو بھی بٹھا دیاجاتاہے بلکہ ذرا ہوشیار لوگ اس سے پہلے ہی اپنی اولادوں کو اچھے اچھے کام نہ کرنے کے مورچوں میں بٹھا چکے ہوتے ہیں اور اس کے بعد پنشن؟

ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں پرائے گھر میں مہمان آئیں تو ہمیں کیا۔کون سے دینے والے اپنے گھر سے دیتے ہیں اس کے لیے کالانعام ہیں نا۔جو انڈے بھی دیتے ہیں بلکہ انڈے بھی ان سے نکالے جاتے ہیں، دودھ بھی دوہا جاتاہے، اون بھی اتارا جاتاہے اور کھال بھی  مہینے میں ایک دو بار اتاری جاتی ہے۔

اس لیے اگر حکومت اپنے کام نہ کرنے والے لاڈلوں کو کام نہ کرنے کے عوض حلوائی کی دکان پر بٹھاتے ہیں تو کوئی بات نہیں ،آخر کام نہ کرکے تنخواہ اور مراعات اور’’وہ‘‘وصول کرنے کا کچھ نہ کچھ صلہ توہونا چاہیے۔لیکن سوال یہ ہے کہ ’’سرکاری‘‘تو ’’خدمات‘‘ سرانجام دے کر’’پنشن‘‘پاتے ہیں لیکن یہ جو ’’ترکاری‘‘ہوتے ہیں کسان،مزدور،معمار،لوہار،موچی،جلاہے،ترکھان وغیرہ کیا یہ ساری زندگی’’جھک‘‘مارتے رہتے ہیں جن کا ایڑی کا پسینہ چوٹی تک اور چوٹی کا خون ایڑی تک روزانہ بہتاہے۔خون کا سوتا اور پسینے کی چاندی بہابہاکرکسی بھی اوقات کار یا اوورٹائم یا قاعدے کلیے کے مطابق خوار ہوتے رہتے ہیں۔

یہ کچھ بھی نہیں کرتے؟ان کی کوئی خدمات ہوتی نہیں ہیں، کیا یہ مندر میں جھاڑو لگاتے ہیں؟اور جن کی ریٹائرمنٹ کی بھی کوئی لمٹ نہیں ہوتی، اکثر تو کانپتے ہاتھوں، لرزتے پیروں اور ہلتے ہوئے جسموں کے ساتھ آخری سانس تک لگے رہتے ہیں ،کیاان کی یہ’’خدمات‘‘کسی اور ملک کے لیے ہوتی ہیں؟ بڑے مزے کا قاعدہ کلیہ ہے کہ ’’کام نہ کرنے‘‘پر تو ایک بہت بڑا سا گٹھٹر بھی لے آتے ہیں، اپنی اولادوں کو بھی اپنی جگہ بٹھا دیتے ہیں اور پھر پنشن پنشن پنشن؟۔بلکہ اکثر تو ’’ادھر نکلے ادھر ڈوبے ادھر نکلے‘‘یعنی سرکاریات میں صورت خورشید جیتے ہیں، ایک کے بعد ایک کرسی یہاں تک کہ تین تین پنشن بھی لیتے ہیں۔کیا یہ سورج بنسی چندر بنسی ہوتے  ہیں۔

سرکار بابا کے شہزادے ہوتے ہیں۔ یا صرف یہی اس ملک کے مالک ہیں۔کھیت میں کمر جھکا کر اور ایک ایک حرکت کے ساتھ کراہنے والے کی کچھ بھی’’خدمات‘‘نہیں ہوتیں۔ یہ سڑکیں عمارتیں اور طرح طرح کی تعمیرات میں تمام ہونے والے ’’کچھ بھی‘‘نہیں کرتے؟بلکہ اگر صحیح معنی میں دیکھا جائے تو اصل ’’خدمات‘‘ان ہی کی ہوتی ہیں ’’سرکاری خدمات‘‘ والے کہیں دکھا دیں کہ انھوں نے کبھی ایک مٹھی گندم اگائی ہے۔

کبھی ایک گڈی دھنیا یا ساگ پیدا کیاہے یا کہیں کوئی اینٹ ہلائی ہے یاسڑک پرایک روڑا رکھاہے، کل ملاکر اگر دیکھاجائے تو باتوں کے بتنگڑ بناتے اور کاغذی گھوڑے دوڑاتے رہتے ہیں۔دنیا میں اگر تمام ’’خدمات‘‘کو اکٹھا کرکے ترازو میں رکھاجائے اور دوسری طرف ایک ’’روٹی‘‘رکھی جائے تو وزن کس پلڑے کا زیادہ ہوگا۔

ہم یہ سرکاری مصنوعی نقلی اور جعلی قوانین اور اصولوں کی بات نہیں کررہے ہیں بلکہ قدرت کے بنائے ہوئے قانون کی رو سے انصاف کے طلب گار ہیں۔یہ جو عالیشان دفتر چل رہے ہیں، ادارے چل رہے ہیں، بینک چل رہے ہیں، مشینیں چل رہی ہیں، کرنسیاں اور زرو جواہرچل رہے ہیں۔ سب کے سب ایک روٹی کے برابر ہوسکتے ہیں، یہ تو تب ہوں گے جب پیٹ میں روٹی ہوگی۔اور اگریہ اپنے پیدا کرنے والوں کی طرح سستی اور ارزاں ترین روٹی کسی پیٹ میں نہ ہو تو کہاں کے بتنگڑ کہاں کے اصول وقوانین کہاں کے دماغ اور کہاں کی تھل ماریاں شیخ سعدی نے کہاتھا،

چناں قحط سالی شدانرد دمشق

کہ یاراں فراموش کردندعشق

لیکن خود مٹی ہوکر مٹی سے روٹی پیدا کرنے والے اصل ’’ان داتا‘‘کو خدمات کی پنشن توکیا جینے کا حق بھی نہیں دیاجارہاہے۔ ہم سنتے ہیں، آپ بھی سنتے اور کہتے ہوں گے۔کہ آٹا مہنگا ہے، روٹی مہنگی ہے ،گھی چینی چاول سب مہنگے ہیں، سبزی دالیں پھل سب مہنگے ہیں ظاہر کہ ان سب ’’مہنگی چیزوں‘‘کو پیدا کرنے اور فراہم کرنے ’’والے‘‘کو تو سب سے زیادہ’’مالدار‘‘ہونا چاہیے تھا۔

سیدھی سی بات ہے ایک لمحہ ٹھہر کردوبارہ سوچیے کہ اگر اس کے ہاتھ کی چیزیں اتنی مہنگی ہیں تو اس کا پیدا کرنے والا اتنا سستا کیوں ہے؟اور وہ مہنگی چیزوں کا پیسہ جاتاکہاں ہے ؟۔’’خدمات‘‘ والوں کی جیب میں اور پیٹ میں۔ کہ خدمات تنخواہ پنشن مراعات آخ تھو۔۔۔۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔