ساحلی گوٹھوں کے لائف گارڈز کسی صلے کے بغیر زندگیاں بچاتے ہیں

کاشف خان  پير 16 ستمبر 2019
ہاکس بے کے ساحل پر لائف گارڈ محمد انور فرائض کی ادائیگی کے دوران شہریوں پر نظر رکھے ہوئے ہے ۔  فوٹو : ایکسپریس

ہاکس بے کے ساحل پر لائف گارڈ محمد انور فرائض کی ادائیگی کے دوران شہریوں پر نظر رکھے ہوئے ہے ۔ فوٹو : ایکسپریس

کراچی کی ساحلی پٹی پر تفریحی مقامات کراچی کے2 کروڑ شہریوں اور ملک بھر سے آنے والے سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز ہیں۔

کراچی کے مشہور ساحلی مقامات میں سینڈز پٹ، ہاکس بے، سنہرا بیچ، مبارک ولیج، رشین بیچ شامل ہیں جبکہ کوسٹل ہائی وے پر کنڈ ملیر کا تفریحی مقام بھی عوام میں تیزی سے مقبول ہورہا ہے۔ سمندر کے کنارے پکنک منانے کا تصور ہر عمر اور طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے بہت دلفریب ہوتا ہے اور ہزاروں کی تعداد میں ان ساحلی مقامات کا رخ کرکے فیملی اور دوستوں کے ہمراہ یادگار وقت گزارتے ہیں۔

اختتام ہفتہ یہ تعداد 5 گنا تک بڑھ جاتی ہے اور ان ساحلی تفریحی مقامات پر شہریوں کا رش دیکھا جاتا ہے، ساحل پر تفریح کے دوران بعض افراد احتیاط کا دامن ہاتھ سے چھوڑ کر گہرے پانی یا تیز لہروں میں نہانے کی کوشش کرتے ہیں اور اکثر ان کی جان خطرے میں پڑجاتی ہے۔

دنیا بھر میں ساحلی مقامات پر عوام کو ڈوبنے سے بچانے کے لیے خاطر خواہ انتظامات کیے جاتے ہیں لیکن کراچی کے ساحلی مقامات پر یہ فریضہ ساحلی پٹی پر آباد مچھیروں کی بستی کے مکین انجام دیتے ہیں یہ نوجوان کسی صلے کی تمنا کے بغیر پکنک کے لیے آنے والے شہریوں کو خطرناک مقامات سے دور رہنے کی تاکید کرتے ہیں اور تیز لہروں میں گھر کر ڈوبنے کے خطرے سے دوچار افراد کی مدد بھی کرتے ہیں۔

نیوزی لینڈکے ماہرین نے گوٹھوں کے 500 لڑکوں کوتربیت دی

محمد انور نے لائف گارڈ کی حیثیت سے انسانی جانیں بچانے کے مشن کا عملی آّغاز 2004 میں کیا جب نیوزی لینڈ سے پاکستان آنے والے ماہرین نے پاکستان لائف سیونگ فاؤنڈیشن کے اشتراک سے لائف گارڈز کو تربیت فراہم کی، محمد انور کے مطابق یہ 15روز کی تربیت کا سیشن تھا جس میں کراچی کی ساحلی آبادیوں کے 500کے لگ بھگ نوجوانوں نے حصہ لیا۔

اس تربیتی کورس کے دوران تکنیکی مہارت حاصل ہوئی، یہ سیکھا کہ کس طرح ابتدائی طبی امداد دی جاتی ہے اور پانی سے باہر نکال کر ڈوبنے والے فرد کی سانسیں کس طرح بحال کی جاتی ہیں اس کے پھیپھڑوں میں اور پیٹ میں جانے والے پانی کو کس طرح نکالا جاتا ہے، لائف گارڈ کے لیے سب سے اہم اور پہلا اصول خود اپنی سیفٹی ہوتی ہے یہ بھی تربیت کا بنیادی حصہ تھا، تربیت کا یہ سیشن 15روز کے بجائے 9 روز میں مکمل کرلیا گیا کیونکہ تربیت میں شامل نوجوان پہلے سے تیراکی جانتے تھے اور سمندر کے مزاج اور ساحل کے خطرناک مقامات سے واقف تھے۔

اس تربیت کے ساتھ ہی محمد انور نے پاکستان لائف سیونگ فاؤنڈیشن سے وابستگی اختیار کرلی، پاکستان لائف سیونگ فاؤنڈیشن کی بنیاد رضا ثمر نے رکھی اور ابتدا میں دو سال تک بغیر کسی تنخواہ کے کام کیا رضا ثمر نے فاؤنڈیشن کے لیے مالی وسائل کا بیڑہ اٹھایا جبکہ ساحل پر ریسکیو کی نگرانی اور لائف گارڈز کی تربیت کی ذمے داری محمد انور کے سپرد کردی۔

لائف گارڈزکی تنخواہیں اورپی ایل ایس ایف کے پاس وسائل کم ہیں

محمد انور کے مطابق پاکستان لائف سیونگ فاؤنڈیشن انسانی جانوں کے تحفظ کے لیے کوشاں ہے لیکن اس ادارے کو مالی وسائل کی کمی کا سامنا ہے۔

جتنی تعداد میں سیاح ساحلی مقامات پر آتے ہیں اگر وہ تھوڑا تھوڑا حصہ بھی ڈالیں تو اس سلسلے کو وسیع کیا جاسکتا ہے۔ اس وقت کچھ کاروباری ادارے معاونت کررہے ہیں لیکن لائف گارڈز کی تنخواہیں اور وسائل ناکافی ہیں۔ پاکستان لائف سیونگ فاؤنڈیشن ہر سال 100کے لگ بھگ نوجوانوں کو لائف گارڈ کی تربیت فراہم کرتی ہے مالی وسائل دستیاب ہونے کی صورت میں انھیں کل وقتی لائف گارڈ بھرتی کیا جاسکتا ہے اور گڈانی سے لے کر کنڈ ملیر تک کے ساحلی مقامات کو بھی محفوظ بنایا جاسکتا ہے۔

پاکستان نیوی نے 2009میں ساحلی مقامات پر لائف گارڈز کے لیے 10پختہ واچ ٹاور تعمیر کیے تھے لیکن پانی کی سطح بلند ہونے اور موسمیاتی اثرات کی وجہ سے ان میں سے 8منہدم ہوچکے ہیں ایک ٹاور انتہائی مخدوش ہے جو کسی بھی وقت گر سکتا ہے اور صرف ایک ٹاور جو پانی سے اوپر بلندی پر واقع ہے محفوظ ہے ساحلی مقامات پر نگرانی کے لیے متحرک واچ ٹاورز کی ضرورت ہے جنھیں پانی اترنے پر آگے بڑھایا جاسکے کیونکہ فاصلہ پر ہونے کی صورت میں شہریوں تک سیٹی کی آواز نہیں جاتی اور لائف گارڈ کے لیے بھی شہریوں پر دور تک نظر رکھنا دشوار ہوتا ہے۔

ساحل پرتفریح کیلیے آنیوالے لائف گارڈزکوسنجیدہ نہیں لیتے

ساحل پر تفریح کے لیے آنے والے لائف گارڈز کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ خاندان کی شکل میں آنے والے پھر بھی احتیاط کرتے ہیں لیکن من چلے نوجوان کسی کو خاطر میں نہیں لاتے بعض افراد تو لائف گارڈز پر ہی برہم ہوجاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں تیرنا آتا ہے کوئی ڈوبے گا تو خود بچالیں گے، اسی طرح لائف گارڈز کی جانب سے ساحل پر لگائے جانے والے خطرے کے جھنڈوں کو بھی نظر انداز کیا جاتا ہے بعض افراد ان جھنڈوں پر اپنی چپلیں اور جوتے ٹانگ دیتے ہیں اور کچھ لوگ اسے نکال کر کھیلنا شروع کردیتے ہیں، سیلفیوں کا شوق بھی ساحل پر خطرات کو بڑھارہا ہے نوجوان لڑکے لڑکیاں خطرناک انداز میں سیلفیاں لینے کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈالتے ہیں چٹانوں پر بیٹھ کر اس وقت سیلفی لی جاتی ہے جب اونچی لہریں چٹانوں سے ٹکراتی ہیں۔

یہ ایک منٹ کا وقت سمندری حادثات کے لیے بہت ہوتا ہے بیشتر لوگ سیلفیاں لینے کے چکر میں مشکلات کا شکار ہوتے ہیں لائف گارڈ جب منع کرتے ہیں کہ یہ مقام سیلفی لینے کے لیے موزوں نہیں ہے تو تکرار کرتے ہیں، شہری ساحل پر لائف گارڈ کے انتباہ کو سنجیدگی سے لیں گھر سے نکلتے وقت بچوں اور اہل خانہ کو احتیاطی تدابیر سے آگاہ کریں تاکہ کسی قسم کی مشکل صورتحال سے محفوظ رہ سکیں۔

کراچی کی ساحلی پٹی پرتفریح کے محفوظ مقامات کم ہیں

کراچی کی ساحلی پٹی پر عوامی تفریح کے محفوظ مقامات بہت کم ہیں، ہاکس بے اور سینڈز پٹ پر زیادہ تر جگہوں پر ہٹ بنے ہوئے ہیں اور ان کے سامنے ساحل ان ہٹس کے لیے مخصوص ہے سی ویو ساحل کے نظارے کے لیے محفوظ ہے لیکن وہاں آلودگی کی وجہ سے لہروں سے لطف اندوز ہونا محال ہوگیا ہے،کراچی میں 2013کے بعد سے امن و امان کے حالات میں نمایاں بہتری آئی ہے ساحلی علاقے جرائم پیشہ عناصر کی آماجگاہیں بن چکے تھیں اور گینگ وار کی لوٹ مار کی وجہ سے شہریوں نے ساحلی مقامات کا رخ چھوڑ دیا تھا۔

2014کے بعد سے حالات بہتر ہونا شروع ہوئے اور اب ساحلی مقامات شہریوں کی تفریح کا مرکز بن چکے ہیں ۔ محمد انور کے مطابق 6سال کے دوران ساحلی مقامات پر آنے والے افراد کی تعداد دگنی ہوچکی ہے 10 سال کے دوران تعداد میں 3 گنا اضافہ ہوا ہے کراچی کی ساحلی پٹی 34 کلو میٹر طویل ہے اس پر واقع مقبول عوامی مقامات میں ہاکس بے سینڈزپٹ، سی ویو، منوڑہ بیچ، فرنچ بیچ، رشین بیچ ٹرٹل بیچ، سنہرا اور مبارک ولیج سرفہرست ہیں کراچی کے شہری بڑی تعدادمیںحب سے متصل گڈانی اور کوسٹل ہائی وے پر واقع کنڈ ملیر کے ساحل کا بھی رخ کررہے ہیں ان سب مقامات میں سینڈز پٹ کا مقام سب سے زیادہ خطرناک ہے کیونکہ یہاں لہروں کی رفتار بہت تیز ہے۔

ماہی گیربچے پیدائشی پیراک اورسمندرکامزاج سمجھتے ہیں

ہاکس بے کے قریب واقع مچھیروں کی بستی حاجی عبدالرحمنٰ گوٹھ کے رہائشی محمد انور کا شمار بھی ایسے ہی افراد میں ہوتا ہے جنھوں نے ساحلی مقامات پر تفریح کے لیے آنے والوں کو لہروں سے بچانا اپنی زندگی کا مقصد بنالیا، محمد انور چار بھائی اور تین بہنوں پر مشتمل کنبے کا حصہ ہیں ۔

والد ان سمیت چاروں بھائی تعلیم یافتہ اور ماہر لائف گارڈ ہیں 2 بھائی بلدیہ عظمیٰ کراچی سے وابستہ ہیں، محمد انور نے ہاکس بے کے مقامی اسکول سے مڈل تک تعلیم کے بعد لیاری کے حاجی عبداللہ کالج سے ایف ایس سی کیا اور اس کے 1992بعد کمپیوٹر میں ڈپلومہ کیا تکنیکی صلاحیتوں کی بنا پر انھیں ہاکس بے کے قریب لگنے والے ایٹمی بجلی گھر کینپ میں بطور ٹیکنیشن ملازمت کا موقع ملا اور ساڑھے 7 سال تک وہ کینپ سے وابستہ رہے ملازمت کا کنٹریکٹ ختم ہونے کے بعد اپنے آبائی پیشے ماہی گیری سے دوبارہ وابستگی اختیار کرلی اور روزانہ سمندر کے کنارے سے مچھلیاں پکڑنا معمول بنالیا اس معمول نے انھیں ملازمت کے خاتمے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کا سامنا کرنے میں مدد فراہم کی، محمد انور کا کہنا ہے کہ ماہی گیروں کے گھرانوں میں بچے پیدائشی طور پرپیراک ہوتے ہیں اور سمندر کے مزاج کو سمجھتے ہیں وہ بھی پیدائشی پیراک ہیں اور نوجوانی کے دنوں سے ہی ساحل پر لہروں کا شکار ہونے والے افراد کی مدد کرتے رہے ہیں۔

محمد انور کے مطابق ساحلی پٹی پر آباد ماہی گیر لہروں کا شکا ر ہونے والے افراد کی مدد کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں کیونکہ اللہ نے انہیں انسان کی قیمتی جان بچانے کا وسیلہ بنایا ہوتا ہے اس عمل میں انھیں قلبی سکون ملتا ہے کیونکہ ایک انسان کی جان بچانا بہت بڑی بات ہے۔

محمد انور کا کہنا ہے کہ صرف میں نہیں بلکہ ساحلی پٹی پر آباد تمام نوجوان اس بات پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ایسی جگہ پیدا کیا تیراکی سیکھ لی اور انسان کی جانیں بچانے کا وسیلہ بنایا، ساحلی پٹی پر آباد ہر فرد کوشش کرتا ہے کہ اگر اس کے سامنے کوئی غلط یا خطرے والی جگہ پر نہارہا ہے تو اسے منع کریں اور خطرے سے آگاہ کریں اور اگر کوئی ڈوب رہا ہو تو اسے ڈوبنے سے بچائیں۔

سیاح کے ساحل پر قدم رکھتے ہی لائف گارڈز کی ذمہ داری شروع ہو جاتی ہے

لائف گارڈ کی ذمہ داری اس وقت سے شروع ہوجاتی ہے جب سیاح ساحل پر قدم رکھتے ہیں ان میں زیادہ تر بچے اور خواتین خطرے کا شکار ہوتی ہیں کیونکہ وہ عموماً اس جگہ جاتے ہیں۔

جہاں لہروں کی رفتار تیز ہوتی ہے لائف گارڈ ساحل پر آنے والوں پر مسلسل نظر رکھتا ہے اور جیسے ہی کوئی فرد خطرے کی حد کے قریب جاتاہے لائف گارڈ اسے سیٹی بجاکر منتبہ کرتا ہے اور نہ ماننے پر قریب جاکر اسے خطرے سے آگاہ کرتا ہے لائف گارڈ کی ذمے داری ہے کہ لوگوں کو خطرے کی حد تک جانے نہ دیں تاکہ ڈوبنے کی نوبت آنے سے پہلے ہی جانیں بچائی جاسکیں، پاکستان لائف سیونگ فائونڈیشن سے وابستہ زیا دہ تر لائف گارڈ نوجوان ہیں کل وقتی خدمات انجام دینے والوں کو ماہانہ 15ہزار روپے ملتے ہیں ۔

اس رقم سے وہ اپنی تعلیم کا سلسلہ بھی آگے بڑھارہے ہیںان میں سے بہت سے لائف گارڈ انٹر اور گریجویشن کررہے ہیں اور فیملی پر بوجھ بنے بغیر اپنی زندگیاں بہتر بنارہے ہیں، پاکستان لائف سیونگ فائونڈیشن سے وابستگی نوجوانوں کو معاشرتی برائیوں سے بھی بچانے کا ذریعہ ہے بہت سے نوجوان جو غلط صحبت کی وجہ سے نشہ اور دیگر برائیوں میں مبتلا ہونے جارہے تھے اب انسانی خدمت اور نیکی کا راستہ اختیار کرچکے ہیں۔

ریسکیو ٹیوب ڈوبنے والے اور لائف گارڈ دونوں کی زندگی بچاتی ہے

ریکسیور ٹیوبز لائف گارڈز کا بنیادی ہتھیار ہے جسے استعمال کرکے ڈوبنے والے افراد کو موت کے منہ سے نکالا جاتا ہے اور یہی ریسکیو ٹیوب لائف گارڈ کی زندگی بھی بچاتی ہے۔ لائف گارڈز یہ ریسکیو ٹیوب خود بناتے ہیں مقامی سطح پر بنانے میں تین سے ساڑھے تین ہزار روپے کی لاگت آتی ہے اس کے مقابلے میں درآمدی ریسکیوٹیوب 15ہزار روپے کی پڑتی ہے۔ ریسکیو ٹیوب سے ایک وقت میں دو افراد کو بھی ریسکیو کیا جاسکتا ہے لائف گارڈ خود کو محفوظ رکھتے ہوئے ریسکیو ٹیوب لہروں میں گھرے فرد تک پہنچاتے ہیں۔

سمندر کی خطرناک موجوں اور بھنورمیں ماہرلائف گارڈبھی پھنس جاتے ہیں

لائف گارڈ بننے کے لیے تیراکی میں مہارت کے علاوہ بھی اضافی خوبیوں کی ضرورت ہوتی ہے جن میں فیصلہ کرنے کی صلاحیت ذہنی اور جسمانی چستی شامل ہیں، عام تیراکی اور لائف گارڈ کے تیرنے میں بہت فرق ہوتا ہے سمندر کی موجیں ساحل سے آگے زیادہ طاقتور اور خطرناک ہوتی ہیں اور بھنور کی شکل اختیار کرلیتی ہیں ۔

جس میں ماہر پیراکوں کے لیے بھی زیادہ تر تیراکی ممکن نہیں ہوتی ایک لائف گارڈ کو سمندر کی لہروں میں موجود رپ کرنٹ کا بھی اندازہ ہوتا ہے اور وہ اس کرنٹ کو استعمال کرتے ہوئے ہیں ڈوبنے والوں کو بچاتا ہے، عام تیراک کو کرنٹ کی سمت کا اندازہ نہیں ہوتا اس لیے ڈوبنے والے کو بچانے کی کوشش میں عام تیراک خود بھی ڈوب جاتا ہے، لائف گارڈ کی تربیت کا پہلا اصول خود لائف گارڈ کا اپنا تحفظ ہے لائف گارڈ فیصلہ کرتا ہے کہ آیا ڈوبنے والے کو بچانا ممکن ہے اگر نہیں تو خود اپنی جان ایک حد سے زیادہ خطرے میں نہیں ڈالتا ۔

ساحلی مقامات کے 12زون میں سے ہرزون میں10لائف گارڈز اور سپر وائزر تعینات ہیں
پاکستان لائف سیونگ فائونڈیشن کے تحت کراچی کی ساحلی پٹی پر 25 کل وقتی اور 100سے اوپر جز وقتی لائف گارڈز ساحلی مقامات پر انسانی جانوں کے تحفظ کو یقینی بنارہے ہیں۔ عام دنوں میں ان زونز میں 2 لائف گارڈز تعینات ہوتے ہیں جو لوگوں کو خطرے سے آگاہ کرتے ہیں اور ایمرجنسی کی صورت میں لہروں سے لڑکر جانیں بچاتے ہیں ہفتہ اتوار کے روز شہریوں کی بڑی تعداد ساحلی مقامات کا رخ کرتی ہے۔

ان دنوں میں جز وقتی لائف گارڈز تعینات کیے جاتے ہیں جو زیادہ تر ساحلی آبادیوں کے کم عمر نوجوان ہوتے ہیں کراچی کے ساحلی مقامات کو 12زونز میں تقسیم کیا گیا ہے ہر زون میں 10لائف گارڈز اور ایک سپر وائزر تعینات ہیں ان سب کے نگران اعلیٰ محمد انور ہیں 2004سے اب تک محمد انور کے زیر نگرانی 5000افراد کو ڈوبنے سے بچایا جاچکا ہے اور لاکھوں کی تعداد میں انسانی زندگیوں کو خطرے کی بروقت نشاندہی کرکے کسی ناخوشگوار لمحے سے بچایا گیا۔ بارہ زونز کے سپر وائزر واکی ٹاکی کے ذریعے مرکزی کنٹرول سے رابطے میں رہتے ہیں اس کے علاوہ ہفتہ وار جز وقتی لائف گارڈز کی بھی میٹنگ ہوتی ہے اور ان سے پیش آنے والی مشکلات کے بارے میں پوچھا جاتا ہے اور اگلے دن یا ہفتہ کی حکمت عملی مرتب کی جاتی ہے۔

محمد انور کے مطابق 2004سے قبل ساحلی مقامات پر سالانہ 250سے 300افراد ڈوب کر ہلاک ہوجاتے تھے پاکستان لائف سیونگ فائونڈیشن کی کاوشوں سے یہ تعداد بہت کم ہوچکی ہے لائف گارڈز صبح 10بجے ساحل پر آجاتے ہیں وسائل کی کمی کی وجہ سے گڈانی اور کنڈ ملیر پر لائف گارڈز تعینات نہیں ہیں اس سال دن کے اوقات میں 2 ہلاکتیں ہوئی ہیں جبکہ لائف گارڈز کی ڈیوٹی اوقات سے قبل سمندر میں جانے والے 6کے لگ بھگ افراد کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونے پڑے۔

ساحل پر آنے والوں کے لیے اگستاور ستمبر کا مہینہ خطرناک ہوتا ہے

ساحل پر تفریح اور موجوں سے چھیڑ چھاڑ کے لیے اگست کے اواخر اور ستمبر کا پورا مہینہ خطرناک ہوتا ہے ان دنوں لہریں کم ضرور ہوتی ہیں لیکن ان میں بہاؤ یعنی رپ کرنٹ بہت زیادہ ہوتا ہے ۔ اس عرصے میں لہروں میں پایا جانے والا کرنٹ یک طرفہ ہوتا ہے جو ساحل سے لوگوں کو بہاکر سمندر میں لے جاتا ہے اور واپس ساحل کی طرف نہیں پلٹتااس کے برعکس جون کے مہینے میں لہریں معاون ہوتی ہیں جو بہہ کر جانے والوں کو واپس ساحل کی طرف دھکیل دیتی ہیں۔

جون جولائی کے مہینے ساحل پر پکنک بنانے کیلیے موزوں ہیں نومبر دسمبر میں ساحل سمندر پرسکون ہوتا ہے ان دنوں ساحل پر چہل قدمی کا بہترین وقت ہوتا ہے، کراچی کے شہری بارشوں کے موسم میں ساحل سمندر پر یلغار کردیتے ہیں چیونٹیوں کی طرح ساحل پر امڈ آتے ہیں اور شہر میں رہ کر یا ساحل کی ریت پر بارش سے لطف اندوز ہونے کے بجائے لہروں میں کود پڑتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔