انسانوں کے خواب نوچ رہے ہیں

آفتاب احمد خانزادہ  اتوار 24 نومبر 2019
aftabkhanzada2@yahoo.com

[email protected]

یہ 407 قبل مسیح کا واقعہ ہے، پہلے دن سے افلاطون روشن طبع نوجوانوں کی اس ٹولی میں شامل ہوگیا جو شہرکی گلیوں میں’’چم چچڑ‘‘ (شہرکے لوگ سقرا ط کو سچائی کا پیچھا کرنے کی عادت کی وجہ سے اسی نام سے پکارتے تھے ) کے پیچھے لگی رہتی تھی اور مسرت آمیز تعجب کے ساتھ دیکھتی کہ وہ ایتھنز کے سب سے زیادہ سیانوں کو بھی کس طرح اپنی لاعلمی کا اعتراف کرنے پر مجبورکر دیتا تھا۔

سقراط کہتا تھا ’’میں تو بس ایک ہی بات جانتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ میں کچھ نہیں جانتا ‘‘ اس کے ساتھ ہی وہ یہ بات ثابت کر نے پر تل گیا کہ اس کی طرح دوسرے لوگ بھی بے خبر ہیں وہ کچھ نہیں جانتے۔ اس کا کام یہ تھا کہ خود سیکھے اور دوسروں کو سیکھنے کے قابل بنائے۔ چنانچہ اس نے کہا یہ کہ ’’ میری ماں دایہ تھی اور میں اس کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کر رہا ہوں، میرا تعلق ذہنی زچگی کے امور سے ہے میں دوسرے کا ہاتھ بٹاتا ہوں تاکہ وہ اپنے خیالات کو جنم دے سکیں۔

وہ ایتھنزکی گلی کوچوں میں مٹرگشت کرتا رہتا ہر جگہ وہ اپنا ابتدائی سا سوال پوچھتا۔ زہدوتقویٰ کیا ہے؟ جمہوریت کیا ہے؟ نیکی کس کوکہتے ہیں ؟ حوصلہ مندی سے کیا مراد ہے ؟ دیانت داری کیا شے ہے ؟ انصاف کیا ہے اور سچائی کس کوکہتے ہیں ؟ اچھا توکام کیا کرتے ہو اور تم نے اس میں کون سے علم اور مہارت کا اضافہ کیا ہے ؟ کیا تم سیاست دان ہو اچھا ہو تو یہ تو بتائوکہ تم نے حکومت کے متعلق سیکھا کیا ہے ؟ وکیل ہو ؟ انسانی سرگرمیوں کے انسانی محرکات کے بارے میں تم نے کیا مطالعہ کیا ہے ؟ استاد ہو ؟ خوب مگر ذرا یہ تو بتائو کہ دوسروں کو جہالت کے اندھیروں سے نکالنے سے پہلے تم نے خود اپنی جہالت پر قابو پانے کے لیے کون سے اقدامات کیے ہیں؟ بتائو۔ بتائو ناں۔ ایک بار اس نے کہا تھا کہ ’’ میں سراغ رساں کتے کی طرح سچائی کا پیچھا کرتا ہوں‘‘ وہ کہتا تھا اپنے آپ کو پہچانو۔

ہوتا مگر یہ ہے کہ اکثر لوگ اپنے آپ کو پہچانتے ہیں تو ان کو مایوسی ہوتی ہے جب وہ آئینے میں جھانکتے ہیں تو ان کو اپنے سندر چہروں کے بجائے درندے دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے درندے جو انسانوں کا روپ دھارے ہوئے ہیں وحشت ناک حیرانگی اس وقت ہوتی ہے جب یہ لوگ اپنے آپ کو پہچانتے نہیں ہیں۔ کیا انھیں اپنے منہ پر لگے ہزاروں معصوم اور بے گناہ لوگوں کا خون نظر نہیں آتا ہے، جو ان کی وجہ سے بے وقت قبروں میں جاسوئے ہیں۔ کیا انھیں اپنے اندر سے بھونکنے کی آوازیں سنائی نہیں دیتی ہیں۔کیا انھیں بستیاں کی بستیاں روتی دکھائی نہیں دیتی ہیں۔ کیا وہ اس بات پر غور نہیں کرتے ہیں کہ قبرستان اتنی جلدی جلدی کیوں آباد ہورہے ہیں اور بستیاں کیوں اتنی تیزی سے اجڑ رہی ہیں کیا انھیں اجڑی مانگیں دکھائی نہیں دیتی ہیں۔ کیا انھیں فقراء کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوتے ہوئے معلوم نہیں ہو رہا ہے۔ اصل میں یہ وہ درندے ہیں جو انسانوں کے خواب اور خواہشیں نو چ نو چ کر کھا رہے ہیں یہ ہی سب اصل میں محروم سماج کے باپ ہوتے ہیں۔

لیوئن کو 5 جولائی 1919 کی شب گزیدہ سحرتاریک راہوں کی نذرکر دیا گیا۔ میونخ کے اسٹیڈیل ہائم جیل میں فائر نگ اسکواڈ نے اسے زندگی کی قید سے آزاد کردیا۔ اس کے وکیل کائونٹ پیٹانورا کے الفاظ آج بھی روزحشرکی علامت کے طور پر گونجتے ہیں۔ اس نے کہا تھا ’’اس آدمی کو موت کی سزا مت دو، اگر تم نے ایسا کیا تو یہ کبھی نہیں مرے گا۔ یہ دوبارہ سے جیناشروع کر دے گا اس شخص کی موت تمام کمیونٹی کے ضمیر پر بوجھ بن جائے گی اور اس کے خیالات ہیبت ناک انتقام کے بیج بو دیں گے۔‘‘

یاد رکھو میرے خدائوں تمہارے ظلم وستم ، ناانصافیوں ، زیادتیوں کی وجہ سے قبروں میں جا کر سونے والے معصوم اور بے گناہ انسان کبھی نہیں مریں گے۔ آج نہیں توکل وہ سب دوبارہ سے جینا شروع کر دیں گے یہ بھی یاد رکھنا وہ سب اپنے قاتلوں کو بھولے نہیں ہیں اور نہ بھولیں گے جس طرح ارجنٹائن کے ٹوما سیلا نے اپنی موت ان الفاظ کے ساتھ مکمل کی تھی۔

’’مجھے یقین ہے کہ سچ اور انصاف بالآخر سرخروہوںگے۔ اس کے لیے نسلیں درکار ہونگی اگر مجھے اس جنگ میں مرنا ہے تو پھر ایسا ہی ہوگا لیکن ایک روز ہم سرخرو ہونگے اس دوران مجھے خبر ہے میرا دشمن کون ہے اور دشمن کو بھی خبر ہے کہ میں کون ہوں‘‘ وہ جو اب تک زندہ ہیں وہ اورکچھ نہیں توکم ازکم یہ توکر ہی سکتے ہیں کہ ٹولیاں بناکر وہ ہی سوال جو سقراط ایتھنزکے سیانے لوگوں سے کرتا تھا، جو یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ وہ سب کے جانتے ہیں انھیں وہ ہی سوال ہمارے ان سیانے لوگوں سے جو یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ کچھ نہیں جانتے اور سمجھے یہ بیٹھے ہیں کہ وہ سب کچھ جانتے ہیں ضرور کرنا چاہیے کہ زہد و تقویٰ کیا ہے؟ جمہوریت کیا ہے ؟ نیکی کسے کہتے ہیں ؟

حوصلہ مندی سے کیا مراد ہے ؟ دیانت داری کیا شے ہے ؟ انصاف کیا ہے اور سچائی کس کوکہتے ہیں ؟ اچھا توکام کیا کرتے ہو اور تم نے اس میں کون سا علم اور مہارت کا اضافہ کیا ہے ؟کیا تم سیاست دان ہو اچھا ہو تو یہ بتائو کہ تم نے حکومت کے متعلق سیکھا کیا ہے ؟ وکیل ہو؟ انسانی سرگرمیوں کے انسانی محرکات کے بارے میں تم نے کیا مطالعہ کیاہے ؟ استاد ہو؟خوب مگر ذرا یہ بتائو کہ دوسروں کو جہالت کے اندھیروں سے نکالنے سے پہلے تم نے خود اپنی جہالت پر قابو پانے کے لیے کون سے اقدامات کیے ہیں ؟ بتائو ، بتائو نا۔ تمہارے ان سوالوں کی وجہ سے ہوسکتا ہے کہ وہ یہ جان پائیں کہ وہ کچھ نہیں جانتے اور پھر ہوسکتا ہے کہ یہ جاننے کے بعد کہ وہ کچھ نہیں جانتے پھر وہ جاننے کی کوشش شروع کر دیں اور پھر جاننے کے بعد وہ چین سے رہنا شروع کردیں تاکہ ہمیں بھی چین نصیب ہوسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔