کراچی: 8 سالہ بچہ ’’محنت میں عظمت ہے‘‘ کی عملی مثال بن گیا

عامر خان  منگل 28 جنوری 2020
والدین نے بھیک مانگنے کو کہا تھا مگر مجھے اچھا نہیں لگا، پڑھ لکھ کر استاد بننا چاہتا ہوں، مکیش

والدین نے بھیک مانگنے کو کہا تھا مگر مجھے اچھا نہیں لگا، پڑھ لکھ کر استاد بننا چاہتا ہوں، مکیش

کراچی: سندھ کی ہندو برداری کے قبیلے اوڈھ سے تعلق رکھنے والا 8 سالہ بچہ مکیش’’محنت میں عظمت ہے‘‘ کی عملی مثال بن گیا بھیک مانگنے کے بجائے اپنے ننھے ہاتھوں سے لوگوں کے جوتوں کی پالش کرکے روزگار کمانے میں لگ گیا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ’’جن کا سفر محنت سے شروع ہوتا ہے ایک دن ان کے سروں پر کامیابی کاتاج ہوتا ہے‘‘۔

500 روپے سے لوگوں کے جوتوں پر پالش کے لیے سامان خریدکر اپنا کام شروع کرنے والا 8سالہ مکیش اب روزانہ 300 سے 400روپے روز کمالیتا ہے لیکن اس کو 12گھنٹے روزانہ محنت کرنا پڑتی ہے، اس کا خواب ہے کہ وہ پڑھ لکھ کر استاد بنے تاکہ اپنی برداری کے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرسکے۔ اس لیے وہ محنت کرکے جلد سے جلد اسکول میں داخلہ لینا چاہتا ہے۔

اپنے اچھے مستقبل کے لیے محنت کرنے والا 8سالہ بچہ مکیش ایف سی ایریا لیاقت آباد میں ایک ہیر سیلون کی دکان میں ایک شخص کے جوتوں پر پالش کررہاتھا، اس کے ہاتھ تو تیزی سے کام کررہے تھے لیکن اس کا ذہن کچھ اور سوچ رہاتھا، وہاں سے میرا گزر ہوا تو میں بچہ کو دیکھ کر اس سے مخاطب ہو ا اور پوچھا تم اتنی چھوٹی عمر میں کیوں کام کرتے ہو تو اس نے پہلے تو بات کرنے سے گریز کیا تاہم جب میں نے محبت سے اس سے پوچھا تو اس نے اپنے حالات ایکسپریس ٹریبون کو بتاتے ہوئے کہا کہ میرا نام مکیش ولد منو ہے، میری عمر 8سال ہے، ہمارا تعلق سندھ کے ضلع ہالا کی ہندو ادڈھ برداری سے ہے، ہم کراچی میں لیاقت آباد پل کے نیچے جگھیوں (سراج الدولہ کالج کے قریب پل کے نیچے بنی عارضی خیمہ بستی)میں رہتے ہیں۔

ہمارے برادری کے سب لوگ اور میرے گھر والے ماں باپ بہن اور بھائی بھیک مانگتے ہیں، مکیش نے بتایا کہ میرے والدین نے بھی مجھے بھیک مانگنے کے لیے کہاکہ ’’پہلے تو کچھ دن میں نے بھیک مانگنے کی کوشش کی‘‘ لیکن پھر مجھے اچھا نہیں لگا اور میں نے لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے انکار کردیا۔

میرے ابا نے مجھ سے پوچھا کہ کیا کروں گے اب میں نے جواب دیا کہ میں محنت کروں گا، میں کچھ دن بازاروں میں گھومتا رہا، ایک دن کریم آباد کے پاس موچی کو لوگوں کے جوتے پالش کرتے ہوئے دیکھا تو مجھے یہ کام پسند آیا پھر میں روزانہ اس موچی کے پاس آجاتا اور اس کو کام کرتے ہوئے دیکھتا، اس طرح میں نے ایک ہفتہ میں یہ کام کرنا سیکھ لیا، میں نے اپنے والد کو بتایا کہ میں لوگوں کے جوتے پالش کرنے کا کام کروں گا، میرے والد اور والدہ نے مجھے 500روپے سے دو پالش کی ڈبیاں، دو برش اور چمک والی بوتل سمیت ایک پرانا بیگ خرید کردیا، اب میں تین ماہ سے کریم آباد،شریف آباد،لیاقت آباد اور قریبی علاقوں میں پیدل گھومتا ہوں اور لوگوں کے جوتے پالش کرتا ہوں۔

مکیش نے مزید بتایا کہ ہم سب گھر والے صبح 6بجے اٹھ جاتے ہیں اور میری اماں چائے اور پراٹھہ بناکردیتی ہے، اس کو کھاکر میں کا کرنے نکل جاتا ہوں اور شام 6بجے تک بازاروں اور گلیوں میں گھوم کر لوگوں کے جوتے پالش کرتا ہوں، ایک جوتے کے پالش کے 20روپے لیتا ہوں اور پانچ منٹ میں ایک جوتا پالش ہوجاتا ہے۔صبح کے دس بجے تک اچھا کام ہوتا ہے۔روزانہ 12گھنٹے محنت کرکے 300سے 400 روپے یا کبھی زیادہ کمالیتا ہوں۔

اس نے بتایا کہ آج کل سردی بہت ہے۔مجھے ٹھنڈ لگتی ہے لیکن کیا کروں لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بہتر محنت ہے۔اس لیے سردی برداشت کرلیتا ہوں۔ مکیش نے بتایا کہ اس کی خوائش ہے کہ وہ اسکول جائے پڑھ لکھ کر استاد بنے۔استاد بچوں اور بڑوں کو پڑھاتے ہیں۔ میرے پاس کتابوں اور بستے کے پیسے نہیں ہیں اور ہمیں کون اسکول میں داخلہ دے گا۔میں سوچتا ہوں کہ ہماری بستی میں کوئی پڑھانے آجائے شام کو۔سارا دن محنت کے بعد میں رات کو پڑھ لوں گا اور اگر میں پڑھوں گا تو اپنے برداری کے بچوں کوپڑھاؤں گا۔جو کماتا ہوں وہ پیسے گھر میں کھانے پینے پر خرچ ہوجاتے ہیں۔آج کل مہنگائی بہت ہے لوگ بھیک بھی کم دیتے ہیں۔اس لیے میرے والدین کی آمدنی اب کم ہوگئی ہے لہذا میرا باپ اب غبارے فروخت کرنا شروع کردیے گیا ہیں۔

میرا دل چاہتا ہے کہ ’’میں صا ف یونیفارم پہن کر اور بستہ لٹکاکر اسکول جاؤں‘‘۔بس یہ خوائش ہے اور لگن ہے مجھے امید ہے کہ جلد اتنے پیسے جمع کرلوں گا کہ کتابیں اور بستہ خرید سکوں۔ہم تین بھائی اور ایک بہن ہے صرف مجھے پڑھنے کاشوق ہے۔اگر میں پڑھنے لگ گیا اور بڑا ہوکر استاد بناتو اپنے گھر والوں کو بھیک مانگنے نہیں دوں گا۔یہ کہانی سناکر یہ بچہ چلاگیا تاہم میں سوچتا رہا کہ کاش ان بچوں کے مستقبل کے لیے ہمارے حکمراں سوچیں؟تاکہ یہ نسل بھی پڑھ لکھ کر ملک کی تعمیر وترقی میں حصہ لے سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔