کورونا: شہد کی مکھیوں کے فارم ہاؤس اجڑ گئے

نوید جان  منگل 23 جون 2020
’مگس بانوں‘ اور شہد کے بیوپاریوں کا حکومت سے زرتلافی کا مطالبہ ۔  فوٹو : فائل

’مگس بانوں‘ اور شہد کے بیوپاریوں کا حکومت سے زرتلافی کا مطالبہ ۔ فوٹو : فائل

 پشاور:  پاکستان میں شہد کی پیداوار ایک انتہائی مفید کاروبار ہے، یہ ایک ایسا مشغلہ ہے، جو بڑے پیمانے پر اقتصادی شراکت داری بھی قائم کرتا ہے، ملک میں اس وقت ’مگس بانی‘ کے لیے بہترین ماحول موجود ہے، تقریباً آٹھ ہزار سے زائد ’مکھی پال‘ حضرات اس منافع بخش کاروبار سے وابستہ ہیں، شہد کی مکھیاں پالنا ایک صنعت کی صورت اختیار کر گیا ہے، جس سے لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم ہو رہے ہیں، لوگ تجارتی بنیادوں پر شہد کی مکھیاں پال کر اپنے لیے ضروریات زندگی کا سامان پیدا کر رہے ہیں۔

مگس بانی ایسے علاقوں میں مفید ہے جہاں وسیع پیمانے پر درختوں کی موجودگی اور فصلوں کی کاشت کا کام ہوتا ہو، شہد کے ماہرین کے مطابق صوبہ پنجاب میں چکوال، میانوالی، اٹک، سرگودھا، ڈسکہ جیسے اضلاع ’مگس بانی‘ کے لیے بہترین ہیں، جب کہ خیبر پختون خوا میں نوشہرہ، نظام پور، پبی، ترناب فارم، صوابی، کرک، کوہاٹ، سوات، چترال اور بنوں زیادہ مناسب علاقے ہیں، بلوچستان میں کوئٹہ، زیارت، نصیر آباد اور قلات جب کہ سندھ میں ٹھٹھہ، سجاول، میر پور خاص، حیدر آباد اس کے لیے موزوں علاقے سمجھے جاتے ہیں، ایک چھتے سے شہد کی پیداوار کے علاوہ ’مکھی پال‘ حضرات چھتے سے حاصل ہونے والی دیگر مصنوعات سے بھی اپنی آمدن بڑھا سکتے ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق اس وقت 14 ہزار میٹرک ٹن سے زائد سالانہ شہد کی پیداوار حاصل کی جا رہی ہے، جب کہ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے ذریعے شہد کی پیداوار میں 25 سے 28 کلو گرام فی چھتہ اضافہ ہوا ہے، مگس بانی کی صنعت کو درپیش مسائل کے باوجود پاکستان میں اعلیٰ درجہ اور معیاری شہد کی پیداوار حاصل کی جا رہی ہے، لیکن درختوں خصوصاً بیری کے درخت کا بے دریغ کاٹے جانا، پاکستان میں بیری کے شہد کی پیداوار میں مسائل کا سبب ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ محکمہ جنگلات بیری کے درخت لگانے اور اس کی کٹائی روکنے پر عمل درآمد کے لیے موثر قانون سازی کرے، بیری کے درخت شہد کے مکھیوں کی خوراک کا بڑا ذریعہ بھی ہیں۔

شہد کی مکھیاں عموماً اپنی خوراک لوکاٹ، رس دار پھل (کینو، مالٹا، لیموں، کھٹی، چکوترا) پہاڑی پھل (سیب، ناشپاتی، آلوچہ، آلو بخارا، خوبانی، املوک، آڑو، انار، اخروٹ، بادام) فالسہ، امرود، جامن، بیر، کیلا، شہتوت، سرسوں، شفتل، آم، لیچی اور اسٹرابری وغیرہ سے حاصل کرتی ہیں، لیکن جب وبا پھوٹ پڑی، خلق خدا نے قوت مدافعت مضبوط کرنے کے لیے اپنے تئیں شہد کا استعمال بڑھا دیا، یوں اس کی مانگ میں اضافہ دیکھنے میں آیا، دوسری جانب لاک ڈاؤن اور ٹرانسپورٹ کی عدم دست یابی کے باعث اس کی پیداوار گھٹنے لگی، کیوں کہ کورونا کے دوران معمولات معطل ہونے کے سبب ’مگس بانوں‘ سے لے کر پرچون پر فروخت کرنے والوں کو بھی مسائل نے اپنے شکجنے میں جکڑے رکھا اور اس ضمن میں ان کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔

موجودہ صورت حال کے حوالے سے آل پاکستان بی کیپرز، ایکسپورٹرز اینڈ ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری شیر زمان مہمند نے بتایا کہ دیگر کاروبار کی طرح اس وبا نے ’مگس بانی‘ اور شہد کے کاروبار پر بھی کافی برے اثرات ڈالے ہیں، مگس بانوں نے جہاں پڑاؤ کیا تھا، وہ وہیں قید ہو کر رہ گئے، دوسری جانب شہد ٹریڈر کے دکان اور مارکیٹیں بھی ابتدا میں بند رہیں، ٹرانسپورٹ کی بندش سے مکھیوں کے فارم جس جگہ پر تھے وہیں پڑے رہے۔

اس بنا پر نہ صرف مکھیوں کی خوراک کا مسئلہ درپیش رہا، بلکہ ان کو مختلف بیماریوں نے بھی آلیا، جس کے باعث شہد کی پیداوار آدھی سے بھی کم رہ گئی، ٹرانسپورٹ کی عدم دست یابی کے باعث ’مگس بان‘ اپنے گھروں تک محدود رہے، مکھی فارم پر غیر حاضر ہونے کی وجہ سے بہت سی مکھیاں بھوک اور بیماری سے مرگئیں، ایک اندازے کے مطابق اس دوران صرف خیبر پختون خوا میں دس فی صد فارم مکمل تباہ ہوئے، جب کہ 25 فی صد کو جزوی نقصان پہنچا، اسی طرح 20 فی صد پیداوار میں بھی کمی واقع ہوئی۔

50 فی صد ’مگس بانوں‘ نے اپنے ملازمین بھی فارغ کر دیے ہیں، جو پریشان کن صورت حال ہے، بقول ان کے اگرچہ موجودہ حکومت نے جنگلات لگانے کے لیے گرین پاکستان منصوبہ شروع تو کر دیا، لیکن یہاں بھی بغیر پلاننگ اور حکمت عملی کے اس منصوبے پر کام کا آغاز کیا گیا، مثال کے طور پر خیبر پختون خوا کے ضلع کرک، کوہاٹ، بنوں، نظام پور، نوشہرہ، درہ آدم خیل وغیرہ میں بیری اور پھلائی کے درخت لگانے کی ضرورت تھی، کیوں کہ یہاں زیر زمین پانی کی سطح بہت نیچے ہے اور اکثر اوقات پانی کی قلت کا مسئلہ درپیش رہتا ہے، جب کہ مذکورہ پودے بہت کم پانی استعمال کرنے کے باوجود پرورش پاتے ہیں۔

اگر ایک جانب یہ کم پانی کے ذریعے سرسبز وشاداب رہتے ہیں، تو دوسری جانب یہ شہد کی پیداوار میں بھی اضافے کا سبب بنتے ہیں، اسی طرح آب وہوا کی مناسبت سے وہاں موافق پیڑ پودوں پر مشتمل جنگلات لگانے کی ضرورت تھی، جب کہ جنگلات لگانے کے ساتھ ساتھ ان کی کٹائی پر سخت پابندی بھی لگنی چاہیے۔

کیوں کہ جنگلات لگانے سے اہم بات اس کی حفاظت ہے، وہ بتاتے ہیں کہ فصلوں پر زہریلی ادویات کا استعمال بھی بڑھ گیا ہے، اب یہ معمول بن چکا ہے کہ کسان حضرات مختلف قسم کے کیڑوں مکوڑوں اور بیماریوں کے خاتمے کے لیے اپنی فصلوں پر تواتر کے ساتھ اسپرے کرتے رہتے ہیں، لیکن دوسری جانب اس سے شہد کی مکھیوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے اور روزانہ کے حساب سے ہزاروں شہد کی مکھیاں پھولوں سے رس کشیدگی کے دوران مر رہی ہیں۔

اس لیے خصوصاً پھول کھلتے وقت اسپرے کرنے سے اجتناب کیا جائے، کیوں کہ یہ شہد کی مکھیوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے مگس بانی پر اثرات کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی بھی شہد کی مکھیوں کی ترقی اور پیداوار کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے، اس لیے موسمیاتی تبدیلی پر قابو پانے کے لیے مقامی پودوں اور درختوں کی افزائش بہت ضروری ہے۔

ایک اور ’مگس بان‘ زبید خان کا کہنا تھا کہ لاک ڈاؤن ، ٹرانسپورٹ کی عدم دست یابی اور بروقت خوراک نہ ملنے سے لاکھوں کی تعداد میں شہد کی مکھیاں متاثر ہو چکی ہیں، اس دوران بروقت خوراک، صفائی اور دوائی نہ ملنے کے باعث بعض ’مگس بانوں‘ کے پورے فارم کی مکھیاں یاتو مر چکی ہیں یا فارم چھوڑ کر خوراک کی تلاش میں کسی اور جگہ بسیرا کر چکی ہیں۔

چوں کہ ’مگس بانی‘ ایک محنت طلب کام ہے اور اس میں ہر وقت مشکلات اور مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن ’کورونا‘ کے باعث ہمیں ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے، اس لیے حکومت ’مگس بانوں‘ کے لیے زرتلافی، ٹیکس میں چھوٹ سمیٹ خصوصی پیکیج کا اعلان کرے، تاکہ ہم ملک کی اہم صنعت کو اچھی طرح چلا سکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔