27 دسمبر کے کردار بے نقاب ہوں گے؟

عدنان اشرف ایڈووکیٹ  بدھ 1 جنوری 2014
advo786@yahoo.com

[email protected]

پاکستان میں بھٹو خاندان کی عملی سیاست کا دورانیہ نصف صدی سے زیادہ پر محیط ہے، جس میں تین عشروں پر محیط محترمہ بے نظیر بھٹو کا پرآشوب دور سیاست و حکومت بھی شامل ہے۔ اس دوران وہ دو مرتبہ وزیر اعظم پاکستان بنیں، جن کا دورانیہ پانچ سال سے بھی کم رہا۔ انھوں نے سیاست کا آغاز ضیا مارشل لا کے ساتھ 1977 میں کیا، جو 2007میں ان کی زندگی کے ساتھ ہی اختتام پذیر ہوا۔ بے نظیر نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کی مقبول ترین سیاستدان تھیں، ان کو بہت سے بین الاقوامی اعزازات اور اعزازی ڈگریوں سے نوازا گیا۔ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی ان کا نام شامل کیا گیا۔

انھوں نے 1977 میں آکسفورڈ سے فارن سروس میں گریجویشن کیا تھا، اس کے بعد اپنی پہلی کتاب Foreign Policy Perspective تحریر کی، اس کے بعد اپنے حالات زندگی پر مشتمل آٹو بائیوگرافی Daughter of East تحریر کی۔ یو این او نے ان کی خدمات کو سراہتے ہوئے انھیں انسانی حقوق کے اعلیٰ ایوارڈ سے نوازا، ان کے مجسمے بھی بنائے گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد بے نظیر بھٹو نے ان کے سیاسی جانشین ہونے کا کردار بڑی جانفشانی کے ساتھ ادا کیا۔ بے نظیر بھٹو پاکستان کے طول و عرض میں بسنے والے شہریوں مرد، عورت، بچے، بوڑھے، پڑھے لکھے، ان پڑھ غرض تمام طبقات میں مانوس اور جانی پہچانی شخصیت سمجھی جاتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ بے نظیر بھٹو کی موت پر ساری قوم ہی سو گوار ہو گئی، اس لیے بے نظیر بھٹو کو صرف پیپلز پارٹی تک محدود کرنا بذات خود بے نظیر اور پی پی پی کے ساتھ زیادتی اور محترمہ کا سیاسی قد کم کرنے کے مترادف ہو گا۔ بینظیر کے قاتلوں اور قتل کے محرکات جاننے اور ان کے سرپرستوں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں بلا لحاظ سیاسی وابستگی تمام شہری بڑی دلچسپی رکھتے ہیں اور اس سلسلے میں ان کے جذبات و احساسات پی پی پی سے وابستہ افراد سے کسی طرح مختلف نہیں ہیں۔

بے نظیر نے اپنی زندگی میں ہی درپیش خطرات اور ممکنہ قاتلوں کے نام ظاہر کر دیے تھے، خود زرداری بھی یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ وہ قاتلوں کو جانتے ہیں، رحمن ملک نے قتل میں پرویز مشرف کے ملوث ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا ہمارے پاس ثبوت موجود ہیں کہ قاتل کن گاڑیوں میں اور کہاں سے آئے، قتل کی منصوبہ بندی کہاں تیار کی گئی اور قاتلوں کا استقبال کس نے کیا۔ بے نظیر قتل کیس میں پرویز مشرف کو شامل تفتیش کیا گیا، پیش نہ ہونے پر مفرور قرار دیا گیا۔ انٹرپول کے ذریعے گرفتاری اور جائیداد کی ضبطگی اور بینک اکاؤنٹس منجمد کرنے کے احکامات جاری کیے گئے، پاکستان آنے پر انھیں گرفتار کیا گیا، انھوں نے بے نظیر کے قتل کو وزیر داخلہ کی غفلت کا نتیجہ قرار دیا۔ پی پی پی کے کچھ حلقے بھی یہ رائے رکھتے ہیں کہ بے نظیر کے لیاقت باغ سے واپسی پر کس نے بے نظیر کا سیکیورٹی حصار توڑا، جب وہ اپنی قائد کو تنہا چھوڑ کر ان سے پہلے جلسہ گاہ سے نکل گئے تھے۔ بے نظیر کے قتل کا الزام فوری طور پر طالبان کے امیر بیت اﷲ محسود پر عاید کیا گیا تھا جسے عدالت اشتہاری ملزم قرار دے چکی ہے۔ جو اب اس دنیا میں موجود نہیں ہے، اس مقدمے کی پیروی کرنے والے سرکاری وکیل چوہدری ذوالفقار کا بھی دن دہاڑے قتل ہو چکا ہے، مقدمے میں نامزد سات ملزمان بھی مارے جا چکے ہیں۔

قتل کی ریکارڈنگ میں مشکوک حرکات کا حامل شخص جو بعد میں پارٹی کا خاص آدمی نکلا بلاول ہاؤس کے گیٹ پر قتل کر دیا گیا، اس مقدمہ قتل میں پرویز مشرف کے علاوہ کئی اعلیٰ سطح کے پولیس افسران کو بھی گرفتار کیا گیا تھا لیکن تاحال بیت اﷲ محسود کے ساتھ سازش میں شریک پانچ ملزمان اعتزاز شاہ، شیرزمان، عبدالرشید، رفاقت حسین اور حسنین گل قید ہیں۔ پرویز مشرف کے دور میں وقوع پذیر اس سانحے پر پیپلز پارٹی نے حکومتی اداروں پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے واقعے کی تحقیقات غیر ملکی ایجنسیوں سے کرانے کا مطالبہ کیا تھا۔ پولیس، ایف آئی اے کے علاوہ اسکاٹ لینڈ یارڈ اور اقوام متحدہ کی ٹیموں نے بھی واقعے کی تحقیقات کر کے اپنی رپورٹیں پیش کر دیں۔ اسکاٹ لینڈ یارڈ کی ٹیم نے بتایا ہے کہ موت دھماکا یا گولی لگنے کی وجہ سے نہیں ہوئی بلکہ دھماکے کے دوران ان کا سر کسی چیز سے ٹکرایا جو موت کی وجہ بنا ہے۔ پی پی پی نے اس رپورٹ کو مسترد کر دیا تھا۔ یو این او کمیشن کی رپورٹ کے مطابق اس وقت کی حکومت بے نظیر کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہی تھی اور پارٹی کی طرف سے بھی ان کا حفاظتی بندوبست ناکارہ تھا۔

کمیشن نے اس بات کا بھی اظہار کیا کہ یہ بات ناقابل فہم ہے کہ ایک نو عمر لڑکا قتل کی منصوبہ بندی اور وسائل کا بندوبست کر سکتا ہے؟ اہم سوال یہ ہے کہ لاش کا پوسٹ مارٹم کیوں نہیں کرایا گیا؟ حکومت نے بھی قتل کی موثر تحقیقات نہیں کیں، ہماری تحقیقات کے باوجود پاکستان میں اس کی فوجداری تحقیقات ہونی چاہیے۔ اس بات کے شواہد بھی نہیں ہیں کہ قتل میں خاندان کا کوئی فرد ملوث ہے۔ یو این او کی یہ رپورٹ بھی پی پی پی کی جانب سے یہ کہہ کر رد کر دی گئی کہ یہ رپورٹ عجلت میں تیار کی گئی ہے۔ آصف زرداری نے رپورٹ پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بے نظیر کے قتل میں اسٹیبلشمنٹ نہیں طالبان سوچ رکھنے والے ملوث ہیں ۔ پی پی کے مرکزی رہنما سردار آصف نے کہا تھا کہ بے نظیر کے قتل میں القاعدہ نہیں ایجنسیاں ملوث ہیں۔ بے نظیر کے مقدمہ قتل میں حکومت، پارٹی اور خود خاندان کی طرف سے دانستہ و نادانستہ بہت سی کوتاہیاں سرزد ہوئی ہیں ابتدائی طور پر FIR درج کر کے سیل کر دی گئی جس میں مدعی، ملزمان اور مقدمے کی دفعات کو صیغہ راز میں رکھا گیا، لواحقین کی جانب سے ایک عرصے کے بعد FIR درج کرنے اور اس کے مندرجات کے بارے میں پیش رفت کی گئی جس کا فائدہ ملزمان کو پہنچ سکتا ہے۔

راقم نے اس واقعے پر اپنے اظہاریہ ’’ایک عظیم قومی سانحہ‘‘ میں ان تحفظات کا اظہار کیا تھا کہ وجہ موت کے بارے میں گولی لگنے، گاڑی کا اسکرین لیور لگنے اور دھماکے کے نتیجے میں موت واقع ہونے کے جو متضاد دعوے کیے جا رہے ہیں ان کا فائدہ ملزمان کو پہنچے گا، اسی طرح پوسٹ مارٹم نہ کرانے، جائے وقوعہ کو فوری طور پر دھو دینے کا فائدہ بھی یقیناً ملزمان کے حق میں جائے گا۔ پوسٹ مارٹم کرمنل کیسز میں بنیادی اہمیت کا حامل ثبوت ہوتا ہے جس میں موت کی ممکنہ وجوہات، ہتھیار کی نوعیت جس سے موت واقع ہوئی ہو جس کی سطح اور اندرونی کیفیت و زخم موت واقع ہونے کا وقت تفصیلات اور پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹر کا عدالتی بیان مجرموں کی شناخت میں بڑی مدد کرتا ہے۔ جائے وقوع سے واردات سے متعلق شواہد جمع کرنا، استعمال شدہ یا غیر استعمال شدہ گولیاں، آتشی مواد، ہتھیار اور دیگر شواہد مجرموں کو قانون کی گرفت میں لانے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں لیکن اس سانحے میں پوسٹ مارٹم نہ کروا کے اور جائے وقوع کو دھو کر یہ تمام شواہد ختم کر دیے گئے ہیں۔

اس واقعے کے ردعمل میں ہونے والے ہنگاموں میں شرپسند گروہوں نے تین دن کراچی جیسے شہر کو یرغمال بنا کر رکھا۔ شہریوں سے لوٹ مار اور گاڑیوں سے قیمتی سامان نکال کر ہزاروں گاڑیوں، دکانوں، فیکٹریوں، بینکوں، اے ٹی ایم مشینوں، مارکیٹوں اور کارخانوں کو نذر آتش کر دیا جن میں کئی لوگ زندہ جل گئے، خواتین سے زیادتیوں کی خبریں بھی آئیں، لوگوں نے نزدیکی آبادیوں اور مساجد وغیرہ میں پناہ حاصل کی۔ صرف کراچی میں 50 کروڑ مالیت کی گاڑیاں جلادی گئیں، ریلوے کی 12 ارب مالیت کی املاک نذر آتش کر دی گئی۔ نصف فیصد کے قریب زندگیاں ان ہنگاموں کی نذر ہوئیں، سیکڑوں افراد شدید معاشی مشکلات کا شکار ہوئے جنھیں تاحال کوئی معاوضہ ادا نہیں کیا گیا ہے بلکہ حکومت احکامات کے بعد یہ تمام مقدمات ختم کر کے اس میں ملوث ملزمان کو بھی رہا کر دیا گیا تھا۔ یہ تمام واقعات اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ حکومت اور خاص طور پر پی پی پی سانحہ 27 دسمبر کے کرداروں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں قطعی سنجیدہ نہیں ہے، ان کی ترجیحات مفادات اور مقاصد کچھ اور ہی ہیں۔ اس سانحے کو علامتی طور پر اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے ۔ شاید یہ قتل معمہ ہی رہے یہاں تک کہ وقت کی دھول اس کو ذہنوں سے محو نہ کر دے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔