پاکستانی خواتین کا قومی دن...

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  پير 15 فروری 2021
سیاسی و سماجی خواتین کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال۔ فوٹو: ایکسپریس

سیاسی و سماجی خواتین کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال۔ فوٹو: ایکسپریس

ہر سال 12 فروری کو پاکستانی خواتین کاقومی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کے موقع پر   ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں سیاسی و سماجی خواتین کو مدعو کیا گیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

سلمیٰ بٹ (رکن صوبائی اسمبلی پنجاب )

وویمن ایکشن فورم کی صورت میں پاکستانی خواتین پہلی مرتبہ 12 فروری 1983کو اپنے حقوق کے تحفظ کیلئے باہر نکلی اور عملی طور پر ظلم کے خلاف اپنی جدوجہد کا آغاز کیا۔ ان کی اس جدوجہد کی وجہ سے ہی آج خواتین کی حالت ماضی کی نسبت بہتر ہے اور اب ہم ہر میدان میں خواتین کو ترقی کرتا دیکھ رہے ہیں۔ خواتین کیلئے اسمبلی میں کوٹہ مختص ہے، اس کے علاوہ جنرل نشستوں پر بھی وہ انتخاب لڑ رہی ہیں جو یقینا حوصلہ افزاء ہے۔ ملک میں خواتین کے حوالے سے موثر قانون سازی ہوئی اور قومی سطح پر نیشنل کمیشن آن سٹیٹس آف وویمن قائم کیا گیا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے خواتین کے حقوق و تحفظ اور ترقی کیلئے بہت زیادہ کام کیا ہے۔ پہلے پنجاب کمیشن آن سٹیٹس آف وویمن ایکٹ بنایا پھر یہ کمیشن قائم کر دیا گیا، اس کے علاوہ ملتان میں وائلنس اگینسٹ وویمن سینٹر کا قیام عمل میں لایا گیا، خواتین کی ٹرانسپورٹ کا مسئلہ حل کرنے کیلئے انہیں سکوٹیز دی گئی، وراثت کا حق دیا گیا اور اس طرح کے بیشتر اقدامات سے خواتین کی حالت بہتر کرنے کیلئے عملی طور پر کام کیا گیا۔ ان اقدامات کے ثمرات ابھی تک خواتین کو مل رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کا وویمن ایمپاورمنٹ پیکیج خواتین کی ترقی کیلئے انتہائی اہم تھا۔ ملازمت میں خواتین کا کوٹہ 5 فیصد سے بڑھا کر 15 فیصد کیا گیا، سی ایس ایس میںخواتین کیلئے 10 فیصد کوٹہ مختص ہے لہٰذا اب خواتین کو زیادہ سے زیادہ اس طرف آنا چاہیے۔ یہ افسوسناک ہے کہ خواتین کے حوالے سے بڑے اقدامات اٹھانے کے باوجود مسائل ختم نہیں ہوئے اور نہ ہی تشدد کا خاتمہ ہوسکا، اس کے لیے لوگوں کی تربیت کی ضرورت ہے۔ لوگوں کی سوچ اور رویے میں تبدیلی کیلئے ان کی ذہن سازی کرنا ہوگی کیونکہ جب تک لوگوں کی سوچ نہیں بدلے گی تب تک خواتین کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ عاصمہ جہانگیر، حنا جیلانی، نگار احمد جیسی خواتین خراج تحسین کی حقدار ہیںجنہوں نے نہ صرف خواتین کو شعور دیا بلکہ عملی طور پر ان کیلئے جدوجہد بھی کی۔ یہی وجہ ہے کہ آج پاکستانی خواتین نے ہرشعبے میں اپنی قابلیت کو منوایا ہے۔ بے نظیر بھٹو اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم بنی جو خواتین کیلئے ایک بہت بڑا اعزاز ہے۔ ا سی طرح مریم نواز نے بھی خود کو قومی دھارے کی لیڈر منوایا ہے اور وہ ملکی خواتین کو ایمپاور کرنے کا جذبہ رکھتی ہیں ۔ پاکستانی سیاست میں خواتین نے جیلیں کاٹی ہیں، صعوبتیں برداشت کی ہیں اور یہ ثابت کیا ہے کہ وہ تمام مصائب کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ رکھتی ہیں۔ ملک کی آبادی کا نصف سے زائد حصہ خواتین پر مشتمل ہے مگر بہت کم خواتین کو اپنے حقوق کا علم ہے۔ بیشتر خواتین استحصال کا شکار ہیں، انہیں حقوق دیے بغیر ترقی کا خواب پورا نہیں ہوسکتا۔ ہمیں خواتین کو سیاسی، معاشی اورمعاشرتی طور پر مضبوط کرنا ہوگا۔

بشریٰ خالق (نمائندہ سول سوسائٹی )

پاکستانی خواتین نے آمریت کے سخت ترین دورمیں اپنے حقوق کے تحفظ کیلئے انفرادی، سیاسی اور تحریکی انداز میں جدوجہد کا آغاز کیا جو قابل تحسین ہے۔ اس دور میں تنگ نظری پر مبنی معاشرتی ماڈل بنایا گیا اور ایسی قانون سازی کی گئی جو بنیادی انسانی حقوق کے خلاف تھی جس سے خواتین کا معاشی، معاشرتی اورخاندانی وقار مجروح ہوا۔ اس استحصال پر وویمن ایکشن فورم کی شکل میں دور آمریت میں ترقی پسند مرد و خواتین نے منظم آواز اٹھائی اور خواتین کو آگاہ کیا کہ کس طرح انہیں دیوار سے لگایا جارہا تھا، پھر جلسے، جلوس اور ریلیاں نکالی گئیں، ریاست کی جانب سے ان پر بدترین تشدد کیا گیا، گرفتاریاں ہوئیں مگر خواتین کے حقوق کیلئے عملی طور پر جدوجہد کا آغاز ہوگیا۔ اس جدوجہد نے آج کی خواتین کو نظریاتی تقویت دی، حقوق کیلئے نعرے دیے اور خواتین کے مسائل کو بھرپور انداز سے اجاگر کیا۔ ان خواتین میں روبینہ سہگل، نگہت سعید، خاور ممتاز و دیگر نامور خواتین شامل ہیں۔ آج ہم جس مقام پر ہیں اس میں ماضی کی خواتین کا کردار انتہائی اہم ہے۔ پاکستانی خواتین کی جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے 12 فروری کو خواتین کا قومی دن منایا جاتا ہے۔ یہ دن ملک کی تمام خواتین کیلئے امید اور حوصلے کا دن ہے۔ یہ وہ دن ہے جس روز پاکستانی خواتین نے اپنے حقوق کیلئے عملی جدوجہد سے دنیا کو یہ ثابت کر دیا کہ وہ کسی بھی طور ظلم برداشت نہیں کریں گی۔ ان خواتین کی جدوجہد کے نتیجے میں آج وہ امتیازی قوانین تبدیل ہوچکے ہیں مگر ان کے اثرات ابھی بھی معاشرے میں موجود ہیں۔ میں خصوصی طور پر عاصمہ جہانگیر کو بھی خراج تحسین پیش کرتی ہوں جو وویمن ایکشن فورم کی بانیان میں شامل ہیں۔ انہوں نے خواتین، اقلیتوں، صحافیوں، وکلاء سمیت معاشرے کے دیگر طبقات کے حقوق کے لیے مثالی کام کیا اور بھر پور انداز میں جدوجہد کی۔آج کا دور ماضی کی نسبت بہتر اور آسان ہے۔آج ہمیں اس طرح کے مسائل درپیش نہیں ہیں جو ماضی کی خواتین کو تھے۔ آج ہماری آواز کو سنا جاتا ہے،ہماری جدوجہد کو تسلیم کیا جاتا ہے جو یقینا ماضی کی خواتین کی وجہ سے ہی ممکن ہوا ہے۔ یہ بات قابل فخر ہے کہ پاکستانی خواتین ہر میدان میں ہی اپنی قابلیت کا لوہا منوا رہی ہیں تاہم ابھی بھی انہیں بے شمار چیلنجز درپیش ہیں جنہیں دور کرنا ہوگا۔ خواتین کی ترقی اور حقوق و تحفظ کے حوالے سے کافی کام ہوا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے وویمن ایمپاورمنٹ پیکیج دیا جو بہت اہم قدم تھا، اس سے خواتین کو تقویت ملی، ان کا یہ کام آنے والے برسوں میں بھی یاد رکھا جائے گا۔ الیکشن کمیشن پریشان ہے کہ جینڈر گیپ میں اضافہ ہورہا ہے۔ بیشمار خواتین کے پاس شناختی کارڈ ہی نہیں، شناختی کارڈ نہ ہونے سے خواتین صرف ووٹ ہی نہیں بلکہ 23 بنیادی حقوق سے محروم ہیں جو افسوسناک ہے، اس پر توجہ دینا ہوگی۔ ننکانہ صاحب سے ہم نے 36 ہزار ایسی خواتین کا ڈیٹا اکٹھا کیا جن کے پاس شناختی کارڈ نہیں تھا۔ ان میں سے ساڑھے 22 ہزار خواتین کے شناختی کارڈ بنوائے گئے۔یہ ایک ضلع کی صورتحال ہے، ملک بھر میں خواتین کی حالت اس سے بھی افسوسناک ہے، حکومت کو اس طرف توجہ دینا ہوگی۔

رانی شمیم اختر (نمائندہ سول سوسائٹی )

میرے ماموں نے میری تعلیم کی سخت مخالفت کی جس کے بعد مجھے پرائمری سے آگے تعلیم حاصل نہیں کرنے دی گئی اور میں اپنے بنیادی حق سے محروم ہوگئی۔ قسمت نے میرا ساتھ دیا اور مجھے خواتین کے حقوق کیلئے کام کرنے والے ایسے ادارے ملے جنہوں نے شعور دیا اور بتایا میرے حقوق کیا ہیں۔جب مجھے یہ معلوم ہوا کہ تعلیم ہمارا بنیادی حق ہے تو میں نے لڑکیوں کی تعلیم کیلئے کام کا شروع کر دیا۔میں نے سب سے پہلے اپنے خاندان سے اس اہم کام کا آغاز کیا۔ میرے وہ ماموں جنہوں نے مجھے تعلیم کے حق سے محروم کیا میں نے ان کی بیٹی کو ایف ایس سی تک تعلیم دلوائی، اسے شعور دیا اور اب وہ پولیس میں ملازمت کر رہی ہے۔ مجھے جن حقوق کا معلوم ہوتا گیا میں اپنے خاندان اور علاقے کی خواتین کو شعور دیتی رہی، آج ہمارے علاقے میں کافی بہتری آئی ہے مگر یہ تسلی بخش نہیں ہے، ابھی بھی بہت سارا کام ہونا باقی ہے۔ حکومت، سول سوسائٹی، میڈیا سمیت معاشرے کے تمام سٹیک ہولڈرز سے میری گزارش ہے کہ خواتین کے حقوق کے حوالے سے وسیع پیمانے پر آگاہی مہم چلائیں، تربیتی ورکشاپس منعقد کی جائیں جو صرف خواتین ہی نہیں بلکہ مردوں کیلئے بھی ہوں تاکہ مجموعی  طور پر معاشرتی رویے کو تبدیل کیا جاسکے۔ خواتین تعلیم، صحت و دیگر بنیادی حقوق سے محروم ہیں، انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے، ان کے استحصال کے بے شمار کیسز کہیں رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ اس جدید دور میں بھی بے شمار پاکستانی خواتین شناختی کارڈ سے محروم ہیں، ان کا کہیں اندراج نہیں ہے، ہم نے گھر گھر جاکر ننکانہ صاحب میں خواتین کو آگاہی دی اور 22 ہزار 440 خواتین کے شناختی کارڈبنوائے، ووٹ کا اندراج کرایا اور انہیں ان کے حقوق سے روشناس کرایا۔ ہمیں ملک بھر میں شناختی کارڈ سے محروم خواتین کے لیے کام کرنا ہوگا۔

صائمہ رحمن (نمائندہ سول سوسائٹی )

خواتین میں اب اپنے حقوق کیلئے کھڑے ہونے کی جرات پیدا ہوچکی ہے اور اس میں یقینا ماضی کی ان خواتین کی جدوجہد شامل ہے جنہوں میں مشکل ترین دور میں اپنے حق کیلئے آواز اٹھائی اور اپنے بعد آنے والی خواتین کو عزت و وقار کی راہ دکھائی۔ مجھے افسوس ہے کہ ایک طویل جدوجہد کے بعد بھی پاکستان کی بے شمار خواتین اور لڑکیاں اپنے حقو ق سے محروم ہیں۔ ہمارے گاؤں میں لڑکیوں کا سکول ہونے کی وجہ سے صرف میٹرک تک پڑھنے کی اجازت ملتی ہے۔ میرے والد تعلیم یافتہ ہیں لہٰذا مجھے کالج میں داخلہ لینے دیا گیا مگر جب یونیورسٹی کی بات آئی تو مسائل کھڑے ہوگئے اور مجھے تعلیم جاری رکھنے کیلئے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ مجھے معلوم تھا کہ تعلیم میرا بنیادی حق ہے لہٰذا میں نے اپنے والدین کو راضی کیا۔ اب نہ صرف میں تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوں بلکہ دیگر لڑکیوں کو بھی تعلیم جیسا اہم بنیادی حق دلانے کیلئے جدوجہد کر رہی ہوں۔ مجھے یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ بے شمار خواتین انتہائی مشکل زندگی گزار رہی ہیں، انہیں ان کے بنیادی حق سے محروم رکھا جا رہا ہے، انہیں تشدد، ہراسمنٹ و دیگر مسائل کا سامنا ہے لہٰذا ان کی مشکلات ختم کرنے کیلئے ہم سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔

آمنہ افضل (نمائندہ سول سوسائٹی )

پاکستانی خواتین ماضی میں بدترین استحصال کا شکار رہی ہیں۔خواتین کو ان کا جائز حق نہیں ملتا تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی انہیںاپنے حقوق کے بارے میں علم نہیں تھا اور جو عورت اپنا حق مانگتی تھی اس کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا تھا۔ خواتین کو نکاح نامے کا معلوم نہیں تھا، نکاح کے وقت نکاح خواں لڑکی کے حقوق کے خانے خالی چھوڑ دیتا تھا مگر اب بہت ساری خواتین کو اس حوالے سے آگاہی ہے اور وہ اپنے حقوق کے لیے آواز بھی اٹھا رہی ہیں۔ یہ خوش آئند ہے کہ ماضی کے مقابلے میں خواتین کی حالت بہتر ہے، اس میں ان خواتین کی جدوجہد کا بہت بڑا کردار ہے جن کی یاد میں خواتین کا قومی دن منایا جاتا ہے، ہم انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ خواتین کو ان کے حقوق کے بارے میں آگاہی دینے میں سماجی تنظیموں کا کردار انتہائی اہم ہے۔ آج بھی بڑی تعداد میں خواتین اپنے حقوق سے محروم ہیں، دیہی علاقوں میں خواتین کی حالت ابتر ہے۔ ہمارے علاقے میں خواتین کو بے شمار مسائل درپیش ہیں، ہم اپنی مدد آپ کے تحت اپنے علاقے کی خواتین کو آگاہی دے رہے ہیں، اب تک وہاں کی بہت ساری خواتین کو اس حوالے سے آگاہی دی جاچکی ہے جس سے قدرے بہتری آئی ہے۔ مجھے اپنے حقوق کے بارے میں آگاہی ملنے کے بعد سے اب میں اور میرا خاندان کافی تبدیل ہوچکے ہیں، اب ہم دوسروں کی زندگی بہتر کرنے کیلئے کام کر رہے ہیں۔ مجھے چائلڈ ڈومیسٹک لیبر کے حوالے سے بھی آگاہی ہے، اس بارے میں بھی لوگوں کی سوچ تبدیل کرنے پر کام جاری ہے۔ اپنے بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے علم ہونے کی وجہ سے آج میں نہ صرف خود استحصال کے خلاف آواز اٹھاتی ہوں بلکہ دوسروں کو بھی بتاتی ہوں کہ ان کے حقوق کیا ہیں اور اپنے حق کیلئے کس طرح آواز اٹھانی ہے۔ میرے نزدیک اگر کمیونٹی اور تعلیمی اداروں کی سطح پر انسانی حقوق، خواتین کے حقوق، بچوں کے حقوق وغیرہ کی تعلیم دی جائے، انہیں باشعور بنایا جائے تو معاشرتی مسائل کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔