ڈگری کیس: جسٹس طارق محمود جہانگیری کی تعیناتی غیرقانونی قرار، عہدے سے ہٹانے کا حکم

چیف جسٹس سرفراز ڈوگر اور جسٹس اعظم خان نے 3 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کردیا


فیاض محمود December 18, 2025
فوٹو: فائل

اسلام آباد ہائی کورٹ نے جسٹس طارق محمود جہانگیری کی تعیناتی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے عہدے سے ہٹانے کا حکم دے دیا۔

چیف جسٹس سرفراز ڈوگر اور جسٹس اعظم خان نے 3 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کردیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے جسٹس طارق جہانگیری ڈگری کیس کے اپنے جاری کردہ تحریری فیصلے میں کہا کہ طارق محمود جہانگیری کو متعدد مواقع دیے کہ وہ اپنا جواب اور متنازع تعلیمی اسناد پیش کریں، طارق محمود جہانگیری اپنا جواب اور تعلیمی اسناد پیش کرنے میں ناکام رہے، طارق محمود جہانگیری کی جانب سے کوئی معقول وجہ بھی سامنے نہیں آ سکی۔

فیصلے میں کہا گیا کہ اس صورتحال میں عدالت کے پاس مزید کارروائی کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا، ہائی کورٹ کے جج کے عہدے کے لیے اہلیت فردِ واحد سے متعلق ہوتی ہے، آئین میں مقرر کردہ اہلیت کا حامل ہونا اعلیٰ عدالت کا جج بننے کے لیے بنیادی اور لازمی شرط ہے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ طارق محمود جہانگیری جب اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایڈیشنل جج مقرر ہوئے اس وقت درست اور قابلِ قبول ایل ایل بی ڈگری کے حامل نہیں تھے، بعد ازاں مستقل جج بننے کے وقت بھی طارق محمود جہانگیری درست اور قابلِ قبول ایل ایل بی ڈگری کے حامل نہیں تھے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ جب طارق محمود جہانگیری وکیل بننے کے اہل ہی نہیں تھے تو آرٹیکل 175-A کے تحت ہائیکورٹ کے جج بننے کے اہل بھی نہیں ہو سکتے تھے، بطور جج تقرری اور ترقی غیر قانونی اختیار کے تحت کی گئی، طارق محمود جہانگیری اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج کے عہدے پر فائز نہیں رہ سکتے۔

فیصلے کے مطابق جسٹس طارق محمود جہانگیری کو فوری طور پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج کے عہدے سے فارغ کر دیا گیا، وزارتِ قانون و انصاف کو جسٹس طارق محمود جہانگیری کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا حکم دے دیا گیا۔

عدالت نے عدالتی حکم نامے کی کاپی وزارتِ قانون کو فوری بھجوانے کی ہدایت کی اور تمام زیرِ التوا متفرق درخواستیں نمٹا دیں۔

جسٹس طارق جہانگیری فیصلہ سنائے جانے سے آدھا قبل ہی اسلام آباد ہائی کورٹ سے روانہ ہوگئے تھے۔

سماعت کا احوال

اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے سماعت کی تو جسٹس طارق جہانگیری ذاتی حیثیت میں پیش نا ہوئے۔

ان کی جانب سے اکرم شیخ ایڈوکیٹ اور بیرسٹر صلاح الدین نے دلائل دیے ۔رجسٹرار کراچی یونیورسٹی عمران صدیقی نے بتایا کہ اسلامیہ لا کالج کے پرنسپل کے مطابق طارق محمود جہانگیری ان کے سٹوڈنٹ ہی نہیں تھے۔

انہوں نے ڈگری حاصل کرنے کے لیے جعلی انرولمنٹ فارم استعمال کیے۔  چیف جسٹس نے پوچھا آپ یہ بتائیں کہ حتمی طور پر کیا فیصلہ ہوا ؟ جس پر رجسٹرار نے بتایا کراچی یونیورسٹی نے حتمی طور پر جسٹس طارق جہانگیری کی ڈگری کینسل کر دی تھی۔

اسلام آباد بار کونسل کے ممبر راجا علیم عباسی اور بیرسٹر صلاح الدین نے کہا یہ کاروائی سندھ ہائیکورٹ نے معطل کر رکھی ہے۔

میاں داؤد ایڈوکیٹ نے کہا یہ اسٹے لیکر بیٹھے ہیں لیکن سندھ ہائیکورٹ کی وجہ سے یہ کارروائی رک نہیں سکتی، جسٹس طارق جہانگیری یہاں عدالت میں قرآن پاک کی جھوٹی قسم اٹھا کر چلے گئے۔ میں بھی قسم اٹھا کر کہتا ہوں کہ ان کی ڈگری اور انرولمنٹ فارم بوگس تھے۔ اگر وہ سچے ہیں تو ایل ایل بی پارٹ ون اور پارٹ ٹو کی مارکس شیٹس لے آئیں۔

جسٹس جہانگیری کے وکیل اکرم شیخ ایڈوکیٹ نے کہا آرٹیکل ٹین اے کے تحت شفاف ٹرائل ان کے موکل کا حق ہے۔ جسٹس جہانگیری نے چیف جسٹس اور دیگر ٹرانسفر ججز کے خلاف مقدمہ کیا۔ آپ اس کیس میں ریسپانڈنٹ ہیں، آپ ڈیو پراسیس کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ آپ کے پاس یہ کیس سننے کا کوئی دائرہ اختیار نہیں۔

بیرسٹر صلاح الدین نے کیس کو غیر معینہ مدت تک ملتوی کرنے کی استدعا کی اور مؤقف اپنایا کہ جواب جمع کرانے کے لیے 30 دن کا وقت دی، یہ معاملہ سندھ ہائی کورٹ کا دائرہ اختیار ہے، اس عدالت کے سامنے قابل سماعت نہیں، میرٹ پر دلائل نہیں دے رہا، صرف اپنی درخواستوں پر دلائل دے رہا ہوں۔

بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ ڈیڑھ سال سے پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ ڈگری جعلی ہے، ڈگری جعلی ہے، آج رجسٹرار کراچی یونیورسٹی نے یہاں تسلیم کیا کہ ایل ایل بی پارٹ ون ٹو تھری میں وہ موجود تھے، رجسٹرار کراچی یونیورسٹی نے یہ کہا ہے ان کی ڈگری کے پراسس میں بے ضابطگی تھی۔

بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ کراچی یونیورسٹی نے تسلیم کیا ڈگری جاری کی جس کو کینسل کیا، رجسٹرار کراچی یونیورسٹی نے تسلیم کیا یہ فیک ڈگری کا نہیں بلکہ بے ضابطگی پر کینسل کرنے کا کیس ہے۔

انہوں نے استدلال کیا کہ یہ ابھی طے ہونا ہے کراچی یونیورسٹی 40 سال بعد سچ کہہ رہی ہے یا نہیں، رجسٹرار کراچی یونیورسٹی نے سندھ ہائیکورٹ کے سامنے حکم امتناع پر اعتراض نہیں کیا۔

بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ کراچی یونیورسٹی نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں جواب جمع کرایا لیکن یہ چھپایا کہ سندھ ہائیکورٹ نے ڈیکلریشن معطل کر رکھا ہے، رجسٹرار کراچی یونیورسٹی کے حقائق چھپانے پر ان کے خلاف سندھ ہائیکورٹ میں توہین عدالت کی درخواست دائر کر رکھی ہے، سندھ ہائیکورٹ نے کراچی یونیورسٹی کا ڈیکلریشن سمیت تمام کاروائی معطل کر رکھی ہے۔

بیرسٹر صلاح الدین نے دلیل دی کہ یہ عدالت اس صورت حال میں کیس کی کاروائی آگے نہیں بڑھا سکتی۔

چیف جسٹس نے بیرسٹر صلاح الدین سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے ابھی جواب جمع نہیں کرایا ؟بیرسٹر صلاح الدین نے جواب دیا کہ کل تین بجے ایچ ای سی کا ریکارڈ ہمیں ملا ہے۔

 

مقبول خبریں