شاعر اور مشکائر

سید کامی شاہ  منگل 6 اپريل 2021
یہ نام نہاد شاعر مانگے تانگے کے خیالات سے اپنے تئیں خود کو عظیم تصور کرتے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

یہ نام نہاد شاعر مانگے تانگے کے خیالات سے اپنے تئیں خود کو عظیم تصور کرتے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

شاعری کو جزوِ کارِ پیغمبری قرار دینے والوں کے نزدیک شاعری کی سب سے بڑی خوبی شعور و آگہی کا فروغ، علم و ہنر کی فیض رسانی، امید افزائی اور زندگی کی جمالیات سے حظ کشید کرنا رہی ہوگی، کہ پیغمبرانِ خدا بھی انسان کو رشد و ہدایت کے ساتھ ساتھ علم و ادب، شعور و آگہی اور امیدِ فردا فراہم کرتے ہیں۔ اس لیے علم و ہنر کے میدان میں شاعری سب سے افضل قرار پاتی ہے۔

ظلمتوں کے دشت میں اک مشعلِ خود سوز ہوں
روشنی پھیلاؤں گا ثروت جہاں تک جاؤں گا
(ثروت حسین)

مگر پچھلے آٹھ دس سال میں سوشل میڈیا کے توسط سے جو شاعری ہم تک پہنچ رہی ہے اسے دیکھ کر ہم نے اس قسم کے قافیہ پیما خواتین و حضرات کےلیے ایک لفظ ایجاد کیا ہے ’’مشکائر‘‘، یعنی ایسے شاعر جن کے اشعار سے اور خود ان کے وجود سے کائرتا کی بو آتی ہے۔

ہندی کے لفظ کائرتا کا فارسی کے لفظ بزدلی سے کوئی تقابل نہیں کہ کائرتا بزدلی، بد دماغی، نکمے پن، نٹھلتا، عیب جوئی اور بے ہنری سے بھی بڑی کوئی چیز ہے۔ جس کا پرچار کرنے میں اردو کے کچھ مشکائر شدومد سے مصروف ہیں اور اپنی اس تگ و دو کو شاعری کا مقدس نام دیتے ہیں۔ جبکہ خلیل جبران کہتا ہے کہ شاعری ہمیشہ پاکیزہ روحوں میں گھر بناتی ہے۔

رہی بات مشکائروں کی، تو کسی کو اپنے اس مصرع پر فخر ہے کہ

میں سارے گاؤں کے حصے کا پانی بیچ دیتا ہوں

کہیں گھینسا گھینس اور بھینسا بھینس کو شاعری قرار دیا جارہا ہے۔ تو کوئی جدتِ خیال کے چکر میں

زمیں سے گرتے ہیں روز فلک کی جانب

جیسے ابہامی مصرعے گھڑ رہا ہے۔

مشکائر سے پوچھا کہ جناب زمین سے کوئی چیز فلک کی جانب جائے گی تو وہ گرے گی یا اڑے گی؟

تو ایک کمال طنزیہ استہزا کے ساتھ فرمایا۔ فارسی میں فلک کے معنی آسمان کے نہیں ہوتے۔

عرض کیا مگر حضور آپ شعر تو اردو میں کہہ رہے ہیں تو اس پر اردو کی لسانیات کا قاعدہ لاگو ہوگا یا فارسی کا؟

تو رعونت سے فرمانے لگے جاہل آدمی جاؤ پہلے کچھ پڑھ کر آؤ۔

خیال آیا کہ کوئی اتنا احمق کیسے ہوسکتا ہے؟ تو ہمارے بے تکلف دوست نے کہا ہوسکتا ہے بھئی، اس دنیا میں سب کچھ ہوسکتا ہے۔ یہاں تک کہ ایسے مشکائر بھی خود کو شاعر قرار دے سکتے ہیں۔ بقول شاعر

خود کو شاعر قرار دیتے ہیں
دعویٰ داری ملاحظہ کیجیے

اور ویسے بھی جہالت نہ جاننے کا نہیں نہ ماننے کا نام ہے۔ ان میں سے بہت سارے مشکائر جانتے تو ہیں مگر پھوٹے منہ سے تسلیم نہیں کرتے کہ واقعتاً اردو شاعری ہر دور میں شاندار شاعروں کے جلو میں فروغ پاتی رہی ہے۔

لباسِ سرخ پہن کر جو وہ جواں نکلا
پناہ مانگتا مریخِ آسماں نکلا
(حیدر علی آتش)

تو ہم نے آتش و مصحفی سے لے کر شاہین عباس، کاشف حسین غائر، دلاور علی آذر، عمران شمشاد اور علی زریون تک بہت سے شاعروں کو پڑھا، سر دھنا اور یہ جانا کہ اردو شاعری میں نیل فلک، نیل گگن، نیلی چھتری، چرخِ نیلگوں، ارض و سما، ہفت افلاک وغیرہ کی تراکیب آسمان کے معنوں میں ہی برتی جاتی ہیں اور بلندی کے استعارے کے طور پر ہی تسلیم شدہ ہیں۔

بارِ ہفت افلاک بھی اس ناتواں شانے پہ ہے
زلف سے کہنا کہ آہستہ سرِ شانہ کھلے
(میر احمد نوید)

مگر مشکائر کا کہنا ہے کہ لوگ زمین سے فلک کی جانب گررہے ہیں، جس پر سوائے ہنسنے یا سر پیٹنے کے آپ کچھ نہیں کرسکتے۔ سو بہتر ہے کہ مشکائروں کی باتوں پر ہنس لیا جائے کہ یہ علم و ہنر اور رشد و ہدایت سے محروم بے چارے دوسروں کی اچھی شاعری پڑھ کر ویسے بھی اپنا سر پیٹتے رہتے ہیں کہ ان کے بھوسہ بھرے دماغ میں ایسا خیال کیوں نہیں آتا۔

سایہ داری کی روایت کہاں آپہنچی ہے
موجِ خوں چھاؤں کیے رہتی ہے تلواروں پر
(شاہین عباس)

چلیے اسی تناظر میں سیدی شاہین عباس کے کچھ اور شعر بھی سنیے۔

جو خواب اپنے اپنے نہیں دیکھتے تھے
اب آنکھیں تو دیکھیں ذرا اپنی اپنی
۔۔۔۔
شامِ شور انگیز یہ سب کیا ہے بے حد و حساب
اتنی آوازیں نہیں دنیا میں جتنا شور ہے
سامنے کی یاد جُڑتی ہے بہت پیچھے کہیں
سب عقب سے آرہا ہے آگے جتنا شور ہے
۔۔۔۔
آتشِ غم پہ نظر کی ہے کچھ ایسے کہ یہ آنچ
بات کر سکتی ہے اب میرے برابر آکر
۔۔۔۔
ازل، ابد میں ٹھنی ہے سو میں نکلتا ہوں
مری کڑی سے ترا سلسلہ خراب نہ ہو

اس کائنات میں ہر چیز کسی نہ کسی قاعدے اور قانون کے تحت چلتی ہے، اگر نہیں چلتے تو فقط مشکائر ہیں جو مانگے تانگے کے خیالات لے کر اپنی کائرتا کے منطقوں میں بیٹھے دوسروں کے خیالات کی جگالی کرتے رہتے ہیں اور اپنے تئیں خود کو عظیم تصور کرتے ہیں۔ ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ کوئی بھی شخص کسی بھی نوعیت کا دعویٰ کرنے میں آزاد ہے مگر اس دعوے کی تصدیق کےلیے کسی نہ کسی نوعیت کی سند بھی درکار ہوتی ہے، جس سے یہ مشکائر بے چارے سدا سے محروم ہیں۔ سو ان کی بے چارگی پر رحم ہی کھایا جاسکتا ہے۔ نوجوان شاعر اور ہمارے دوست دلاور علی آذر نے ایسے ہی مشکائروں کےلیے کہا تھا۔

سائے کو شاملِ قامت نہ کرو، آخرِکار
بڑھ بھی جائے تو یہ گھٹنے کےلیے ہوتا ہے

اب اگر یہ مشکائر گھَٹنے کو گھُٹنے پڑھتے رہیں تو ہم اس کے ذمے دار نہیں ہوں گے۔

ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں ہے

عرب کا مشہور ادیب اور شاعر نزار قبانی کہتا ہے کہ بچہ اور شاعر اس دنیا میں دو ہی ایسے ساحر ہیں جو اس پوری کائنات کو ایک اچھلتی ہوئی گیند میں تبدیل کرسکتے ہیں۔

ہوتا ہے نہاں گرد میں صحرا مِرے ہوتے
گھِستا ہے جبیں خاک پہ دریا مِرے آگے
(غالب)

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سید کامی شاہ

سید کامی شاہ

سید کامی شاہ معروف شاعر اور کہانی کار ہیں؛ اور تنقیدی مضامین بھی لکھتے ہیں۔ ان کی شاعری کے دو مجموعے ’تجھ بن ذات ادھوری ہے‘ اور ’قدیم‘ کے نام سے شائع ہوچکے ہیں۔ آج کل نظموں کی کتاب ’’نظم تجھ کو تلاش کرتی ہے‘‘ اور ناول ’’کشش کا پھل‘‘ پر کام کررہے ہیں۔ ان کی کہانیوں کی کتاب ’’کاف کہانی‘‘ کے عنوان سے اشاعت کے مراحل میں ہے۔ کامی شاہ طویل عرصے سے الیکٹرونک میڈیا سے وابستہ ہیں اور آج کل ایک نجی میڈیا ہاؤس میں ویب پروڈیوسر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔