کراچی میں بڑھتے جرائم پولیس تماشائی یا حصے دار

کراچی کے شہریوں کو ہر ماہ اوسطاً پونے تین کروڑ روپے مالیت کے موبائل فونز سے محروم کر دیا جاتا ہے، رپورٹ


منصور مانی June 23, 2021
کراچی کے شہریوں کو ہر ماہ اوسطاً پونے تین کروڑ روپے مالیت کے موبائل فونز سے محروم کر دیا جاتا ہے، رپورٹ(فوٹو:فائل)

لاہور: سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کراچی کی آبادی تقریباً ایک کروڑ ساٹھ لاکھ چون ہزار ہے، جب کہ غیر سرکاری سطح پر کراچی کی آبادی کو دوکروڑ کے آس پاس بتایا جاتا ہے۔ 2020 کی کراچی پولیس بجٹ رپورٹ کے مطابق کراچی پولیس میں 87558 پولیس اہلکار کام کر رہے ہیں، جس میں آفس ورکرز بھی شامل ہیں، تقریباً 10000 پولیس اہلکاربھی جو کے وی آئی پی ڈیوٹی پر اہم لوگوں کو سیکورٹی فراہم کر رہے ہیں۔

کراچی پولیس مسائل اور وسائل

کراچی شہر میں 116 پولیس اسٹیشن اور پچاس پولیس چوکیاں ہیں، کچھ تھانوں کو ایک ہی عمارت میں ضم کیا گیا ہے جیسے کورنگی تھانہ اور عوامی کالونی تھانہ۔ اوسطاً ایک پولیس اسٹیشن میں 150 سے 250 تک کی نفری ہوتی ہے جس میں افسران، سپاہی ،شعبہ تفتیش اور شعبہ آپریشن کے لوگ شامل ہوتے ہیں۔ کراچی کے دو کروڑ عوام کی جان و مال کے تحفظ کی ذمے داری تقریباً پچیس ہزار پولیس اہلکاروں پر ہے، جس میں شعبہ تفتیش کے لوگ بھی شامل ہیں۔ اس حساب سے 800 لوگوں کے لیے ایک پولیس اہلکار۔

1:8 کا تناسب کراچی کی آبادی کے حساب سے انتہائی کم ہے، اور اگر آپ ان پچیس ہزاراہلکاروں میں سے تفتیشی عملہ نکال دیں تو یہ تناسب مزید بڑھ جاتا ہے۔ بین الااقوامی معیار کے مطابق 450 لوگوں کے لیے ایک پولیس اہلکار ہونا چاہیے۔ سپریم کورٹ کے حکم پر وفاقی محتسب نے پولیس ری فارمز کے حوالے سے ایک کمیٹی بنائی جس نے کڑی محنت کےبعد کچھ تجاویز دیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پولیس اسٹیشن میں عملے کی تعیناتی کا تناسب کچھ اس طرح ہے۔

1۔ کانسٹیبلری 88 فیصد

2۔ نان گزیٹیڈ آفیسر 11.5 فیصد

3۔ گزیٹیٹد آفسیرز 0.87 فیصد

رپورٹ کے مطابق 90 فیصد کانسٹیبل غیر تعلیم یافتہ ہیں، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پولیس اسٹیشن میں سب سے اہم پوسٹ پولیس اسٹیشن آفیسر کی ہوتی ہے تجویز دی گئی کہ ایس ایچ او کم از کم گریڈ 17 کا کوئی آفیسر ہونا چاہیے اور رینک کے حساب سے شہری علاقوں میں ڈی ایس پی یا اے ایس پی کو ہی اسٹیشن آفیسر ہونا چاہیے یہ تجویز پاکستان میں بڑھتی ہوئی ڈیموگرافک تبدیلی کی وجہ سے دی گئی تھی۔

کراچی پولیس کو اس وقت افرادی قوت میں کمی کا سامنا ہے، کراچی پولیس کے پاس نہ صرف افرادی قوت کم ہے بلکہ وہ وسائل کی کمی کا بھی شکار ہے، پولیس اسٹیشن میں اسٹیشنیری، ڈیزل، اور ضروری سامان کا ہمیشہ فقدان رہتا ہے بجٹ کی کمی اس کی ایک اہم وجہ ہے۔ مالی سال برائے 2020 میں کراچی پولیس کے لیے تقریباً 54 ارب 55 لاکھ کا بجٹ تھا جس میں 41 ارب کی تنخوائیں بھی شامل تھیں جب کے تقریباً 12 ارب دیگر اخراجات کی مد میں تھے۔ بجٹ کی اس کمی کو پولیس اسٹیشن کے اہلکار اپنے طریقے سے پورا کرتے ہیں جس سے کرپشن کا راستہ کھل جاتا ہے۔ کراچی کے اکثر پولیس اسٹیشن وسائل کی کمی کا شدید شکار ہیں اکثر پولیس اسٹیشن کسی بھوت بنگلے کا سا منطر پیش کرتے ہیں ، گندگی، بدبو، مخدوش فرنیچراکثراسٹیشن اسی طرح آپ کا استقبال کرتے ہیں۔ کراچی میں سب سے زیادہ گندے تھانوں میں تھانہ زمان ٹاون کورنگی اور کھوکرا پار تھانوں کا شمار ہوتا ہے۔

تھانہ زمان ٹاؤن ، کورنگی ڈسٹرکٹ ایسٹ زون

پولیس جوانوں کو سب سے زیادہ شکایت اپنےعلاج اور معالجے کے حوالے سے ہے، کراچی پولیس کے لیے ایک سروسسز اہسپتال ہے لیکن وہاں سہولیات کا فقدان ہے اپنی جان ہتھیلی پر کام کرنے والوں کے لیے صحت کی سہولیات فراہم کرنا سندھ حکومت کی ذمے داری ہے جس میں وہ ناکام نظر آتی ہے۔ شعبہ تفتیش اور فارینزک کے حوالے سے بھی محکمہ مکمل طور پرتربیت یافتہ عملہ لانے سے قاصر ہے ایک تفتیشی افسر کے مطابق ان کے پاس قتل، اغوا، اور جنسی زیادتی جیسے گھناؤنے جرائم سے نمٹنے اور تفتیش کے لیے سہولیات جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ نہیں، بہت سے تفتشی افسروں کو اس بات کا علم ہی نہیں کہ جنسی زیادتی کی شکارخاتون کے ساتھ کس طریقہ کار کے مطابق شواہد اور جوابات حاصل کرنے چاہیے، تربیت کی یہ کمی جرم کی جگہ پربعض اوقات شواہد کو شدید نقصان پہنچا دیتی ہے۔

سندھ پولیس کو چاہیے کہ وہ فارینزک اور شعبہ تفتیش کے محکموں پر خصوصی توجہ دے، خاص طور پر فارینزک کو اس وقت اچھے افسران کی ضرورت ہے، محکمہ میں کہا جاتا ہے کہ عمومی طور پر جس افسر کی کارکردگی بہتر نہیں ہوتی اسے فارینزک بھیج دیا جاتا ہے، اس رویے کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

کراچی پولیس

کراچی پولیس ایڈیشنل آئی جی کی سربراہی میں کام کرتی ہے، یہ مختلف یونٹس سی آئی اے، مددگار 15، محافظ، اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ (ایس ایس یو) وغیرہ پر مشتمل ہے۔ ہر ڈسٹرکٹ کا ایک ڈی آئی جی اور پھر اس کے بعد شعبہ آپریشن اور شعبہ تفتیش کے اعلی افسران(ایس ایس پی، ایس پی،اے ایس پی) اور پولیس اسٹیشن کی سطح پر افسران (ڈی ایس پی ،ایس ایچ او، انسپکٹر، سب انسپکٹر، اے ایس آئی)اور ہیڈ محرر، ہیڈ کانسٹیبل اور کانسٹیبل ہوتے ہیں۔

ڈسڑکٹ ایسٹ زون(ڈسٹرکٹ کی سطح پر عہدے)

کراچی پولیس: بد عنوانی کی ایک وجہ سیاسی دباؤ

کراچی کی بڑھتی ہوئی آبادی کے حساب سے پولیس کی نفری ناکافی ہے، پولیس افرادی قوت میں کمی اور اکثر افسران کی جرائم پر قابو پانے میں عدم دلچسپی کی وجہ سے جرائم کو ختم کرنے میں ناکام ہیں۔ پولیس افسران سیاسی دباؤ یا ذاتی مفاد کی خاطربدعنوانی میں ملوث ہوتے ہیں۔ پولیس میں بدعنوانی ایک سپاہی سے لے کر اعلی سطح تک موجود ہے، ہرسطح پر اس کی نوعیت بدل جاتی ہے.

کراچی میں ایڈیشنل آئی جی اور ڈی آئی جی کی تقرری آسان کام نہیں، عمومی طور پر سیاسی جماعتیں ان عہدوں پر ایسا آفیسر لانا چاہتی ہیں جو ان کی سیاسی پالیسی اور مفادات کا خیال رکھے، اور اگرکوئی آئی جی یا ڈی آئی جی مفادات کا خیال نہیں رکھتا تو اس کا تبادلہ کر دیا جاتا ہے۔ ڈی آئی جی کے بعد اہم عہدہ ایس ایس پی کا ہوتا ہے جو کہ ڈسٹرکٹ کی سطح پر عمومی طو ر پرکئی تھانوں کی سر براہی سمیت آپریشن اور تفتیش کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔ اس عہدے پر بھی سیاسی پوسٹنگ کروانے کی کوشش کی جاتی ہے اور عمومی طور پر اس عہدے کے حامل آفیسرکو سیاسی دباؤ بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، اگر بدعنوانی کی بات کی جائے توزمیںوں پرقبضے میں سہولت کاری سر فہرست ہے۔ اعلی سطح کے افسران کو سیاسی دباؤ ڈالونے کے لیے کس طرح استعمال کیا جاتا ہے۔ کراچی پولیس میں اعلی سطح کے افسران زیادہ تر سیاسی اثر و رسوخ کا نشانہ بنتے ہوئے استعمال ہوتے ہیں اور سیاسی وابستگی کی وجہ سے مالی اور ذاتی مفاد بھی اٹھاتے ہیں ۔ بہت کم افسران ایسے ہوتے ہیں جو کسی بھی قسم کے سیاسی دباؤ کے آگے سر نہیں جھکاتے۔

کراچی پولیس: بد عنوانی کی دوسری وجہ پولیس اور زرد صحافت

خبر کے حصول کے لیے صحافیوں کا پولیس اہل کاروں سے رابطہ ایک معمول کی بات ہے، الیکٹرونک میڈیا کی آمد سے قبل اخبارات کے کرائم رپورٹرز کی بڑی بات ہوا کرتی تھی الیکٹرونک میڈیا کی آمد کے بعد اس میں نیوز چینلز کے کرائم رپورٹرز کا بھی اضافہ ہو گیا۔ پولیس رشوت اور لین دین کے حوالے سے ہمیشہ بدنام رہی ہے رشوت کی اس بہتی گنگا میں چند کرائم رپورٹرز کو چھوڑ کر سب ہی اپنے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ کسی خبر کو دبانا ہو یا کسی کی پولیس افسر کی ترقی کرائم رپورٹرز بھی اب لین دین میں پولیس سے پیچھے نہیں۔ گذشتہ دنوں ایک مقامی اور کم اشاعتی اخبار کے کرائم رپورٹرز کا پولیس کے ساتھ مل کرلوگوں سے پیسے بٹورنے کا واقعہ سامنے آیا، سوشل میڈیا پر اس صحافی کو جعلی صحافی، دو نمبر صحافی کے نام سے پکارا گیا وجہ شاید اس کا لفافے لینا یا پھر ایک چھوٹے اور غیر معروف اخبار سے رجسٹر ہو نا تھا۔

اس چیز نے ایک سوال کو جنم دیا کیا بڑے اور مستحکم اداروں کے کرائم رپورٹرز بھی پولیس کے ساتھ لفافہ جرنلزم میں ملوث ہو سکتے ہیں؟ اور وہ کیا مالی یا غیر مالی فوائد ہو سکتے ہیں جو کوئی کرائم رپورٹر پولیس کے ساتھ مل کر اٹھا سکتا ہے۔ اس حوالے سے ہم نے کراچی کے تقریباً پچاس بڑے کرائم رپورٹرز سے ایک سروے کیا تاکہ یہ جان سکیں کہ کتنے فیصد بڑے اداروں کے کرائم رپورٹرز لفافہ جرنلزم میں ملوث ہیں اور پولیس کے ساتھ مل کر کس قسم کے کاروبار اور جرائم میں ملوث ہیں۔

اس حوالے سے ہم نے ایک سوال نامہ ترتیب دیا جس میں ان کرائم رپورٹرز سے پوچھا گیا کہ ایک کرائم رپورٹرر کس طرح تفتیشی افسر یا تھانے دار پر اثر انداز ہو سکتاہے؟، اور کس طرح ایک بڑے ادارے کا کرائم رپورٹر پولیس کے ساتھ مل کر مالی فائدہ اٹھا سکتا ہے اس سروے کے نتائج چشم کشا اور شرم ناک ہیں۔ سروے کے دوران کئی صحافیوں کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ کس طرح پولیس کے ساتھ مل کر بھتہ خوری تک میں ملوث ہیں۔ صحافیوں کے لیے یہ بات باعث شرم ہے کہ اکثر پولیس افسران نے کرائم رپورٹرز کے ریٹ تک مقرر کر رکھے ہیں یہ ریٹ ٹی اے ڈی اے کے نام پر ہزار سے شروع ہوتے ہیں اور لاکھوں تک جاتے ہیں۔ بڑے اداروں کے اکثر کرائم رپورٹرز نے اپنے ماتحت رکھے ہوئے ہیں جو ان کے نام پر وصولی کرتے ہیں۔

ایسے ہی پاکستان کے ایک بڑے ادارے کے صحافی ہیں جن کی خدمات کے عوض انہیں ایک مشہور شہید پولیس افسر نے کلفٹن میں فلیٹ لے کر دیا تھا ، پھر کچھ کرائم رپورٹرز ایسے بھی ہیں جو صحافتی تنظیموں میں عہدے پر رہے ہیں اور پولیس کے ساتھ مل کر اسمگل شدہ چھالیہ، ٹائرز اور ایرانی پیٹرول تک کی لین دین میں ملوث ہیں۔ ان بڑے اداروں کے اکثر کرائم رپورٹرز لینڈ گرینگ، مکان پر قبضہ، مکان پر سے قبضہ چھڑوانا، افسران کے تبادلے ترقی،جوئے خانے حد تو یہ ہے کہ ٖفحاشی کے اڈے تک چلانے میں ملوث ہیں۔ یہ صحافی عملی طور پر پولیس کے بیٹر بن کر کام کرتے ہیں۔

اس حوالے سے فہیم صدیقی(سینئر صحافی، جنرل سیکریٹری، کراچی یونین آف جرنلسٹ برنا) کا کہنا تھا کہ 'زرد صحافت سے کسی بھی معاشرے میں اور کسی بھی دور میں انکار نہیں کیا جا سکتا ماضی میں بھی ہم نے بعض کرائم رپورٹرز سمیت مختلف بیٹس پر کام کرنے والے رپورٹرز کے لائف اسٹائل کو ان کی ماہانہ آمدنی سے جدا دیکھا ہے اور آج بھی ایسے کردار مل جاتے ہیں اور انہیں دیکھ کر پہلا سوال یہ ہی ذہن میں آتا ہے کہ ان کے دیگر ذرائع آمدنی کیا ہیں؟ اور یقیناً ایسے ذرائع کو جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔'

اسی سروے کے حوالے سے سینئر تحقیقاتی صحافی اور کراچی یونین آف جرنلسٹ دستور کے سینئر رکن عامر لطیف نے رائے دیتے ہوئے کہا ،' کسی بھی کرائم رپورٹر کی تفتیشی افسر یا تھانے دار پر اثر انداز ہونے کی دو نوعیت ہو سکتی ہیں ایک تو یہ کہ ایک روٹین کے کام ہیں جو کرائم رپورٹر اور تھانے دار کے درمیان ہیں جیسے مبینہ طور پر متعلقہ تھانے کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں کئی جرائم جو شہر میں ہو رہے ہیں ان کی پردہ پوشی کرنا اور ان کے عوض فائدے حاصل کرنا یہ ساری باتیں چھپی ہوئی نہیں ہیں بدقسمتی سے چند کرائم رپورٹرز بھتہ خوری اور دیگر جرائم میں ان کے پارٹنر ہیں اور مالی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ دوسری نوعیت میں کرائم رپورٹر کسی بھی مقدمے میں کسی ملزم یا کسی ایک پارٹی کو فائدہ دلوانا چاہتا ہے۔'

کرائم رپورٹر ایسوسی ایشن کے صدر سمیر قریشی نے اس حوالے سے کہا' بڑے اداروں میں کام کرنے والے اکثر کرائم رپورٹرز پولیس کے پی آر او کے طور پر کرتے ہیں کئی نے اپنے واٹس ایپ گروپ بنا رکھے ہیں اور کئی رپورٹرز مالی فائدہ اٹھا رہے ہوتے ہیں۔'

ایک واٹس ایپ گروپ ایسا ہے جس میں دو صحافی گروپ ایڈمن ہیں اور اس گروپ میں پولیس کے اعلی افسران اور ایس ایچ اوز ایڈ ہیں، اس گروپ میں سوائے پولیس کی حاشیہ برداری اور توصیف کے کوئی اور کام کی چیز نظر نہیں آتی، جس کا ایک مقصد تو یہ سمجھ آیا کہ اس گروپ میں مواد یا کسی پولیس اہلکار سے متعلق خبر شیئر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ مواد آپ کے تمام اعلی افسران دیکھیں گے جس سے آپ کی ترقی تبادلہ یا تنزلی ہو سکتی ہےاور کئی فوائد بھی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

اسی طرح چند کرائم رپورٹرز ایسے ہیں جو اپنے چینل کا مائیک لے کر کسی بھی بڑی دکان یا شوروم پہنچ جاتے ہیں اور کسی بھی سقم کو بنیاد بنا کر پیکیج بنانا شروع کر دیتے ہیں مقامی پولیس ان سے ملی ہوئی ہوتی ہے بعد میں شوروم یا دکان مالک سے لاکھوں روپے وصول کیے جاتے ہیں۔ بظاہر پڑھے لکھے اور شریف النفس نظر آنے والے یہ صحافی زردصحافت کے علم بردار ہیں۔

سروے کے مطابق پاکستان کے پندرہ بڑے اور مستند نیوز چینلز اور اخبارات(کراچی) کے 66 فیصد کرائم رپورٹرز زرد صحافت میں ملوث ہیں اور ناجائز طریقوں سے مالی فوائد حاصل کر رہے ہیں۔ ایک سینئر صحافی کے مطابق کراچی کے اکثر کرائم رپورٹرز کو خبر لکھنا تک نہیں آتی اس کی ایک وجہ کرائم رپورٹرز کا کم تعلیم یافتہ ہونا بھی ہے صرف اسکرین اور چینل لوگو کے دم پر کھڑے اکثر کرائم رپورٹرز کی اپنی قابلیت صفر ہے۔

ایسا نہیں کے سب کرائم رپورٹرز کرپٹ ہوں، سروے کے مطابق 44 فیصد کرائم رپورٹرز ایسے ہیں جو کسی بھی قسم کی بد عنوانی میں ملوث نہیں گو یہ تعداد بہت کم ہے لیکن یہ ہی وہ لوگ ہیں جن سے صحافت کی آبرو باقی ہے۔ ایک صحافی جو اس وقت ایک چینل پر بیورو چیف ہیں، ماضی میں ان کی ایک خبر پر ان کے اپنے چچا جو کے ڈی ایس پی تھے کومعطل کر دیا گیا تھا ۔پولیس کی بد عنوانی میں ایک کردار ذرد صحافت کا بھی ہے خبر کو روکنا اور پولیس کی بد عنوانی پر پردہ ڈالنا جرائم میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔

کراچی پولیس: بد عنوانی کی تیسری وجہ عوام کا رویہ

کراچی میں جرائم کا شکار ہونے والے 44 فیصد عوام ایف آئی آر ہی درج نہیں کرواتے، عوام پولیس کے رویے سے بے زار ہیں، تھانے کا غلیظ اور گالی گفتار سے بھر پور ماحول انہیں تھانے سے دور رکھتا ہے یوں کئی مجرم ایف آئی درج نہ ہونے کے باعث آزاد گھومتے ہیں۔ ایک طرف تو عوام کا یہ رویہ ہے دوسری جانب اکثر لوگ ازخود پولیس کو رشوت دیتے ہیں تا کہ ان کا کام ہو سکے سڑک کے کنارے ٹھیلے لگانے ہوں یا کوئی اور کام عوام خود پولیس کو رشوت دیتے ہیں پھر اگر کوئی جرم ہو اور لوگ دیکھ رہے اس کے باوجود کوئی گواہی دینے آگے نہیں آتا، عوام کی کوشش ہوتی ہے کہ پولیس تھانے سے دور ہی رہیں۔ پولیس اور عوام کے درمیان یہ دوری جرائم میں اضافے کے ساتھ ساتھ بد عنوانی کا سبب بھی بنتی ہے اس دوری سے عوام میں پولیس کا خوف بنتا ہے اور پولیس اسی کا فائدہ اٹھاتی ہے۔

اگرعوام اور پولیس کے درمیان خوف کے رشتے کو ختم کیا جائے اور عوام دوست پولیس رویے کو فروغ دیا جائے تو پولیس کو مجرم پکڑنے اور گواہی حاصل کرنے میں بہت مدد مل سکتی ہے، جس سے جرائم کے اعداد و شمار میں بھی کمی آ سکتی ہے۔

زیرو ایف آئی آر

پاکستان پولیس آپ کو سیکشن 154 کے تحت جہاں ایف آئی آر درج کروانے کی آزادی دیتی ہے وہاں آپ کو یہ بھی آزادی ہے کہ آپ جس تھانے میں چاہیں ایف آئی آر درج کروا سکتے ہیں یہ زیرو ایف آئی آر کہلاتی ہے، جو بعد میں متعلقہ تھانے میں منتقل کر دی جاتی ہے، زیرو ایف آئی کا مقصد فوری طور پر تفتیش کا آغاز ہے۔

زیرہ ایف آئی آرسے ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اگر آپ کا متعلقہ تھانے کسی دباؤ کے باعث آپ کی ایف آئی آر درج نہیں کر رہا تو آپ کسی اور تھانے میں ایف آئی آر درج کروا سکتے ہیں جو بعد میں آپ کے تھانے میں منتقل کر دی جائے گی۔

کراچی پولیس :بد عنوانی کی چوتھی وجہ عدالتی نظام

ایک تفتیشی افسر کے مطابق ہم بہت محنت سے ملزم پکڑتے ہیں، چالان تیار کرتے ہیں لیکن کسی نہ کسی سقم کے باعث عدالت ملزم کو چھوڑ دیتی ہے یا بہت کم سزا ہو پاتی ہے، پھر کچھ وکیل ایسے ہوتے ہیں جو مقدمے کی ایسی سیٹنگ بنواتے ہیں کہ کمرہ عدالت کے باہر ہی ڈیل ہو جاتی ہے۔ کچھ بھی ہو ن چیزوں سےتفتیشی شعبے میں بدعنوانی کی راہ پیدا ہوجاتی ہے۔ تفتیشی افسر ملزمان کوعدالتی کارروائی سے ڈرا کر پیسے بٹورتے ہیں اور پھر ہلکی دفعات لگاتے ہیں۔

کراچی پولیس :بد عنوانی کی پانچویں وجہ مقامی پولیس کا نہ ہونا

کراچی پولیس میں کام کرنے والے زیادہ تر افسران اور سپاہی غیر مقامی ہیں جواہل کراچی اور کراچی سے مکمل طور پر واقف نہیں ہوتے اس سے بھی پولیس اورعوام میں دوری پیدا ہوتی ہے، بہت سے لوگوں کی پوسٹنگ عارضی طور پر ہوتی ہے تو وہ بس وقت گزارتے ہیں اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ کم وقت میں زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کر سکیں۔

کراچی جرائم کے اعداد و شمار اورتھانوں کی کارکردگی

کراچی کرائم انڈیکس کے حوالے سے پاکستان میں پہلے نمبر پر ہے جب کہ ایشیا میں گذشتہ تین برس میں کراچی کے کرائم انڈیکس میں بہتری نظر آئی ہے کراچی پندرویں پوزیشن سے رواں برس اٹھارویں پوزیشن پر آ گیا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ پولیس کا بہترین نظام ہونے کے باجود جرائم میں کمی کیوں نہیں آ رہی؟

ایک بین الااقوامی رپورٹ کے مطابق کراچی پولیس میں رشوت لینے کا تناسب 80 اعشاریہ 16 فیصد ہے۔ سندھ پولیس سے حاصل کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق کراچی میں سال 2020 میں 59861 جرائم کا ارتکاب ہوا جب کہ مئی 2021 تک 18730 جرائم ہوچکے ہیں، جب کہ 2019 میں اسی عرصے میں48703 جرائم کا اندراج کیا گیا تھا اس حساب سے اگر دیکھا جائے تو کراچی میں جرائم کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے۔

پاکستانی پولیس میں رشوت لینے کا تناسب

































نمبر شمار شہر رشوت لینے کا تناسب(فیصد)
1 کراچی 80.16
2 اسلام آباد 57.63
3 لاہور 72.14
4 پشاور 66.07
5 کوئٹہ 80.88

کراچی میں سب سے زیادہ جرائم ایسٹ زون میں ریکارڈ کیے جاتے ہیں اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ سب سے بڑا ڈسٹرکٹ ہے جس میں تقریباً 32 پولیس اسٹیشن کام کر رہے ہیں دوسرے نمبر پر ساوتھ زون اور تیسرے پر ویسٹ زون ہے ۔

کراچی کے تھانے

کراچی میں سب سے زیادہ برا حال تھانوں کا ہے اکثر تھانے ایسا ماحول پیش کرتے ہیں کہ عام آدمی اندر داخل ہوتےہوئے بھی خوف محسوس کرے کراچی کے زیادہ تر ایس ایچ اوز انتہائی گندی زبان استعمال کرتے ہیں گالی بدزبانی ان کے نزدیک ایک عام سی بات ہے، اس رپورٹ کی تیاری میں ہم نے کراچی کے اکثر تھانوں کا دورہ کیا تفتیش اور آپریشن کے لوگوں سے ملاقاتیں کیں اور علاقے میں ہونے والے جرائم کی نوعیت اور تعداد کے حوالے سے معلومات حاصل کی۔

ڈسٹرکٹ ویسٹ زون :ڈسٹرکٹ ویسٹ زون میں دو ڈسٹرکٹ لگتے ہیں ایک ڈسٹرکٹ ویسٹ دوسرا ڈسٹرکٹ سینٹرل، ڈسٹرکٹ ویسٹ میں جنوری 2021 سے اپریل 2021 تک قتل کی 25 اور اجتماعی زیاددتی کی 4 واردتیں ہو چکی ہیں۔ ڈسٹرکٹ ویسٹ کےتھانہ مومن آباد کے علاقے(فقیر کالونی،بسمہ اللہ کالونی) میں سب سے زیادہ منشیات کا کاروبار چلتاہے۔ پیر آباد تھانے کی حدود میں پانی کی چوری، اسٹریٹ کرائم اور منشیات جیسے جرائم بڑھ رہے ہیں جب کے سرجانی منگوپیر تھانے کی حدود میں لینڈ گریبنگ، اسمگلنگ(چھالیہ،چائے کی پتی، ڈیزل) جیسے جرائم عروج پر ہیں۔

کراچی میں ڈسٹرکٹ ویسٹ جرائم کے حوالے سے تیسرے نمبر پر ہے۔ ڈسٹرکٹ ساؤتھ زون کے ڈسٹرکٹ سینٹرل میں تھانہ تیموریہ، تھانہ لیاقت آباد، تھانہ اجمیر نگری تھانہ عزیز آباد اور رضویہ اسٹریٹ کرائم کا گڑھ بن چکے ہیں، تھانہ عزیز آباد میں افسران چھالیہ کی اسمگلنگ اور دیگر جرائم میں ملوث ہیں۔

جب کہ تھانہ نیو کراچی اور نیو کراچی انڈسٹریل ایریا میں مکانات اور سرکاری اراضی پر قبضے اور منشیات فروشی جیسے جرائم عام بات ہیں ڈسٹرکٹ سینٹرل میں جنوری 2021 تا اپریل 2021 تک قتل کی سات جب کہ گینگ ریپ کی 4 واردتیں ہو چکی ہیں۔

ڈسٹرکٹ ساوتھ زون: ڈسٹرکٹ ساوتھ زون میں تین ڈسٹرکٹ لگتے ہیں، ڈسٹرکٹ کیماڑی، ڈسٹرکٹ سٹی، ڈسٹرکٹ ساؤتھ۔، جرائم کے لحاظ سے ڈسٹرکٹ ساؤتھ زون کراچی میں دوسرے نمبر پر ہے یہاں سب سے زیادہ منشیات کے اڈے قائم ہیں، یہاں جنوری 2021 سے اپریل 2021 تک قتل کی 40 اور گینگ ریپ کی 3 واردتیں ہو چکی ہیں۔

ڈسٹرکٹ ساؤتھ ذون کے علاقوں ڈیفینس، کلفٹن، درخشاں اور گذری تھانوں میں زیادہ تر اسٹریٹ کرائم، فحاشی کے اڈے اور منشیات کی فروخت جیسے جرائم رپورٹ ہوتے ہیں ڈکیتی، فراڈ اور شیشہ بار جیسے جرائم بھی یہاں کافی ہوتے ہیں۔

ڈسٹرکٹ سٹی کے اکثر علاقوں میں منشیات کی فروخت اور اسٹریٹ کرائم سر فہرست ہیں۔ تھانہ پریڈی اور تھانہ صدر دونوں اہم تھانے ہیں یہاں الیکٹرونکس سمیت کئی بڑے بازار ہیں یہاں اسٹریٹ کرائم کے ساتھ ساتھ منشیات، تجاوزات جیسے جرائم عام ہیں پریڈی تھانے اور صدر تھانے کی پولیس پر رشوت اورغیر قانونی پارکنگ سے پیسے بنانے کے الزامات بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔

ڈسٹرکٹ کیماڑی میں سب سے زیادہ اسمگلنگ اور منشیات کے جرائم سامنے آتے ہیں جو ہر گزرتے سال بڑھ رہے ہیں ڈسٹرکٹ کیماڑی کے تھانہ موچکو میں اسمگلنگ کی گاڑیوں کا کام عروج پر ہے جس میں زیادہ تر بروہی اور کوئٹہ وال کے لوگ ملوث ہیں، تھانہ ڈاکسن کی حدود میں اسٹریٹ کرائم اورمنشیات جیسے جرائم اس قدر زیادہ ہیں جیسے اس علاقے میں پولیس کاوجود ہی نہیں!۔

تھانہ سائٹ کی حدود میں غیر قانونی پانی سپلائی، منشیات، اسٹریٹ کرائم جب کہ پاک کالونی تھانہ کی حدود میں بھی اسٹریٹ کرائم سب سے زیادہ ہیں۔ ڈسٹرکٹ ساؤتھ زون میں سب سے زیادہ جرائم ڈسٹرکٹ کیماڑی میں ہوتے ہیں اور ان میں کسی بھی طرح کوئی کمی نہیں آ رہی ہے۔

ڈسٹرکٹ ایسٹ زون : ڈسٹرکٹ ایسٹ زون کراچی کا سب سے بڑا زون ہے اس میں تین ڈسٹرکٹ لگتے ہیں ڈسٹرکٹ کورنگی، ڈسٹرکٹ ایسٹ اور ڈسٹرکٹ ملیر، سیاسی اعتبار سے تمام سیاسی جماعتوں کی کوشش ہوتی ہے کہ اس ڈسٹرکٹ کے ڈی آئی جی اور ایس ایس پیز ان کی سیاسی جماعت کی طرف جھکاؤ رکھنے والے کو ہی لگایا جائے۔

جرائم کے اعتبار سے کراچی میں ڈسٹرکٹ ایسٹ زون پہلے نمبر پر ہے اور اگر تھانوں کی کمائی کے حوالے سے کہا جائے تو بھی ڈسٹرکٹ ایسٹ زون پہلے نمبر پر ہے نچلی سطح پر بد عنوانی اور رشوت ڈسٹرکٹ ایسٹ زون کے تھانوں میں عام بات ہے، کراچی میں منشیات کے دوسرے نمبر پر سب زیادہ اڈے بھی اسی زون میں ہیں اور پورے کراچی میں سب سے زیادہ لینڈ گریبنگ اور تجاوزات بھی اسی زون میں کی جاتی ہے۔

ڈسٹرکٹ ایسٹ ذون میں جنوری 2021 سے اپریل 2021 تک قتل کی 67 اور اور جنسی زیاددتی کی 15 وارداتیں ہو چکی ہیں۔ ایسٹ ذون کے ضلع ملیر میں لینڈ گریبنگ، پانی کی چوری، منشیات اور بھتہ خوری جیسے جرائم زیادہ ہیں تھانہ گڈاپ میں زمینوں پر قبضے کے ساتھ ساتھ منشیات خاص طور پر آئس ڈرگ کا کاروبار عروج پر ہے۔

ایسٹ زون کے ڈسٹرکٹ کورنگی میں سب سے زیادہ اسٹریٹ کرائم، منشیات فروشی، بچوں کے ساتھ جنسی زیاددتی بھتہ خوری اور زمینوں پر قبضے جیسے جرائم عام ہیں پانی کی چوری بھی اس ڈسٹرکٹ کا ایک مسئلہ ہے۔ ڈسٹرکٹ کورنگی کے تھانے کورنگی انڈسٹریل میں جنسی جرائم کے ساتھ ساتھ منشیات فروشی زمینوں پر قبضہ(مہران ٹاون) بہت زیادہ ہے اس تھانے کو عمومی طور پر کماؤ تھانہ بھی کہا جاتا ہے۔

اسٹریٹ کرائم اور کراچی

پاکستان میں سب سے زیادہ اسٹریٹ کرائم کا شکار کراچی کے عوام بنتے ہیں کراچی پولیس اسٹریٹ کرمنلز کو پکڑنے میں بری طرح ناکام رہتی ہے، کراچی میں سب سے زیادہ اسٹریٹ کرائم ایسٹ زون اور ایسٹ زون میں بھی سب سے زیادہ ڈسٹرکٹ کورنگی میں سامنے آتے ہیں، اسٹریٹ کرمنلز اپنی چھپی ہوئی کمیں گاہوں سے نکل کر آتے ہیں اور شہریوں کو لوٹ کر فرار ہو جاتے ہیں۔

سی پی ایل سی، سندھ پولیس اور رجسٹرڈ ایف آئی آرز کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ کراچی میں ہر ماہ ہزاروں کی تعداد میں موٹر سائیکلیں، کاریں اور موبائل فون چوری اور چھینے جاتے ہیں، مئی 2020 سے مئی 2021 تک کراچی کے شہریوں کو25533 موبائل فون سے محروم کر دیا گیا اگر ان کی مالیت کا اندازہ اوسطاً 15 ہزار روپے فی موبائل بھی لگایا جائےتو ایک سال کے عرصےمیں کراچی کے شہریوں کو38 کروڑ 29 لاکھ 95 ہزار روپے کے موبائل فونز سے محروم ہونا پڑا۔

اسی طرح چھینی اور چوری کی گئی موٹر سائیکلوں کی اوسط رقم بھی 15 ہزارلگائی جائے تو ایک سال کے دوران کراچی کے شہری 71 کروڑ 53 لاکھ 65 ہزار روپے مالیت کی موٹر سائیکلوں سے محروم ہو چکے ہیں، اگر ایک کار کی اوسط رقم ڈھائی لاکھ بھی لگائی جائے توکراچی کے شہری 47 کروڑ 65 لاکھ روپے مالیت کی کاروں سے محروم ہو چکےہیں۔

یعنی اسٹریٹ کریمنلز کراچی کے شہریوں کومئی 2020 سے مئی 2021 تک ایک ارب 57 کروڑ 48لاکھ 60 ہزار روپے مالیت کی اشیا سے محروم کر چکے ہیں۔ بدقسمتی سے یہ اعداد وشمار ہر سال کم و پیش اتنے ہی رہتے ہیں اور اس مالی نقصان میں چھینی گئی رقم، گھڑی اور دیگر قیمتی چیزیں شامل نہیں ہیں۔

کیا کراچی پولیس میں سب کچھ برا ہے؟

نہیں، اگر ایسا ہوتا تو کراچی کا امن مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہوتا، ایسا ہرگز نہیں، ہرسال کراچی پولیس کے سینکڑوں جوان اور افسران اپنے فرائض سر انجام دیتے ہوئے شہید ہو جاتے ہیں، یہ پولیس جوان اور افسران دیگر اداروں کی نسبت کم مراعات ووسائل میں اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں، اگر کراچی پولیس کو وسائل میسر ہوں اور افرادی قوت دی جائے تو کراچی پولیس کسی بھی ترقی یافتہ ملک کی پولیس کی طرح نتائج دے سکتی ہے۔ اچھے وسائل اور بہترین مراعات بد عنوانی کا راستہ بھی بند کر سکتی ہیں۔ کراچی پولیس کے پاس ابھی بھرپور وسائل نہیں اس کے باجود دیانت دارپولیس افسروں اور جوانوں کی مددسے ہی محکمہ نتائج دے رہا ہے۔

مقبول خبریں