رشتوں کی تصویر متوازن بنائیے

راضیہ سید  پير 31 جنوری 2022
زندگی کی تصویر کو متوازن اور دلکش بنانے کی ذمے داری ہماری اپنی ہے۔ (فوٹو: فائل)

زندگی کی تصویر کو متوازن اور دلکش بنانے کی ذمے داری ہماری اپنی ہے۔ (فوٹو: فائل)

مصوری کی کلاس میں استاد نے تمام طالبعلموں کو مخلتف لیکن متوازن تصویر بنانے کو کہا۔ اس تصویرکشی کےلیے مناسب وقت بھی دیا گیا لیکن تمام تر بنائی گئی تصاویر میں سے ایک بھی استاد کے معیار پر پورا نہ اتر سکی۔ تمام طالبعلموں نے اپنے تئیں محنت تو کی تھی اور وہ درست بھی قرار پائیں لیکن استاد نے ان سب کو متوازن قرار دینے سے معذرت کرلی۔

طلبا کے سوال کے جواب میں کہا کہ کہیں بھی کوئی بھی تصویر متناسب نہیں ہے۔ کہیں رنگ زیادہ استعمال کیے گئے ہیں تو کہیں تخیل کینوس کا ساتھ چھوڑ چکا ہے۔ کسی جگہ ایک لکیر کی جگہ دوسری نے لے لی ہے اور کہیں منظر الگ ہی کہانی سنا رہا ہے۔ یعنی کوئی بھی درست انداز سے اپنی تصویر کے مقاصد کو بیان نہیں کرسکا۔

تمام طالب علم حیران تھے کہ اب ان کی تصاویر پر مزید کیا تبصرہ کیا جائے گا لیکن استاد نے اپنی بات کو اگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ تصاویر اس لیے درست نہیں کہ جس چیز کو جہاں ہونا چاہیے تھا وہ وہاں نہیں ہے۔

بالکل اسی طرح ہمارے رشتے بھی تصاویر میں رنگوں کی طرح ہیں۔ کہیں دادا، ابا کی شفقت ہے تو کہیں ماں کی ممتا۔ کہیں بہن بھائیوں کا احساس ہے تو کہیں میاں بیوی کی محبت۔ ان سبھی رشتوں کی وجہ سے ہماری زندگی کے کینوس پر رنگ بکھرتے ہیں۔ ایک تصویر مکمل ہوتی ہے اور ہم ایک شاہکار تخلیق دیتے ہیں۔ لیکن جہاں ان رشتوں کے درمیان توازن نہ رکھا جائے تو وہیں سے بدصورتی جنم لینے لگتی ہے۔

ہر رشتے کا ایک مقام ہے۔ ماں کی اہمیت اپنی جگہ، بہن کا تقدس اپنی جگہ اور بیوی کی محبت اپنی جگہ۔ اسی طرح استاد شاگرد، کولیگز اور دوستوں، سب کے رشتے الگ الگ ہیں لیکن ان کو بیلنس کرنا ضروری ہے۔ اگر آپ ایک رشتے کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور دوسرے کو کم، تو وہ بھی غلط ہے۔ لیکن اگر کسی رشتے کو ہمیشہ مستقل ہی اہمیت دیتے ہیں تو کل کو ہم اس کےلیے ہی ارزاں ہوجاتے ہیں۔

انسانی فطرت ہے کہ وہ ایک حد تک ہی خلوص کا مظاہرہ کرسکتا ہے۔ اس کے بعد اس کا محبت بانٹنے والا ہاتھ خالی ہوجاتا ہے۔ رشتوں کو جب ان کے مقام سے ہٹا دیا جاتا ہے تو رہی سہی محبت اور عزت بھی ختم ہونے لگتی ہے۔ جس طرح ایک تصویر میں صرف نیلا ہی نیلا رنگ ہو تو طبعیت کتنی اوب سی جاتی ہے اور تصویر کی دلکشی متاثر ہونے لگتی ہے۔

ہمیں اپنی زندگی میں سب رشتے اچھے ہی ملتے ہیں، ہاں کچھ لوگوں کو ہم برا اس لیے کہتے ہیں کہ ہمیں ان کے ساتھ تلخ تجربات اور رویوں کا سامنا ہوتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ جب ایک بار کسی کے رویے سے دلبرداشتہ ہوجائیں تو آیندہ انھیں اپنی تصویر سیاہ کرنے کا موقع نہ فراہم کریں۔ یہ رشتے نقصان دہ ہوتے ہیں جیسے سفید کاغذ پر سیاہ نقطوں اور دھبوں کی مانند۔

آپ کی زندگی میں جو انسان جیسا جیسا کردار ادا کرتا ہے ویسا ویسا آپ کے ذہن میں اس کا نقش گہرا ہوتا جاتا ہے۔ جیسا اچھے استاد کو آپ کبھی نہیں بھول سکتے۔ ماں کے ہاتھ کے کھانوں کی خوشبو آپ کو ہمیشہ یاد رہتی ہے۔ بہن بھائیوں کا آپ کی سالگرہ کو یاد رکھنا اور نوک جھونک آپ کے لبوں پر مسکراہٹ بکھیر دیتی ہے اور ایک جیون ساتھی کا ساتھ آپ کی زندگی کو اور بھی خوبصورت بنادیتا ہے۔

استاد نے یہ کہہ کر اپنی بات ختم کی کہ بطور معلم میرا فرض آپ کو صرف اچھا مصور بنانا نہیں بلکہ ایک اچھا انسان بننے کی طرف مائل کرنا بھی ہے۔ زندگی کی تصویر کو بھی ایک فرضی تصویر کی طرح متوازن اور دلکش بنانے کی ذمے داری آپ کی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

راضیہ سید

راضیہ سید

بلاگر نے جامعہ پنجاب کے شعبہ سیاسیات سے ایم اے کیا ہوا ہے اور گزشتہ بیس سال سے شعبہ صحافت سے بطور پروڈیوسر، رپورٹر اور محقق وابستہ ہیں۔ بلاگز کے علاوہ افسانے بھی لکھتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔