منگنی

نصیرالدین چشتی  جمعرات 20 مارچ 2014
چٹ منگنی پٹ بیاہ والی بات بھی ٹھیک ہے۔لیکن اس میں بھی احتیاط کی ضرورت ہے . فوٹو: فائل

چٹ منگنی پٹ بیاہ والی بات بھی ٹھیک ہے۔لیکن اس میں بھی احتیاط کی ضرورت ہے . فوٹو: فائل

منگنی ٹرین کی اُس سیٹ کی طرح ہوتی ہے،جس پر آپ اپنا رومال رکھ کر کسی اچھی سیٹ کی تلاش شروع کر دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں اچھے رشتے سے پہلے منگنی کرنا ضروری ہے۔ جونہی اچھا رشتہ ملتا ہے منگنی ٹوٹ جاتی ہے اور نکاح ہو جاتا ہے۔کچھ منگنیاں بچپن میں ہوتی ہیںاور کچھ جوانی میں ہوتی ہیں۔تاہم تحقیق بتاتی ہے کہ منگنی کی ایکسپائری ڈیٹ (Exp Date) چھ ماہ سے زیادہ نہیں ہوتی۔ منگنی سے پہلے جس رشتے کی تعریف میں زمین و آسمان ایک کر دیئے جاتے ہیں،منگنی ٹوٹتے ہی اس کے برعکس بیان بازی شروع ہو جاتی ہے۔ لڑکی والوں پر اچانک کھلتا ہے کہ لڑکا شرابی ہے، آوارہ ہے، لالچی ہے اور اس کی پہلے بھی اس کی دو منگنیاں ٹوٹ چکی ہیں۔ لڑکے والے بھی عجیب و غریب الزام لگاتے ہی کہ لڑکی کا پہلے ہی کسی کے ساتھ چکر تھا،لڑکی کو دورے پڑتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔

منگنی کو پنجابی میں ‘’ ٹنگنی‘‘ بھی کہتے ہیں کیونکہ اس میں دونوں فریق انتظا ر کی سولی پر ’’ ٹنگے ‘‘ ہوتے ہیں۔ منگنی کے ابتدائی دن بہت خوبصورت ہوتے ہیں۔ منگیتر کا لفظ ہی بہت رومانٹک ہے۔لیکن جوں جوں منگنی آگے بڑھتی ہے اور دونوں ا طرف کے خاندان ایک دوسرے کے گھر آنا جانا شروع ہوتے ہیں تو دونوں طرف کے پول کھلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ خواتین اس معاملے میں اچانک ہی ایک دوسرے کو میلی آنکھ سے دیکھنے لگتی ہیں۔ ایسے موقعوں پر شکوئے بھی بڑے دلچسپ ہوتے ہیں۔ مثلا لڑکے کی بڑی بہن کو اعتراض ہوتا ہے کہ لڑکی والوں نے منگنی پر اس کے خاوند کو سوٹ کیوں نہیں دیا، چھوٹی بہن کو شک رہتا ہے کہ اس کی ہونے والی بھابھی نے بی۔اے نہیں کیا۔لڑکے کی ماں کو یہی غم کھائے جاتا ہے کہ ہم جب بھی لڑکی والوں کے گھر جاتے ہیں تو2کلو مٹھائی کا ڈبہ لے کر جاتے ہیں اور وہ جب بھی آتے ہیں ایک درجن کیلے اُٹھا لاتے ہیں جب کہ لڑکے کی خالہ اس بات پر غصے سے بھری رہتی ہے کہ اُس لڑکی سے اچھی تو اِس کی بیٹی فہمیدہ تھی، چاچی کا موڈ اس لئے خراب رہتا ہے کہ منگنی کے موقع پر اس کی تصویریں کم کھنچی گئی۔

دوسری جانب لڑکی والے بھی رفتہ رفتہ لڑکے والوں سے عاجز آنا شروع ہو جاتے ہیں،لڑکی کی ماں کا سب سے بڑا اعتراض ہوتا ہے کہ لڑکاساری تنخواہ تو ماں کے ہاتھ پر رکھتا ہے تو میری بیٹی کو کیا دے گا،لڑکی کی پھوپھی اس بات پر منہ پھلائے پھرتی ہے کہ اُسے منگنی پر بوتل نہیں ملی،تائی اس لیے رشتے کے مخالف ہو جاتی ہیں کہ لڑکا غیر ذات کاہے۔تاہم ان تمام معاملات میں دونوں طرف کے مرد حضرات حسبِ معمول لاتعلق رہتے ہیںاور جب بھی ملتے ہیں اطمینان سے اس بات پر اظہارِ خیال کرنے لگتے ہیں کہ پاکستان کا کیا بنے گا؟

منگنی ہونے کے بعدلڑکا لڑکی اچانک ہی بہت سارئے منصوبے بنانے لگتے ہیں جن میں سر فہرست ہنی مون کا مقام،بچوں کی تعداد،اپنا گھر اور زندگی بھر ساتھ نبھانے کی قسمیں شامل ہوتی ہیں۔اگلے ہی دن موبائل پر ’’ گھنٹہ پیکج ‘‘ایکٹویٹ کرلیا جاتا ہے۔ایک دوسرے کا نِک نیم تجویز کیا جاتا ہے۔اور رات گئے تک سنہرے مستقبل کہ تانے بانے بنے جاتا ہے ۔یہ کیفیت لگ بھگ ڈیڑھ ماہ چلتی ہے ۔اصل کہا نی تیسرے مہینے شروع ہو تی ہے جب اچانک ایک دن لڑکے کو لڑکی کی ما ں کا فون آتا ہے ارے بیٹا تم لوگوں نے منگنی پر جو سوٹ دیئے تھے ان کے تو رنگ پھیکے پڑنا شروع ہو گئے ہیں،یقین مانو شرم کے مارے ہم تو کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے۔اور وہ جو تم نے سونیا کو انگوٹھی پہنائی تھی وہ تو صرف چھ ماشے کی نکلی ،تمھاری ماں تو کہہ رہی تھی کہ پورے آدھے تولے کی ہے۔لڑکا بیچارہ ہوں ہاں کرتا رہتا ہے اور گھر جاتے ہی ماں پر برس پڑتا ہے کہ آپ نے اتنے اچھے لوگوں کے ساتھ ایسا سلوک کیوں کیا؟؟ ماں یہ سنتے ہی کھٹک جاتی ہے اور فوری طور پر بیٹیوں کو اکھٹا کرتی ہے۔سب مل بیٹھتی ہیںاور جی بھر کر لڑکی کی ماں کو کوستے ہوئے پوری تندہی سے سوچتی ہیں کہ منگنی توڑنے سے پہلے لڑکی والوں کے خاندان میں کیا کیا کیڑے نکالے اور ڈالے جا سکتے ہیں۔

اگلے دن لڑکے کی ماں کا فون لڑکی کو جاتا ہے کہ سونیا بیٹی تمھاری ماں نے یہ اچھا نہیں کیا ،اگر کوئی شکایت تھی تو مجھے فون کرتیں، اجمل کو کیوں کیا؟ دیکھوبیٹا شکایتیں تو ہمیں بھی بہت ہیں لیکن ہم نے کبھی ذکر نہیں کیا۔ اب خود سوچو منگنی پر تم لوگوں نے اجمل کے ابا کو راڈو کی گھڑی دی تھی ،وہ چیک کروا کے لائے ہیں ڈیڑھ سو والی راڈو ہے،اور جو میرے لیئے گرم چادر تھی وہ بھی اتنی گھٹیا کوالٹی کی ہے کہ اس سے زیادہ گرم تو میرا دوپٹہ ہے۔لڑکی بوکھلا جاتی ہے اور جب کوئی جواب نہیں بن پاتا،تو گھبرا کر فون اپنی ماں کو پکڑا دیتی ہے،تو بس پھر شروع ہوتی ہے اصل جنگ ۔ دونوں طرف کی مائیں بہنیں ایک کر کر کے رکھ دی جاتی ہیں اور اگلے دن اعلان ہو جاتا ہے کہ یہ منگنی اب اور نہیں چل سکتی ۔ اب بیچارے لڑکا لڑکی لاکھ شور ڈال لیں،لیکن منگنی وہ واحد عمل ہے جسے کرنے یا توڑنے کا اختیار لڑکا لڑکی کے گھر والوں کے پاس ہوتا ہے۔لڑکا لڑکی شادی تو اپنی مرضی سے کر سکتے ہیں لیکن منگنی نہیں،اگلے ہی دن دونوں طرف کی انگوٹھیاں واپس کر دی جاتی ہیں اور کسی اچھے سے رشتے کی تلاش شروع ہو جاتی ہے۔تاہم اب کے بار منگنی نہیں شادی ہوتی ہے۔

دراصل منگنی کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی یہ ایک علامتی معاہدہ ہوتا ہے۔اس کے ٹوٹنے پر سب سے زیادہ دکھ لڑکا لڑکی اور سب سے زیادہ خوشی ان کے قریبی عزیزوں کو ہوتی ہے،خصوصا اُن کو جن کی اولاد جوان ہو۔جو منگنیاں شادی کا فائنل جیت جاتی ہیںاُن کے پیچھے بھی تلخ اور خوشگوار یادوں کا ذخیرہ ہوتا ہیٰ۔کسی بھی چیز میں تا خیر اس کا اثر زائل کر دیتی ہے۔فریج میں پڑا کھانا بھی کچھ دنوں بعد خراب ہو جاتا ہے۔ جبکہ وقت اور حالات بھی ہمیشہ تبدیلی پر تُلے رہتے ہیں۔یہ تبدیلی مزاج سے لے کر موسموں تک ہر چیز میں آتی ہے،منگنی کے ٹوٹنے کا عمل پہلے دن سے ہی شروع ہو جاتا ہے،اسے طول مت دیں۔ ’’ منگ ‘‘ جب ’’ اُمنگ ‘‘ سے خالی ہو جائے تو بے لطیف ہو جاتی ہے۔چھ چھ سال کی عمر میں ہونے والی ایسی کتنی منگنیاں جو شادی کی لائن عبور کرتی ہیں؟

میرے مطابق منگنی کے نام پر ہم جس بندھن میں لڑکے اور لڑکی کو باندھ دیتے ہیں ،وہ ایک طرح سے دونوں کیلئے لمبی گپ شپ کا لائسنس بن جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ لمبے عرصے منگنی رہنے والے جوڑوں کی جب شادی ہوتی ہے تو ان کے پاس کہنے کو کچھ بھی نہیں رہتا۔میرے سامنے بہت سے لوگوں کی منگنیاں ’’بے قدروں ‘‘ کی یاری کی طرح ’’ تڑک کے ‘‘ ٹوٹی ہیں ۔لہذا مجھے تو یہی سمجھ میں آیا ہے کہ بندے نے اگر منگنی کرنی ہے تو پر شادی کیلئے بھی کوئی اچھی سی لڑکی دیکھ لینی چاہئے ۔

چٹ منگنی پٹ بیاہ والی بات بھی ٹھیک ہے۔لیکن اس میں بھی احتیاط کی ضرورت ہے ۔کیونکہ کبھی کبھی چٹ منگنی پٹ بیاہ اور کھٹ طلاق ہو جاتی ہے، مجھے تو ڈر ہے کہ جس رفتار سے ہمارئے ہاں منگنیوں کا رواج بڑھ رہا ہے کہیں ہماری باری سے پہلے ہی شادیوں کا رواج ہی نہ ختم ہو جائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔