مہنگی کھاد سے خوراک کی پیداوار کم ہوجائے گی؟

سید عاصم محمود  اتوار 23 اکتوبر 2022
قدرتی آفات،آب وہوائی تبدیلیوں اورروس یوکرین جنگ سے دنیابھرمیں کھادوں کی قیمتیں بڑھنے پر ڈرامائی منظرنامہ جنم لے چکا۔  فوٹو : فائل

قدرتی آفات،آب وہوائی تبدیلیوں اورروس یوکرین جنگ سے دنیابھرمیں کھادوں کی قیمتیں بڑھنے پر ڈرامائی منظرنامہ جنم لے چکا۔ فوٹو : فائل

پچھلے ایک ڈیرھ برس سے پاکستان سمیت دنیا بھر میں خوراک کی قیمتیں دگنی تگنی ہو چکیں۔اب بھی اناج، سبزی،دال اور پھلوں کی قیمتیں اونچی نیچی ہو رہی ہیں۔

حد یہ ہے کہ عام پاکستانی اب وہ غذا بھی سستی نہیں خرید سکتا جو تیس چالیس سال قبل ’’غریب کا کھانا‘‘ کہلاتی اور بہ آسانی مل جایا کرتی تھیں جیسے دال چاول،نان چنے، پکوڑے،دہی بڑے، آلو کی بھجیا وغیرہ۔غذائیںاس لیے مہنگی ہوئیں کہ عالمی زراعت پر چند برس سے قحط، سیلابوں، جنگلوں میں آگ لگنے،سمندری طوفانوں اور شدید گرمی نے حملہ کر رکھا ہے۔

ان قدرتی آفتوں نے کھڑی فصلوں پہ حملے کر کے انھیں تباہ کر ڈالا۔نیز کاشت کاری کا رقبہ بھی سکیڑ دیا۔ماہرین کی رو سے یہ قدرتی آفات انسان ساختہ آب وہوائی اور موسیاتی تبدیلیوں کے باعث پیدا ہوئیں۔

آبادی میں اضافے اور ٹڈی دل نے عالمی زراعت پہ مذید بوجھ ڈال دیا۔یہ سبھی تبدیلیاں خوراک پیدا کرنے کا عالمی نظام درہم برہم کر کے غذاؤں کی قلت جنم دے رہی ہیں۔پیداوار کم ہونے اور طلب بڑھنے سے خوارک کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔

لاکھوں انسان خطرے میں

کوویڈ وبا کے دوران خوراک کی ٹرانسپورٹیشن کا نظام (سپلائی چین)متاثر ہوا تھا اور وہ پوری طرح اب بھی بحال نہیں ہو سکا۔اس دوران روس اور یوکرین کی جنگ چھڑ گئی۔

جس نے خوراک کے نظام پہ مذید دباؤ ڈالا۔اب یہ حال ہے کہ بین الاقوامی امدادی ایجنسیوں کو مطلوبہ خوراک میّسر نہیں آ رہی۔چناں چہ جنگ زدہ اور قحط زدہ ممالک جیسے شام، افغانستان، یمن، صومالیہ، مالی،لبنان، فلسطین وغیرہ میں لاکھوں انسان بھوک وپیاس کی وجہ سے مرنے کے خطرے سے دوچار ہیں۔

امدادی اداروں کے پاس اتنی خوراک موجود نہیں کہ وہ سبھی لاچار وضرورت مند انسانوں کا پیٹ بھر سکیں۔اب خوراک کے عالمی نظام کو شکنجے میں مذید کس دینے والا ایک اور خطرناک بحران سر اٹھا چکا۔

خوراک اگانے کے بنیادی اخراجات میں بیج، کھاد اور کیڑے مار ادویہ کی خریداری، کھیت یا باغ میں کام کرنے والوں کی مزدوری اور ایندھن کا حصول شامل ہیں جس سے کہ ٹیوب ویل ، ٹریکٹراور دیگر مشینیں چلتی ہیں۔

پچھلے ڈیرھ برس کے دوران ان تینوں بڑے اخراجات میں کافی اضافہ ہو چکا۔اس لیے کسان اور فارم ہاؤس والے بھی اپنی پیداوار ماضی کے مقابلے میں مہنگے داموں فروخت کر رہے ہیں۔

قدرتی و غیر قدرتی عوامل کی کارروائی جاری تھی کہ کوویڈ وبا نے نئے مسائل کھڑے کر دئیے۔ خوراک کی فراہمی کا عالمی نظام تّتربترّہو گیا۔ایندھن کی پیداوار بھی کم ہوئی۔

وبا کا حملہ جاری تھا کہ فروری 22ء سے روس اور یوکرین کی جنگ نئی آفت بن کر خصوصاً ایندھن اور خوراک کے عالمی نظاموں پہ نازل ہو گئی۔ ایندھن کی بڑھتی قیمتوں اور روس یوکرین جنگ نے کھاد کی قیمت پر براہ راست اثرات ڈالے اور کھیتی کا جزیہ اہم حصہ پہلے کی نسبت بہت مہنگا ہو گیا۔چونکہ جنگ بدستور جاری ہے۔

لہذا کھاد کی قلت و مہنگائی نے پاکستان سمیت دنیا بھر میں خوراککے نظام کو مذید خطرے میں ڈال دیا ہ۔معنی یہ کہ اب غذائیں کم پیدا ہونے کا خطرہ پوری دنیا پہ منڈلا رہا ہے۔اس کی بدولت کرہ ارض پر بھوک بڑھے گی اور لاکھوں نہیں کروڑوں غریب انسانوں کی زندگیوں کے چراغ گُل ہو جائیں گے۔یہ ایک بڑا مسئلہ بن چکا جس کی سنگینی کا احساس اہل پاکستان کو کم ہی ہے۔

سترہ اہم غذائی عناصر

اناج ہو یا سبزی، دال اور پھل، بیشتر غذائیں اگانے میں کھاد اہم کردار ادا کرتی ہے۔ہر پودے کو ’’17‘‘ غذائی عناصرکی ضرورت پڑتی ہے۔

ان میں سے کچھ اہم ہیں اور کچھ کم اہم۔ چودہ عناصر پودے مٹی سے جذب کرتے جبکہ تین ہوا و پانی سے لیتے ہیں۔یہ عناصر مٹی میں موجود ہونے چاہیں تب ہی وہ زرخیز بنتی ہے۔اپنی جڑوں کے ذریعے انھیں چوس کر ہی پودا نشوونما پاتا اور پروان چڑھتا ہے۔

اگر ایک غذائی عنصر کی مطلوبہ مقدار تھوڑی سی بھی کم ہو تو پودے کی نشوونما اور پیداوار متاثر ہوتی ہے۔کھیت یا باغ کی مٹی کو درکار تین اہم غذائی عناصر میں’’ نائٹروجن، فاسفورس اور پوٹاشیم‘‘ شامل ہیں۔

ان تینوں سے کم اہم عناصر سلفر(گندھک)، کیلشیم اور میگنیشم ہیں۔بقیہ کم اہم عناصر میں زنک، بورون، فولاد، تانبہ، مینگنیز، مولی بڈنیم ،کلورین، نکل، ہائڈروجن گیس، آکسیجن اور کاربن شامل ہیں۔سبھی غذائی عناصر مطلوبہ مقدار میں زرعی مٹی میں موجود ہونے چاہیں تب ہی وہ زرخیز بن کر بھرپور پیداوار دیتی ہے۔نیز پیداوار بھی معیاری ہوتی ہے۔

زمانہ قدیم میں صرف نامیاتی (organic)کھاد استعمال ہوتی تھی۔اس کی کھاد کی مختلف قسمیں تھیں، جیسے گوبر، دیگر حیوانوں کا فضلہ، انسانی فضلہ، کھیتی کا بچا کھچا مواد،معدنیاتی مواد اور کمپوزٹ(سوکھے پتوں، غذاؤں کے کچرے اور حیوانی فضلے کا مرکب)۔انیسویں صدی سے یورپی سائنس دانوں نے غیرنامیاتی(non organic) کھاد ایجاد کرلی۔

یہ انسان ساختہ کھاد مختلف کیمائی مادوں اور معدنیات کے ذریعے قدرتی گیس یا کوئلے کی مدد سے تیار کی جانے لگی۔ان کھادوں نے عالمی سطح پر خوراک کی پیداوار بڑھانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔انہی کے ذریعے بیسویں صدی میں زراعت کا ’’سبز انقلاب‘‘ برپا ہوا۔

وجہ یہ کہ نامیاتی کھاد حاصل کرنے کے ذرائع محدود تھے۔اسی لیے یہ کھاد کسانوں کو کم مقدار میں میسر تھی۔بیشتر کسان اپنے کھیتوں میں فی ایکڑ چند کلو کھاد ہی برت پاتے۔کم کھاد ڈالنے کی وجہ سے کھیت میں پیداوار بھی کم ہوتی ، نیز فصل کو نشوونما پانے میں کئی ماہ لگ جاتے۔چناں چہ کسانوں کو اپنی محنت کا پورا معاوضہ نہ ملتا اور ملک میں غذا کی قلت بھی رہتی جو اسے مہنگا کر دیتی۔

پیداوار بڑھ گئی

سائنس وٹکنالوجی کی ترقی کے باعث رفتہ رفتہ غیر نامیاتی کھادیں بکثرت تیار ہونے لگیں۔اس طرح دنیا بھر میں کھاد کی کمی دور ہوئی اور کھیتوں میں غیر نامیاتی کھادیں استعمال کرنے کا چلن پھیلتا گیا۔اب کسانوں کے لیے ممکن ہو گیا کہ وہ فی ایکڑ کئی کلو کھاد اور دیگر معدنی مواد کھیت میں ڈال کر پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ کر لیں۔

دنیا بھر میں نائٹروجن غیر نامیاتی کھادیں سب سے زیادہ استعمال ہوتی ہیں۔اس کے بعد فاسفورس اور پھر پوٹاشیم کی کھادوں کا نمبر آتا ہے۔عام طور پر نائٹروجن اور فاسفورس ملا کر مرکب کھاد بنائی جاتی ہے۔تاہم تینوں اہم عناصر کی مرکب کھاد بھی بنتی ہے۔

اگر کھیت کی مٹی کا تجزیہ کرنے سے معلوم ہو کہ اس میں کوئی مطلوبہ غذائی عنصر کم ہے تو اس پہ مشتمل نامیاتی یا غیر نامیاتی کھاد بھی ڈالی جاتی ہے۔مقصد یہی کہ فصل کی زیادہ سے زیادہ پیداوارحاصل ہو ۔خوراک کی پیداوار بڑھنے ہی سے دنیا کی آبادی میں بھی حیران کن تیزی سے اضافہ ہوا۔

ماہرین کی رو سے 1804ء میں کرہ ارض پہ ایک ارب انسان آباد تھے۔جب انسانوں کو غیر نامیاتی کھادیں میسر آئیں تو آبادی 1927ء میں دو ارب تک پہنچ گئی۔اس کے بعد یہ کھادیں بڑی مقدار میں تیار ہونے لگیں تو بنی نوع انسان کو وافر غذا ملنے لگی۔

اس تبدیلی کے باعث انسانوں میں زیادہ بچے پیدا کرنے کے رجحان نے جنم لیا کیونکہ اب خوراک باآسانی دستیاب تھی۔لہذا پہلے ارب کے بعد انسانوں کو دو ارب ہونے میں ایک سو تئیس سال لگے۔لیکن دو ارب ہونے کے بعد صرف تیتیس سال میں انسانی آبادی 1960ء میں تین ارب ہو گئی۔

اس کے بعد تو ہر چودہ پندرہ سال بعد انسانی آبادی میں ایک ارب انسانوں کا اضافہ ہونے لگا۔فی الوقت کرہ ارض پہ سات ارب اٹھانوے کروڑ انسان آباد ہیں۔خیال ہے کہ اسی سال آبادی آٹھ ارب ہو جائے گی۔

کھاد کا بحران

آبادی میں اضافے نے مگر کرہ ارض کے قدرتی وسائل پر بھی خاصا بوجھ ڈال دیا۔جبکہ انسانی سرگرمیاں بھی غذاؤں کی پیداوار میں رکاوٹیں ڈال کر زائد خوراک کا حصول مشکل بنا رہی ہیں۔بعض انسان ساختہ منفی سرگرمیوں کا بیان ہو چکا، ایک ایسی سرگرمی جنگیں کرنا بھی ہے۔

جنگوں میں روس اور یوکرین کی جنگ اہم ترین ہے جس نے خاص طور پہ ایندھن(تیل، گیس اور کوئلے)اور خوراک کی قیمتوں میں کئی فیصد اضافہ کر دیا۔دراصل روس دنیا میں کھاد کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے۔

اس کے پڑوسی، یوکرین اور بیلاروس بھی مختلف اقسام کی غیر نامیاتی کھادیں بڑی تعداد میں برآمد کرتے ہیں۔اعدادوشمار کی رو سے روس دنیا کی 36 فیصد نائٹروجن کھاد(ایمونیا اور یوریا) ،21 فیصد پوٹشایم کھاد اور 15 فیصد فاسفورس کھاد تیار کرتا ہے۔

روس اور اس کا پڑوسی، بیلارس ہی 75 فیصد پوٹاشیم کھاد دنیا بھر کو سپلائی کرتے ہیں۔جنگ شروع ہوتے ہی امریکا ویورپ نے روس اور بیلاروس پہ تجارتی پابندیاں عائد کر دیں۔اب وہ امریکا و یورپ اور ان کے حمایتی ملکوں کو کھاد وغیرہ برآمد نہیں کر سکتے۔

جنگ کے باعث یوکرین سے بھی کھادوں کی ترسیل رک گئی۔یوں عالمیمنڈی میں غیر نامیاتی کھادوں کی خاصی قلت ہو گئی۔

بتایا جا چکا کہ یہ کھادیں قدرتی گیس اور کوئلے کی مدد سے بنتی ہیں۔یورپی ممالک میں کارخانے روس سے درآمد شدہ گیس وکوئلے سے کھادیں بناتے تھے۔جنگ شروع ہوئی تو روس سے گیس وکوئلے کی آمد رک گئی۔

نتیجتہً یورپ میں کھادیں بانے والے اکثر کارخانے بند ہو گئے۔ان کی بندش نے عالمی منڈی میں کھادوں کی قلت مذید بڑھا ڈالی۔

منڈی کا اصول ہے کہ جس شے کی مقدار کم ہو اور اس کی طلب بڑھ جائے تو وہ خودبخود مہنگی ہو جاتی ہے۔چونکہ اب یورپ، جنوبی امریکا، امریکا،ایشیا اور افریقہ کے کئی ممالک عالمی منڈیوں سے کھادیں خریدنے لگے لہذا طلب میں اضافے سے ان کی قیمتیں بھی بڑھ گئیں۔

ماہرین کے مطابق فروری 22ء سے غیر نامیاتی کھادوں کی قیمتوں میں ’’30 سے 45 فیصد ‘‘تک اضافہ ہو چکا۔ترقی پذیر اور غریب ملکوں کے لیے یہ اضافہ تو ’’50 فیصد‘‘تک پہنچ چکا۔وجہ یہ ہے کہ اسی دوران ڈالر کی قدر میں اضافہ ہو گیا۔ڈالر کی قدر اس لیے بڑھی کہ امریکی حکومت نے اپنے ہاں مہنگائی پہ قابو پانے کی خاطر اپنی کرنسی کی شرح سود بڑھا دی۔

چناں چہ دنیا بھر میں لوگ ڈالر خریدنے لگے۔طلب میں اضافے نے ڈالر کی قیمت بڑھا دی۔پاکستانی روپے سمیت دنیا کی تمام کرنسیوں کے مقابلے میں ڈالر کی قدر بڑھ گئی۔لہذا غریب ممالک کا درآمدی بل بھی بڑھ گیا کیونکہ عالمی منڈی میں اشیا کی نوے فیصد خرید وفروخت ڈالر میں ہوتی ہے۔

کھاد نے حکومت گرا دی

کچھ ممالک میں حکمران طبقے کی نااہلی اور بے وقوفی کے باعث کھاد کا بحران پیدا ہوا۔سری لنکا میں تو کھاد حکومت کے خاتمے کا سبب بن گئی۔ہوا یہ کہ اپریل 21ء میں راجا پکشا حکومت نے غیر نامیاتی کھادوں اور کیڑے مار ادویہ کے استعمال پہ پابندی لگا دی۔حکومت کا استدلال یہ تھا کہ مقامی نامیاتی کھاد استعمال کرنے سے 40 کروڑ ڈالر کی سالانہ بچت ہو گی۔

نیز نامیاتی کھاد میں اگنے سے شہروں کو غذائیت بخش اور صحت بخش خوراک میسر آئے گی۔سری لنکن صدر، راجا پکشا کو یقین تھا کہ غیر نامیاتی کھادیں اور کیڑے مار ادویہ غذائوں کو آلودہ بلکہ نیم زہریلا کر دیتی ہیں۔

یہ سرکاری پابندی مگر کامیاب ثابت نہیں ہوئی بلکہ حکومت کے لیے مصیبت بن گئی۔ناکام ہونے کی بنیادی وجہ یہ کہ ترقی پذیر ملکوں کی روایت کے مطابق یہ منصوبہ بناتے ہوئے راجا پکشا حکومت نے کوئی ہوم ورک ، کوئی تحقیق نہ کی۔اسے معلوم ہی نہ ہو سکا کہ ملک میں نامیاتی کھاد کے ذخائر موجود نہیں۔چناں چہ بیشتر کسانوں کو بوائی کے وقت مطلوبہ نامیاتی کھاد نہ مل سکی۔

جنھیں تھوڑی بہت ملی، ان کے کھیتوں میں بھی پیداوار کم رہی۔یہی وجہ ہے، اگلے چھ ماہ میں سری لنکا میں چاول کی پیداوار ’’45 فیصد‘‘کم ہو گئی۔

سری لنکا میں چاول ہی عوام کا من بھاتا کھاجا ہے۔اس کی پیداوار کم ہوئی تو وہاں چاول بہت مہنگا ہو گیا۔اس مہنگائی پر قدرتاً عوام شور مچانے لگے۔

نچلے اور متوسط طبقوں کے خاندان تو ساری آمدن خوراک خریدنے پر خرچ کرنے لگے۔حکومت کو شہریوں کا پیٹ بھرنے کے لیے 45کروڑ ڈالر کا چاول درآمد کرنا پڑا۔یوں راجا پکشا حکومت جو زرمبادلہ بچانا چاہتی تھی، غلط منصوبے سے زیادہ خرچ ہو گیا۔یہی نہیں ،حکومت کو اربوں سری لنکن روپوں کی سبسڈی کسانوں کو دینی پڑی تاکہ وہ مالی نقصان سے بچ سکیں۔

یہ واضح رہے کہ ساٹھ ستر سال قبل سری لنکا سارا سال خوراک کی کمی کے بحران کا شکار رہتا تھا۔لوگ بہ مشکل ہی اپنا پیٹ بھر پاتے۔غربت کا دور دورہ تھا کہ کسانوں کی زرعی پیداوار بھی کم ہوتی۔پھر وہاں غیر نامیاتی کھادوں اور کیڑے مار ادویہ کے استعمال کا چلن شروع ہوا۔

ان کی بدولت بھارت وپاکستان کی طرح سری لنکا میں بھی زرعی انقلاب آ گیا۔خاص طور پہ چاول اور چائے کی پیداوار بہت بڑھ گئی۔اس تبدیلی سے نہ صرف شہریوں کو وافر غذا میسر آئی، بلکہ کسان چائے برآمد کر کے اچھی کمائی کرنے لگے۔

راجا پکشا کی پابندی نے مگر چائے کی پیدوار بھی کافی کم کر دی۔آخر نومبر 21ء میں سری لنکن حکومت نے چاول و چائے کی بوائی میں غیرنامیاتی کھاد اور کیڑے مار ادویہ استعمال کرنے کی اجازت دے دی۔ مگر تب تک کھادوں کی عالمی منڈی میں قیمت بڑھ چکی تھی اور وہ مہنگی ہو گئیں۔ اس دوران ملک میں خوراک کی قلت جنم لے چکی تھی۔جبکہ حکومت کا خزانہ خالی تھا۔وہ اب اس حیثیت میں نہیں تھی کہ غذائیں سستی کر کے عوام کو دے سکے۔

ایندھن اور خوراک کی بڑھتی مہنگائی کی وجہ سے عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔وہ احتجاجی مظاہرے کرنے لگے۔ جولائی 22ء میں انھوں نے صدارتی محل پہ دھاوا بول کر راجاپکشا کی حکومت کا بوریا بستر گول کر دیا۔

پاکستان میں کھاد کا نظام

پاکستان میں آزادی کے بعد جلد قدرتی گیس دریافت ہو گئی تھی۔اسی لیے یہاں غیر نامیاتی کھاد بنانے کے کارخانے لگ گئے۔ان کارخانوں کی بدولت پاکستانی کسانوں کو سستی غیر نامیاتی کھاد ملنے لگی۔ جن ممالک میں قدرتی گیس موجود نہیں، وہاں کسان مہنگی درآمد شدہ کھادیں استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔پاکستان میں ہر سال 45 لاکھ ٹن کھاد کاشت کاری میں کھپتی ہے۔

چین(ساڑھے چار ٹن)، بھارت(تین کروڑ ٹن)، امریکا(دو کروڑ دس لاکھ ٹن)، برازیل (ڈیرھ کروڑ ٹن)،انڈونیشیا(پینسٹھ لاکھ ٹن)اور کینیڈا (اڑتالیس لاکھ ٹن)کے بعد پاکستان غیر نامیاتی کھادیں استعمال کرنے والا دنیا کا ساتواں بڑا ملک ہے۔

وطن عزیز میں نائٹروجن اور فاسفورس پر مبنی کھادیں زیادہ استعمال ہوتی ہیں جنھیں ’’یوریا‘‘اور ’’ڈی اے پی‘‘کہا جاتا ہے۔وجہ یہ کہ مقامی طور پہ تیار ہونے کے باعث یہ سستی ہیں۔اسی لیے پاکستانی کسان انھیں ترجیع دیتے ہیں۔

وہ پوٹاشیم والی کھادیں بہت کم استعمال کرتے ہیںکہ درآمد ہونے کی وجہ سے یہ مہنگی ہیں۔مگرکھیت میں پوٹاشیم مطلوبہ مقدار میں نہ ہونے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ فصل کی پیداوار بڑھ نہیں پاتی۔پوٹاشیم کھاد پیداوار بڑھانے کے لیے ضروری ہے۔اس کے نہ ہونے سے فصل کی کوالٹی یا معیار بھی کمتر رہتا ہے۔پودے پانی کو اچھی طرح نہیں لے پاتے۔مزید براں کیڑے مکوڑوں سے پیدا شدہ بیماریوں کا جلد نشانہ بن جاتے ہیں۔

کم ہوتی قدرتی گیس

ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وطن عزیز میں قدرتی گیس کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔جبکہ طلب میں مسلسل اضافہ جاری ہے۔اسی لیے اب قدرتی گیس بھی درآمد کی جاتی ہے جو کافی مہنگی ہو چکی۔اس باعث حکومت نے حالیہ موسم سرما میں گیس کو ’’300 فیصد‘‘تک مہنگی کرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔اگر اس منصوبے پر عمل درآمد ہوا تو پاکستان میں نائٹروجن اور فاسفورس پہ مبنی کھادیں بنانا مہنگا عمل بن جائے گا۔لہذا مستقبل میں یہ کھادیں مزید مہنگی ہوں گی۔

اب بھی مقامی کارخانے کھاد کی طلب پوری نہیں کر پا رہے۔ اس باعث حکومت تین لاکھ ٹن یوریا درآمد کر رہی ہے۔

یاد رہے، مقامی طور پہ تیار کردہ یوریا کھاد کی 50کلو والی بوری فی الوقت ڈھائی ہزار روپے میں دستیاب ہے تاہم وہ تلاش بسیارکے بعد ملتی ہے۔جبکہ یہی کھاد درآمد کی جائے تو 50کلو کی بوری ساڑھے چھ ہزار تا نو ہزار روپے میں پڑتی ہے۔

اسی طرح مقامی ڈی پی اے کھاد کی 50کلو والی بوری چودہ ہزارروپے میں میسر ہے۔جبکہ عالمی منڈی میں اس کی قیمت 920ڈالر فی ٹن(ایک ہزار کلو)تک پہنچ چکی.اس خرچ میں ٹرانسپورٹ وغیرہ کے اخراجات ملائے جائیں تو کل خرچہ بڑھ کر بارہ تیرہ سو ڈالر تک جا پہنچتا ہے۔

بجلی اور پٹرول کے بعد کھادو بیج کا مہنگا ہو جانا پاکستان اور دیگر ملکوں کے کسانوں کی نگاہ میں بڑا مسئلہ بن چکا۔سونے پر سہاگہ بیشتر پاکستانی کسان ناخواندہ ہیں۔انھیں یہ علم ہی نہیں کہ بو وقت بیجائی کھیت کی مٹی میں کون سے غذائی عناصر کم یا زیادہ ہیں۔

اس لیے پیداوار توقع سے بہت کم رہتی ہے۔یہ کسان عموماً آڑھتی یا مقامی دلال کی ہدایات پر عمل کرتے ہیں ۔وجہ یہ کہ کسان انہی سے بیج وکھاد خریدنے کی خاطر سود پر رقم قرض لیتے ہیں۔اسی رقم کے سہارے کھیتی شروع ہوتی ہے۔اگر کسی وجہ سے فصل اچھی نہ تو بیچارا کسان سود کے چنگل میں پھنس جاتا ہے۔سود ادا نہ کرنے کی وجہ سے ہی ہر سال بھارت میں کئی سو کسان خودکشی کر لیتے ہیں۔

حکمران طبقہ عوامی انقلاب سے خبردار رہے

حکومت پاکستان کھاد بنانے والے کارخانوں کو گیس سستے داموں فراہم کرتی ہے۔غریب کسانوں کو کھاد خریدنے کی خاطر سبسڈی دیتی ہے(گو کسانوں کا دعوی ہے کہ بیشتر حصہ افسرشاہی کھا جاتی ہے)۔مگر قدرتی آفات، آب وہوائی تبدیلیوں اور زرعی سامان مہنگا ہونے کے باعث پاکستان میں قابل کاشت رقبہ کم ہو رہا ہے جو ہمارے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔

کیونکہ اناج، سبزی اور دالیں مطلوبہ مقدار میں پیدا نہ ہوئیں تو پاکستان میں غذائیں مذید مہنگی ہوں گی۔اسی طرح شعبہ مویشی پروری بھی سکڑ رہا ہے۔عالم یہ ہے کہ دودھ، انڈے اور گوشت غریب ہی نہیں متوسط طبقے کی پہنچ سے باہر ہو چکے۔چالیس پچاس ہزار ماہانہ کمانے والا بھی اب یہ غذائیں نہیں خرید سکتا خصوصاً جب وہ کرائے کے مکان میں رہے اور اس کے تین چار بچے ہوں۔

خطرناک صورت حال دیکھتے ہوئے ضروری ہے کہ حکومت پاکستان خاص طور پہ چھوٹے کسانوں کے لیے امدادی پیکج بنائے۔انھیں بیج ، کھاد اور کیڑے مار ادویہ سستے داموں فراہم کی جائیں۔بجلی اور پٹرول میں سبسڈی دی جائے۔

ان اقدامات سے چھوٹے کسانوں کو فائدہ ہو گا اور وہ کھیتی باڑی ترک نہیں کریں گے۔ابھی تو بڑھتے اخراجات کی وجہ سے کئی کسان رئیل اسٹیٹ والوں کو اپنی زرعی زمینیں فروخت کر رہے ہیں۔جہاں پہلے لہلاتے سرسبز کھیت تھے، وہاں کنکریٹ کے جنگل نمودار ہو چکے۔

وطن عزیز میں زرعی رقبہ کم ہوتا رہا تو ظاہر ہے، خوراک کی کمی جنم لے گی۔تب کروڑوں پاکستانی کیونکر پیٹ بھر سکیں گے؟پاکستان میں ہر سال 48 لاکھ انسانوں کا اضافہ ہو رہا ہے۔انھیں غذا سمیت تمام ضروریات زندگی درکار ہیں۔

اگر غذائیں مہنگی تر ہو کر عام آدمی کی دسترس سے باہر ہوئیں تو عوام کا پیٹ بھرنا حکمران طبقے کے واسطے سب سے بڑا مسئلہ بن جائے گا۔لہذا اپنی بقا کے لیے حکمران طبقے کو شعبہ زراعت کی ترقی وبہتری کے لیے فی الفور جامع منصوبہ شروع کرنا چاہیے۔

صنعت وتجارت وکاروبار کی اہمیت اپنی جگہ مگر ابھی زرعی شعبہ کروڑوں پاکستانیوں کے لیے اہم تر ہو چکا۔ان کو وافر و ارزاں خوراک درکار ہے۔اس شعبے کے مسائل حل نہ ہوئے تو بھوک کے ستائے عوام غصب ناک ہو کر پورا حکومتی نظام ملیامیٹ کر سکتے ہیں جیسا کہ انقلاب فرانس وایران کے دوران ہوا تھا۔

مہنگی کھاد اور یورپی کسان
روس سے گیس کی بندش کے باعث یورپ میں کھاد بنانے والے کئی کارخانے بندہو چکے۔لہذا یورپ میں کھاد قلت کی وجہ سے کافی مہنگی ہو چکی۔یورپی کسان اس قلت ومہنگائی کا مختلف طریقوں سے مقابلہ کر رہے ہیں۔مثلاً وہ گندم،جو اور السی کی جگہ دالیں اگا رہے ہیں جنھیں کم کھاد درکار ہوتی ہے۔

(مگر یوں گندم، جو اور السی کی قلت ہونے کا خدشہ ہے۔)جدید آلات بھی کسانوں کی مدد کر رہے ہیں۔یہ آلات پودوں کی نشوونما سے انھیں باخبر رکھتے اور بتاتے ہیں کہ ان کو کب کھاد کی ضرورت ہے۔اس طرح دوران کاشت کم کھاد استعمال ہوتی ہے۔

مویشی پالنے والے یورپی بھی کھاد کی قلت ومہنگائی سے پریشان ہیں۔وجہ یہ کہ وہ میدانوں میں کھاد ڈالتے ہیں تاکہ گھاس وافر اُگ سکے۔چارے میں بھی کھاد ڈالی جاتی ہے تاکہ مویشی دودھ زیادہ دیں۔اب کھاد کم ڈالنے سے گھاس بھی کم اگے گی۔کم غذا کھا کر مویشی بھی تھوڑا دودھ دیں گے۔یوں یورپ میں دودھ اور گوشت کی پیداوار میں کمی کا خطرہ جنم لے چکا۔

پیرومیں کھاد کی شدید قلت
بہ لحاظ آبادی پیرو جنوبی امریکا کا تیسرا بڑا ملک ہے۔آبادی تین کروڑ تیس لاکھ ہے۔یہی وہ دیس ہے جہاں سات ہزار سال پہلے عوامی سبزی، آلو اگائی گئی۔مگر آج یہ ملک بیشتر غذائیں مثلاً گندم، چاول، پکانے کا تیل اور کھادیں بھی درآمد کرتا ہے۔

بین الاقوامی حالات کے سبب پیرو میں بھی اشیائے خورونوش کی قیمتیں دگنی تگنی بڑھ چکیں۔اس بنا پر پیرو میں شدید مہنگائی ہے۔اقوام متحدہ کی رو سے پچاس فیصد آبادی کو پیٹ بھر کر کھانا نہیں مل رہا۔حکومت ہر سال کروڑوں ڈالر خرچ کر کے کھادیں منگواتی تھی۔مگر کھاد مہنگی ہونے اور ڈالر کی قدر بڑھنے سے درآمد آدھی ہوچکی۔

پیرو میں عام کھاد کا 50 کلو بیگ 20ڈالر سے بڑھ کر 65ڈالر کا ہو چکا۔اسی لیے پیرو کے پچیس لاکھ کسانوں میں سے اکثریت نے درآمدی کھادوں کو ترک کیا اور مقامی نامیاتی کھاد استعمال کرنے لگے جو بحری پرندوں کی بیٹ(guano)سے بنتی ہے۔

یہ بیٹ پیرو کے ساحلی مقامات اور جزائر پر بکثرت ملتی ہے۔اس میں تینوں بنیادی عناصربکثرت ہوتے ہیں۔اسی لیے بہترین کھاد سمجھی جاتی ہے۔

پیرو حکومت نے بھی سرکاری بحری جہاز متعین کر دئیے تاکہ وہ جزائر سے بیٹ جمع کر کے کسانوں کو فراہم کر سکیں۔اس کھاد کا 50کلو بیگ صرف تیرہ ڈالر میں دستیاب ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ پیرو میں سالانہ 30تا 40ہزار ٹن ہی یہ کھاد پیدا ہوتی ہے۔

اس مقدار سے صرف پندرہ فیصد کسانوں کی ضروریات پوری ہو سکتی ہیں۔بقیہ 85فیصد کسان مجبور ہیں کہ مہنگی درآمدی کھاد استعمال کریں یا کاشت کاری ہی ترک کر دیں۔

غرض پیرو میں کھاد سمیت دیگر زرعی سامان بہت مہنگا ہونے سے سنگین مسئلہ جنم لے چکا۔وہاں کئی کسان کھیتی باڑی چھوڑ رہے ہیں۔اس باعث قلت سے غذائیں مذید مہنگی ہوں گی۔اور حالات بدترین ہو جائیں گے۔

اُدھر پیرو کا صدر کرپشن کے الزامات کا سامنا کرتے ہوئے عدالتی جنگ لڑ رہاہے۔اس کی تمام تر توجہ کرسی بچانے پہ مرکوز ہے۔لہذا وہ زراعت کے مسائل حل نہیں کر پا رہا۔شنید ہے کہ غذائوں کی قلت ومہنگائی جاری رہی تو غصیلے عوام اس کی حکومت کا خاتمہ کر دیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔